عشق رسول کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی،اچھی تنقید سے معیاری ادب تخلیق ہوتا ہے،معروف شاعرو ادیب رفیع الدین راز کی جسارت میگزین سے گفتگو
جسارت میگزین: کیا آج کے تنقید نگار اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟
رفیع الدین راز: پاکستان میں تنقید تو لکھی جا رہی ہے لیکن معیاری تنقید کی کمی ہے۔ مغربی ممالک تنقید نگاری میں ہم سے آگے ہیں جب کہ ہندوستانی تنقید کا معیار بھی بہتر ہے۔ فی زمانہ تنقید نگار اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے بلکہ دوستیاں نبھا رہے ہیں۔ وہ کسی بھی فن پارے کی خرابیاں بیان کرنے سے ڈرتے ہیں‘ اچھی تنقید نہ ہونے سے ادب کا معیار متاثر ہو رہا ہے۔
جسارت میگزین: پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا نے ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
رفیع الدین راز: زبان و ادب کے فروغ میں اب پرنٹ میڈیا کا وہ کردار نہیں رہا جو آج سے چند برس پہلے تک تھا۔ کاروباری مزاج نے پرنٹ میڈیا کو ادب سے دور کر دیا ہے۔ آج کا زمانہ سائنس کا ہے جو اس کے ساتھ نہیں چلے گا وہ رجعت پسند ادیب کہلائے گا۔ الیکٹرونک میڈیا کے باب میں بہت سے چینل فعال ہیں لیکن وہاں ادبی پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بہت سے اینکرز کی اردو خراب ہے وہ غلط تلفظ ادا کر رہے ہیں جس سے اردو میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
جسارت میگزین: کیا حکومتی ادارے زبان و ادب کے فروغ میں معاون ہیں؟
رفیع الدین راز: حکومتِ پاکستان نے زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف ادارے قائم کیے ہیں اور انہیں فنڈز بھی دیے جا رہے ہیں لیکن یہ ادارے اپنے من پسند قلم کاروں کی پروموشن میں مصروف ہیں۔ جینوئن قلم کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
رفیع الدین راز: شاعری کا انسانی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے لہٰذا شاعری سے سماج کا متاثر ہونا لازمی ہے میں ادب برائے زندگی کا قائل ہوں۔ زندگی کی تمام حسیات شاعری میں شامل ہیں‘ ہر شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ ہم کسی بھی طرح زمینی حقائق سے رُو گردانی نہیں کر سکتے اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ شاعری میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ لفظیات و استعارات بدلتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں غزل کا جو انداز تھا آج اس میں بہت کچھ بدل چکا ہے‘ آنے والے وقتوں میں مزید تبدیلیاں رونما ہوں گی لیکن جو بھی ادب زندگی سے الگ ہو جائے گا وہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ ادب ہدایت کے مطابق نہیں لکھوایا جا سکتا۔
جسارت میگزین: کیا نثری نظم ترقی پزیر ہے؟
رفیع الدین راز: نثری نظم لکھنے والے شعرا کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہیٔ اس لیے اردو ادب میں اس کی جگہ نہیں بن پا رہی یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات اچھی نثری نظمیں سامنے آجاتی ہیں۔ نثری نظم کو ہم شاعری میں نیا تجربہ کہہ سکتے ہیں اس میں ردیف‘ قافیے نہیں ہوتے نہ ہی بحر کی کوئی پابندی ہوتی ہے۔ نثری نظم کو لوگوں نے شاید اسی لیے اپنایا ہے کہ اس میں آسانیاں ہیں۔ کوئی بڑا خیال نثری نظم کو جان دار بنا سکتا ہے لیکن نثری نظم کا کوئی مستقبل نہیں ہے لوگ نثری نظم کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟
رفیع الدین راز: اردو زبان کا مستقبل روشن ہے‘ یہ جس وقت پیدا ہوئی تھی اس کے اطراف کئی مضبوط زبانیں موجود تھیں اردو نے ان کے درمیان اپنے قد و قامت میں اضافہ کیا اور آج یہ زبان دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہے۔ یہ بہت سخت جان زبان ہے ہر مشکل دور میں زندہ رہنے کا ہنر جانتی ہے۔ پاکستان کی دفتری زبان انگریزی ہے جب کہ اردو قومی زبان ہے لیکن ہم انگریزی کے زیر اثر ہیں‘ انگریزی روزگار کی زبان ہے۔ اردو زبان کا کسی بھی علاقائی زبان سے کئی جھگڑا نہیں ہے علاقائی زبانوںکی ترقی سے اردو کا مستقبل وابستہ ہے۔ ہر پاکستانی اردو بولتا ہے‘ یہ ہمارے ملک میں رابطے کی زبان ہے اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور کچھ دنوں کے بعد وہی الفاظ اردو کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آج بھی انگریزی‘ ترکی‘ فارسی اور عربی کے علاوہ ہندی کے بے شمار محاورے اور الفاظ اردو میں شامل ہیں۔
