دسمبر۔۔۔ستم گر

314

یہ 2000ء کی بات ہے، ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آکر آباد ہوا… نثار صاحب، اُن کی اہلیہ حسنہ اور دو بچے، ایک بیٹا ایاز اور ایک بیٹی روبینہ۔ یہ بہت اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی تھی۔ حسنہ آنٹی انتہائی خوب صورت، خوب سیرت، بااخلاق اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ان کی بیٹی روبینہ جو میری ہم عمر تھی، وہ بھی اپنی امی کی طرح بہت پیاری اور خوش اخلاق تھی۔ جلد ہی ہم دونوں بہت گہری دوست بن گئیں۔ میں اکثر اپنا ہوم ورک کرنے روبینہ کے گھر چلی جاتی تھی، کیوں کہ آنٹی ہوم ورک کرانے کے بعد ہمیں کہانیاں بھی سناتی تھیں۔ لیکن جب بھی دسمبر کا ذکر آتا تو وہ بہت اداس ہوجاتی تھیں۔ ہم جب اُن سے اداسی کی وجہ پوچھتے تو بس اتنا کہہ دیتیں:

’’بیٹا! دسمبر دراصل ستم گر ہے۔‘‘ اس سے اُن کی بہت سی تلخ یادیں جڑی ہوئی تھیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کو یاد کرکے وہ روتی تھیں۔

آئیے اُن کی کہانی اُنہی کی زبانی سنتے ہیں:

’’میرا نام حسنہ ہے، میری پیدائش سید پور، مشرقی پاکستان کی ہے۔ جس وقت مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی۔ ہم چار بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کا انتقال بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہی ہوگیا تھا، اس لحاظ سے بہنوں میں سب سے بڑی میں تھی، مجھ سے چھوٹی دو اور بہنیں تھیں۔ اللہ نے مجھے حُسن کی دولت سے مالا مال کیا تھا۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے الگ تھی۔ میرے والد کا شمار سید پور کے مشہور ترین اور امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ ہمارا حویلی نما گھر وہاں لال گیٹ کے نام سے مشہور تھا۔ والد صاحب نے ہم بہنوں کو اسکول آنے جانے کے لیے رکشہ لگوایا ہوا تھا۔ رکشے والے چاچا بنگالی تھے، ہم بہنیں اسی رکشے میں اسکول آیا جایا کرتی تھیں۔ جب مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع ہوا تو دیگر علاقوں سے بھی لوگوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے سیدپور کا رخ کیا۔ ہمارا گھر بھی اُس وقت پناہ گزینوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ علاقے کے بہت سارے خاندانوں نے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔

ہمارا گھر چونکہ بہت بڑا اور حویلی نما تھا، اس کے اندر ایک چھوٹا سا گراؤنڈ بھی تھا۔ ہم سب بچے شام کو وہاں حالات کی نزاکت سے بے خبر خوب کھیلا کرتے تھے۔ رات کو بلیک آؤٹ ہوتا اور سائرن بجائے جاتے تو ہم سب لوگ چھپ جاتے۔ اسے ہم کھیل سمجھتے تھے، مگر جب اپنے والد صاحب کو پریشان دیکھتی اور دیگر تمام لوگوں کو بھی خوف زدہ اور ڈرا سہما دیکھتی تو پریشان ہوجاتی تھی کہ معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے۔ اور آخر ایک دن میں نے ابو کو دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا، وہ امی سے بار بار کہہ رہے تھے ’’سب کچھ ختم ہوگیا… سب کچھ ختم ہوگیا، بنگلہ دیش بن گیا…‘‘ بنگلہ دیش بننا تھا کہ غیر بنگالیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جانے لگے۔

