باباجانی ۔۔۔فی امان اللہ

280

نفیس، باذوق، فیاض، بے حد شان دار انسان؎… ایک بے مثال باپ کی خوب صورت؎ ، محبت بھری یادیں اور باتیں۔
دن، ہفتے، مہینے، سال ہی نہیں عمریں بیت جائیں گی… اب وہ شفیق صورت نظر آ گی نہ وہ مہربان آواز سنائی دے گی‘ نہ ہی وہ لمس اور آغوش ہی کبھی میسر آئے گی۔
28 ستمبر 2022ء بروز بدھ کا سورج معمول کے مطابق ہی طلوع اور غروب ہوا، دن بھر میں کچھ بھی تو غیر معمولی نہیں رہا تھا سوائے اس کے کہ رات کو پونے 11 بجے اچانک ان کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی، گھبراہٹ اور چکر محسوس کر رہے تھے۔ اسپتال لے کر گئے، رات بھر ایمرجنسی میں انڈر آبزرویشن رہے اور جمعرات 29 ستمبر 2022ء وہ نفس مطمئنہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے… انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
میرے بابا جانی ایک نفیس، باذوق، فیاض، کھلے دل اور بڑے ظرف کے مالک، بے حد شان دار اور باوقار، خوب صورت شخصیت کے حامل انسان تھے‘ جو ایک بار ملتا ان کے اچھے اخلاق اور میٹھی زبان کا گرویدہ ہو جاتا یہ میں نہیں وہ سب کہہ رہے تھے جو اُس دن انھیں رخصت کرنے آئے تھے، جن کے دلوں اور دعاؤں میں وہ رہتے تھے… میرے بابا جانی اتنے ہر دل عزیز ہوں گے‘ یہ میں نے اُس دن جانا جب ہر آنے والی یہ کہہ رہی تھیں کہ وہ ان کی بیٹی ہیں اور وہ سب سے زیادہ انہی سے شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس پر میری بڑی بھانجی نے ماں سے پوچھا ’’ماما! نانا ابو کی کتنی بیٹیاں ہیں…؟‘‘جب ہر بھانجا اور بھتیجا بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ اُس دن بہت سے ایسے بھی تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم تو صحیح معنوں میں آج یتیم ہوئے ہیں‘ انھوں نے( ماموں ، چچا ، خالو ، پھوپھا ، بھائی , انکل) ہمیں کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ خاندان میں، جان پہچان یا حلقہ احباب میں جہاں بھی کسی خاندان کے سربراہ کا انتقال ہوتا، بہت بے چین ہو جاتے اور ہر ممکن طریقے سے اُن کی خبر گیری، سرپرستی اور دل جوئی کیا کرتے۔ مجھے بھی کہتے ’’بیٹا! فون کر کے خیر خبر لیتی رہا کریں اس وقت انھیں ہماری ضرورت ہے۔‘‘
بابا جانی صرف میرے لیے ایک باپ ہی نہیں تھے، میرے دوست بھی تھے جنھوں نے مجھے بچپن میں انگلی پکڑ کر محض پاؤں پاؤں چلنا یا حرف حرف بولنا ہی نہیں بلکہ بڑا ہونے کے بعد وقار اور اعتماد کے ساتھ سر اٹھا کر جینا بھی سکھایا۔ انھوں نے ہی اپنے ساتھ اور تربیت سے میری سوچ میں وسعت، خیالات میں بلندی، نظر میں گہرائی اور شخصیت میں توازن پیدا کر کے ایک عام سی لڑکی کو فوزیہ عباس بنایا تھا۔ وہی تو تھے جنھوں نے قلم اور کتاب سے تعلق جوڑنے کی ترغیب دلائی۔ اس ماحول اور معاشرے میں جہاں بیٹی کی پیدائش کو کھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا، میرے پیدا ہونے پر انھوں نے پورے خاندان میں مٹھائی بانٹی تھی۔ اکثر سناتے تھے کہ مجھے پورا ایک گھنٹا لگا تھا خالہ صاحبہ ( میری نانی جان) کو یہ یقین دلانے میں کہ یہ بیٹے کی نہیں بیٹی کی مٹھائی ہے۔ دو بیٹوں کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ اپنی رحمت سے نوازا تو اسے بھی انھوں نے نہایت خوش دلی اور محبت کے ساتھ ماتھا چوم کر گود میں لیا۔اکثر مجھے ’’رحمت‘‘ اور دوسری بیٹی کو ’’برکت‘‘ کہتے تھے۔