جسارت میگزین: کیا نعت کو ہم اصنافِ سخن میں شامل کر سکتے ہیں نیز نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟
رفیع الدین راز: نعت کا مطلب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف ہے‘ یہ سلسلہ نثر میں بھی ہو سکتا ہے اور نظم کی صورت میں بھی نعت ہو سکتی ہے۔ نعت نگاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوئی تھی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا کیوں کہ رسول اکرمؐ کا ذکر بلند کرنے کی ذمے داری اللہ نے لی ہے۔ نعت ایک صنفِ سخن بن چکی ہے پہلے پہل نعت میں صرف شمائلَ رسول بیان ہوتے تھے لیکن اب سیرتِ رسول اور مقاصدِ نبوت کے علاوہ دیگر مسائل بھی نعت کا حصہ ہیں اس کے علاوہ ہم نعت میں اپنی آرزوئوں کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ تمام مسائل کا حل اتباعِ رسول میں ہے۔ نعت میں غلو کی گنجائش نہیں ہے اس کی علاوہ نعت میں عبد و معبود کا فرق وضح ہونا چاہیے۔ نعت میں تنقید نگاری کی گنجائش ہے کہ اچھے الفاظ کا استعمال نعت کی خوب صورتی میں اضافہ کرتا ہے نعت ایک باعثِ نجات عمل ہے جب تک ہم نعتیہ محفل میں بیٹھے ہتے ہیں ہم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ اب تو نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ تخلیقی‘ تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے۔
جسارت میگزین: کیا اردو ادب روبہ زوال ہے؟
رفیع الدین راز: ادب روبہ زوال نہیں ہے آج بھی اچھے ناول‘ اچھے افسانے لکھے جا رہے ہیں اچھی شاعری ہو رہی ہے ادب پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہے‘ آج بھی نوبل انعام جن تخلقیات پر دیا جارہ اہے ان کا معیار کسی طور ماضی کے ادب سے کم نہیں ہے آج بھی آپ ادبی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو بہت سے قدآور قلم کاروں بہترین ادب تخلیق کر رہے ہیں ہم بنیادی طور پر ماضی کی ثنا خوانی کرتے ہیں اور یہ بات کوئی جرم نہیں ہے لیکن اپنے عہد کو نظر انداز کرنا جرم کے مترادف ہے ہم اپنے عہد کی تخلیقات کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہم ستائش باہمی کی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں جس سے ادبی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔
جسارت میگزین: وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے کتب بینی متاثر ہو رہی ہے؟
رفیع الدین راز: ہمارے یہاں کتب بین کو قومی مسئلے کے طور پر کبھی نہیں لیا گیا۔ مغربی ممالک میں کتب بینی کی عادت ابتدائی عمر میں ہی ڈال دی جاتی ہے۔ طلبہ و طالبات اسکول کی زندگی میں ہی کتاب سے اس طرح جڑ جاتے ہیں کہ مطالعہ ان کی عادتوں میں شامل ہو جاتا ہے اور ایسا شامل ہوتا ہے کہ مضبوط الیکٹرونک میڈیا کے ہوتے ہوئے بھی کتاب سے ان کا رشتہ کمزور نہیں پڑتا۔ ہمارے ملک میں ایک ایسا دور بھی تھا جب ہر علاقے میں لائبریریاں ہوتی تھیں اور لوگ کتابیں پڑھتے تھے اب لائبریری کا نظام ختم ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کتب بینی کا شعبہ اس لیے بھی کمزور ہو رہا ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ اور دیگر الیکٹرونک میڈیا نے کتاب سے قاری چھین لیا ہے۔
جسارت میگزین: ادب میں گروہ بندی سے نقصان ہو رہا ہے یا فائدہ؟
رفیع الدین راز: ادب میں گروہ بندی کی روایت بہت پرانی ہے میر و غالب کے زمانے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اس حوالے سے فوائد بہت کم ہیں اور نقصان زیادہ ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں‘ مخالف گروہ کے اچھے کام کی بھی توصیف نہیں کرتے اب تنقید برائے تعمیر کر رجحان ختم ہوتا جارہا ہے بلکہ ذاتیات پر حملے ہو رہے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کی رہائش امریکا میں ہے‘ وہاں کی ادبی سرگرمیوں پر کچھ روشنی ڈالیں۔
رفیع الدین راز: اس وقت شمالی امریکا برصغیر پاک و ہند کے بعد اردو ادب کا سب سے زیادہ فعال علاقہ ہے۔ مونٹریال سے لے کر لاس اینجلس تک ادب تنظیمیں قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں‘ وہاں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں اور تنقیدی نشستوں کے علاوہ مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی نشستیں تو تقریباً ہر شہر میں ہو رہی ہیں وہاں کے شاعر اپنی تخلیقات میں وہاں کے مسائل و تجربات لکھ رہے ہیں افسانوں میں بھی یہ تجربات ہو رہے ہیں اس کے علاوہ تراجم بھی ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اردو ادب والے دوسروں کے خیالات سے آشنا ہو رہے ہیں۔