میرے والد صاحب نے کافی دکانیں اور گھر وغیرہ کرائے پر دیے ہوئے تھے جن کا کرایہ میرے بھائی وصول کیا کرتے تھے۔ ان کو ٹرک کے ذریعے روندا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔ اُس وقت سیدپور کے اسپتالوں میں آپریشن کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا، لہٰذا ان کو علاج کے لیے ڈھاکہ لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بڑی جدوجہد کے بعد ان کی جان تو بچالی لیکن ان کی ٹانگ میں ہمیشہ کے لیے عیب رہ گیا۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک فارم ہاؤس تھا جس کی رکھوالی ہندو بنگالی کرتے تھے، وہاں سے ہمارے لیے روزانہ دودھ پہنچاتے تھے۔ ناریل،کٹھل، آم اور امرود وغیرہ کے باغات تھے جن کے پھل آیا کرتے تھے۔ ہمارے والد صاحب کو ان پر اندھا اعتماد تھا۔ ایک دن وہ لوگ والد صاحب کو گھر سے بلا کر لے گئے کہ کچھ کام ہے۔ ان لوگوں نے ’’خرچہ کھاتا‘‘ کے نام سے ایک ٹارچر سیل بنایا ہوا تھا جہاں وہ لوگوں کو لے جاتے اور کرسی پر بٹھا کر دونوں طرف سے درانتی( گھاس کاٹنے کا آرا) چلا دیتے کہ سر دھڑ سے الگ ہوجاتا تھا۔ میرے والد کو بھی دھوکے سے وہاں لے گئے اور جعلی کاغذات (جو انہوں نے پہلے ہی سے تیار کر رکھے تھے) پر زبردستی دستخط کرالیے، انہوں نے دھمکی دی کہ اگر آپ نے دستخط نہیں کیے تو آپ کی لاش کا بھی پتا نہیں چلے گا۔ میرے والد نے اُن سے صرف یہ کہا کہ تم مجھ سے اگر یہ مانگ لیتے تو میں اپنے بچوں کا صدقہ سمجھ کر تمہیں دے دیتا، لیکن ٹارچرسیل میں لاکر تم نے میرے اعتماد کا خون کردیا۔

میرے بڑے بھائی کو جو کہ اُس وقت ایف ایس سی میں تھے، کرنٹ لگا کر ٹارچر کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ ساری زندگی بے اولاد رہے۔ ہمارے علاوہ اور بھی ایسے بہت سے خاندان ہیں جن پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ میرے والد صاحب کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا جن کی رہائی کی ایک الگ داستان ہے۔

اُس وقت مکتی باہنی کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی کہ وہ جیسے چاہیں اردو بولنے والوں (بہاریوں) کا جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا استحصال کریں۔ لہٰذا انہیں چن چن کر شہید کیا گیا، اُن کے گھروں کو آگ لگا دی گئی، جو جان بچانے کے لیے اپنے گھروں سے نکلتے تھے انہیں گولی مار دی جاتی تھی، بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہ چھوڑا گیا، خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ غرض، ظلم و ستم کی وہ داستان رقم کی گئی جو کہ چشم فلک نے کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔‘‘

حسنہ آنٹی کی داستان سن کر میں سوچتی ہوں کہ وہ دسمبر کو ستمگر کہتی ہیں تو ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ سقوطِ ڈھاکا کے وقت خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج بھی ’’بہاری کیمپس‘‘ وہ زخم ہیں جو کبھی مندمل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

سانحہ مشرقی پاکستان تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ پیارا ملک پاکستان تعصب اور لسانیت کی بھینٹ چڑھا، سیاست دانوں کی ملی بھگت اور سازشوں کی بھینٹ چڑھا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اس سانحے سے سبق نہیں لیا گیا۔ اب بھی سازشیں جاری ہیں۔ قومیتوں کو اُن کے جائز حقوق نہ دے کرنفرتیں پروان چڑھائی جارہی ہیں۔ تعصب پر مبنی نعروں کی کہیں کہیں گونج اٹھتی ہے تو دل ڈرتا ہے۔ نظریۂ پاکستان سے وفادار دانش وروں اور محبانِ وطن پر فرض ہے کہ اس سانحے سے حاصل اسباق پوری دیانت داری سے قوم کے سامنے رکھیں، کہ اب پاکستان مزید کسی دھچکے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

حصہ