اے دل تجھے کیسے سمجھائوں

289

رمیز : مما! پلیس آپ سونیا سے مل کر دیکھیں… وہ یقیناً آپ کو پسند آئے گی… پلیس مما…
مما: ارے میں جانتی ہوں ان واہیات لڑکیوں کو، گھر سے باہر نکلتی ہی اس لیے ہیں کہ تم جیسے بیوقوف لڑکوں کو پھانسے، مجھے نہیں ملنا اس سے۔
رمیز: مما سونیا ایسی نہیں دوسال سے ہماری دوستی ہے ہم ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں میرے علاوہ وہ کسی سے بات بھی نہیں کرتی پلیز مما ایک بار اس سے مل کر تو دیکھیں۔
…٭…
رمیز پچھلے کئی ماہ سے مما کو سونیا کے بارے میں بتا چکا تھا لیکن کسی طرح بھی وہ اس شادی کے لیے تیار نہیں تھیں۔
آخر رمیز نے اپنے والد سے بات کی کہ وہ صرف شادی کرے گا تو صرف سونیا سے… ورنہ یہ گھر چھوڑ جائے گا۔
…٭…
رمیز کے والد: عالیہ تم اپنی ضد کی وجہ سے بیٹے کو کھو دو گی اس کی شکل دیکھنے کے لیے ترس جائو گی اپنی ضد چھوڑو اسے اپنی پسند سے شادی کرنے دو۔
رمیز کی مما: (غصے سے) آگئے نا آپ اس کی باتوں میں دیکھنا، یہ پڑھی لکھی لڑکیاں کب سسرال والوں کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہیں تمہارے بیٹے کو لے اڑے گی اور میں ہاتھ ملتی رہ جائو ں گی۔
ڈائن: جس نے ابھی سے میرے بیٹے کو قابو کیا ہوا ہے آگے چل کر نا جانے کیا کرے گی…
رمیز کے والد (ہنس کر) آگے بھی اس کا مقابلہ تمہارے ساتھ ہے… تم اس کو اس گھر میں ٹکنے دو گی؟
…٭…
سونیا سے رمیز کی شادی تو ہو گئی لیکن پہلے دن سے ہی اس کی ساس کا رویہ سخت نا گوار تھا گرچہ بڑی بہو کو بھی اس نے ناکوں چنے چبوائے ہوئے تھے وہ بھی سسک سسک کر گھر میں پڑی ہوئی تھی… لیکن سونیا سے تو اس کا بیر تھا…
…٭…
سونیا کی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں اس نے اپنی ساس کو اپنے آفس جوائن کرنے کے متعلق بتایا تو وہ آپے سے باہر ہو گئی لیکن رمیز نے مما کو بڑی مشکل سے راضی کیا… وہ راضی تو ہو گئی لیکن ہر وقت سونیا کو اس کی جلی کٹی سننی پڑتی اس نے پوری کوشش کی کہ ساس کو راضی و خوش رکھ سکے آخر اس نے بھی اس ماحول سے سمجھوتا کر لیا…
ہونا تو یہ چاہیے کہ بچے کی پیدائش کے بعد وہ بہو سے تعلقات بہتر کر لیتی لیکن پہلے سے بھی زیادہ کشیدگی پیدا ہو گئی اس نے بالکل منع کر دیا کہ وہ پوتے کو سنبھالے گی اگر نوکری نہیں چھوڑ سکتی تو بیٹے کو لے کر جائے آخر مجبوراً سونیا صبح بچے کو ماں کے گھر چھوڑ کر پھر دفتر جاتی اور واپسی میں اسے لیتی ہوئی آتی… جیسے ہی سونیا اور رمیز بچے کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے رمیز کی والدہ کے طعنے تشکے شروع ہو جاتے۔
…٭…
سونیا: رمیز میں چار سال سے اذیت کی زندگی صرف آپ کی وجہ سے گزار رہی ہوں میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آپ کو آپ کے والدین سے جدا کروںلیکن… آپ سب دیکھ رہے ہیں میں نے ہر ممکن کو شش کی۔ لیکن مما…
رمیز: مما بری نہیں ہیں… وہ تھوڑی سخت مزاج ہیں دوسری بھابھیاں بھی تو ان کے ساتھ گزارا کر رہیں ہیں۔
سونیا: ان کے ساتھ اور میرے ساتھ ان کے رویے میں بہت فرق ہے۔
…٭…
سونیا کی بات غلط بھی نہ تھی مما نہ صرف سونیا کو ہر وقت برا بھلا کہتی تھیں بلکہ کوئی موقع ایسا نہیں جانے دیتی جب رمیز مما کے ساتھ اکیلا ہو اور مما نے سونیا کے خلاف اس کے کانوں میں زہر انڈیلنے کی کوشش نہ کی ہو بلکہ اب تو ا کثر اس کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالتی کہ وہ بے حیا ہے بن سنور کر دوسرے مردوں کو جلوہ دکھانے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے…
وہ تمہیں ایک دن دھوکہ دے جائے گی اس سے اپنی جان چھڑائو… رمیز سونیا کو اچھی طرح جانتا تھا لیکن مما کے سامنے سے خاموشی سے اٹھ جاتا… اب جب سونیا نے اسے الگ گھر لینے کے لیے کہا تو رمیز کو بھی ان تمام مسائل کا حل یہی نظر آیا۔ لیکن جیسے ہی رمیز نے مما کو بتایا کہ وہ اور سونیا اب الگ گھر میں رہیں گے مما نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ سب کچھ تم میری میت پر سے ہی گزر کر کرسکو گے دوسری طرف سونیا بھی تھک چکی تھی اس نے رمیز سے کہا بیشک تم مما کے ساتھ رہو لیکن اب اپنے الگ فلیٹ میں شفٹ ہو رہی ہوں میں اور میرا بیٹا اب مزید سفر نہیں کر سکتے آپ کا جب جی چاہے ملنے آجایا کریں… اس طرح سونیا اپنے فلیٹ (اپارٹمنٹ) میں شفٹ ہو گئی۔
جو اسے والد کی طرف سے ورثے میں ملا تھا رمیز اس صورت حال میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ایک طرف ماں کی محبت تو دوسری طرف بیوی اور بیٹے کی محبت، اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا قدم اٹھائے وہ ذہنی مریض ہو کر رہ گیا، اوپر سے مما کے زہر میں ڈوبے الفاظ جو وہ ہر وقت سونیا کے کردار کے بارے میں اگلتی رہتی اور اب تو وہ رمیز کو اسے طلاق دینے پر اکساتی رہتی کہ اگر اسے تم سے پیار ہوتا تو وہ کبھی یہ گھر چھوڑ کر نہ جاتی، ان زہریلے جملوں کا یہ اثر ہوا کہ رمیز نے سونیا کو ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکال دیا… اس طلاق کا اثر یقیناً سونیا پر تو پڑا لیکن رمیز بھی جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ اس ڈپریشن کی وجہ سے سخت بیمار پڑ گیا جس کی وجہ سے اسے ایک مہینہ ہسپتال میں رہنا پڑا… وقت بڑا مرہم ہوتا ہے رمیز بھی کچھ سنبھل گیا تھا لیکن اس قدر دلبرداشتہ ہو چکا تھا کہ مزید اس شہر میں اس کا رہنا محال ہو گیا۔ جہاں اس کی محبتوں کا جنازہ نکلا تھا۔
…٭…
مما: رمیز بیٹا میں تمہارے بغیر کیسے جی سکوں گی اور… اور ابھی تمہاری طبیعت بھی پوری طرح صحیح نہیں ہوئی ہے امریکہ بہت دور ہے یہ فاصلے…
رمیز: مما یہ فاصلے تو ہم نے خود پیدا کیے ہیں میں مزید اس شہر میں نہیں رہ سکتا۔ جہاں کوشش کے باوجود اس کی آنکھوں میں آئی نمی کسی سے چھپی نہ رہ سکی… اس نے سب گھر والوں کو خدا حافظ کیا… ایئر پورٹ پر اس کی نظریں کسی کو تلاش کر رہیں تھیں شاید… لیکن اس نے تو سارے راستے خود ہی منقطع کر دیئے تھے… اب کس کا اور کیوں انتظار۔
…٭…
سونیا کے ہاتھ میں رمیز کا خط تھا اس کی تحریر آج بھی اس کی محبت کی گواہی دے رہی تھی… مجھے ہو سکے تو تم معاف کردینا۔ تمہارے شہر میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھ میں تو اتنی بھی ہمت نہیں کہ اپنے بیٹے کو بھی خدا حافظ کہہ سکوں… یہ میرا چیک بک ہے میں نے دستخط کر دیئے ہیں میرے بیٹے کی تعلیم کے لیے ہیں میں وہاں سے بھی رقم بھیجتا رہوں گا۔ انکار نہ کرنا… میں تم سے اور اپنے بیٹے سے بہت شرمندہ ہوں۔ خدا حافظ سونیا نے رمیز کا خط بند کیا۔ اس کی آنکھیں امڈ آئیں۔ رمیز یہ آنسو تو اب زندگی بھر اسی طرح بہتے رہی گے ۔
nn

حصہ