بچپن سے اب تک مجھے نہیں یاد کہ کبھی امی سے یا ہم دونوں بیٹیوں سے انھوں نے کبھی اپنے جوتے پالش کروائی ہو ( میں نے ان کی عدم موجودگی میں کبھی خود سے کیے ہوں تو کہہ نہیں سکتی)۔ وہ کبھی ہمیں اپنے پاؤں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے، میرا دل چاہتا تھا کہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں پر لوشن یا تیل لگا کر مساج کروں‘ ہاتھوں پر لگوا لیتے تھے پاؤں پر نہیں کہتے تھے ’’یہ بیٹیوں کا مقام نہیں ہوتا۔ وہ تو سر کا تاج، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتی ہیں۔‘‘
آج احساس ہو رہا ہے کہ وہ ٹھیک کہتے تھے۔ انھوں نے ہمارے ہر اچھے شوق کی نہ صرف یہ کہ کھلے دل سے حوصلہ افزائی کی بلکہ رہنمائی کرتے ہوئے کام مکمل ہونے تک ساتھ بھی کھڑے رہتے۔ میں ہمیشہ ہر معاملے اور ہر کام میں ان کے ساتھ ساتھ رہی۔دوسری بیٹی کو ہومیوپیتھک ڈاکٹر بنایا، امریکا اور لندن وغیرہ سے بہت سی کتابیں منگوا کر دیں ( یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں ابھی انٹرنیٹ کی سہولت اتنی عام نہیں تھی) کہتے ’’بیٹا! یہ ایک اچھا طریقۂ علاج ہے، اپنی معلومات بڑھاؤ اور دیکھو کہ ان ممالک میں اس شعبے میں کیا کیا اور کیسا کام ہو رہا ہے اور پھر اپنے لوگوں کو بھی ایسی معیاری سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرنا۔‘‘ جمعے کا دن مستحق مریضوں کے لیے( فری میں) مخصوص کرنے کی تجویز بھی انہی کی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں دینے اور احسان کرنے والوں میں سے بنایا تھا سو پوری زندگی کھلے دل اور کھلے ہاتھ سے دیتے، بانٹتے اور احسان کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بارہا ایسا بھی ہوتا کہ جن پر احسان کرتے ان کے شر سے بچ نہ پاتے، لوگ بار بار کبھی ان سے اپنے رشتے گنوا کر تو کبھی ان کی شرافت، لحاظ اور مروت سے فائدہ اٹھا کر کام نکلوا لیتے۔ مگر ایسے مطمئن اور بے نیاز انسان تھے کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود کبھی پلٹ کر کسی کو نہ کچھ کہتے ، نہ جتاتے۔
مہمان نوازی بھی ان کا خاص وصف تھی، مہمانوں کے آنے پر ان کی خوشی دیکھنے لائق ہوتی۔ میزبانی اور خاطر تواضع کا خصوصی اہتمام کرواتے اور کھانا کھائے بغیر کسی کا واپس چلے جانا تو ہمارے گھر کی روایت ہی نہیں ہے۔
رشتے اور تعلق نبھانے میں بھی فراخ دل اور بے مثال تھے اور مجھے بھی یہی تلقین کرتے۔ جدہ میں جب میں نے سابق مدیر اعلیٰ روزنامہ جسارت سید اطہر علی خان ہاشمی ( مرحوم و مغفور) کی خواہش ہر انھیں ’’ابا‘‘ کہنا شروع کیا تو اکثر کہتے ’’بیٹا! جس شفقت اور مان کے ساتھ ہاشمی صاحب نے آپ کو ’’بیٹی‘‘ کہا ہے، اُن کی خواہش، جذبات اور رشتے کا ہمیشہ یوں احترام کرنا‘ انہیں کبھی یہ احساس نہ ہو کہ آپ اس سب کی اہل نہیں تھیں۔‘‘
الحمدللہ میرے والدین خاندان بھر کا مثالی اور پسندیدہ جوڑا رہے ہیں۔ خوب صورت، خوب سیرت… بے پناہ خوبیوں اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت والا جوڑا جن کے گھر کو جدہ میں بھی اور پاکستان میں بھی ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔
22 سال سعودی عرب میں قیام کے دوران انھوں نے حج اور عمرے تو کیے ہی ایک بار اللہ رب العزت نے انہیں خانہ کعبہ کے اندر جانے اور نوافل ادا کرنے کی سعادت عظمیٰ بھی بخشی الحمدللہ۔
بچپن کے ایسے ہی ایک سفر کے دوران میں زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر محو پرواز ، مسافروں سے بھرے جہاز کے کاک پٹ میں مجھے بابا جانی کے ساتھ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹنے کا خوب صورت اور یادگار تجربہ ہوا تھا۔
میرے بابا جانی بہت باذوق اور مطالعہ کے شوقین تھے ، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور کے پہلے شمارے سے ستمبر 2022ء تک اس کے مستقل قاری رہے۔ مختلف ممالک کے نئے پرانے سکوں اور ڈاک ٹکٹوں کے البم بھی ان کے اعلیٰ ذوق کا ثبوت ہیں۔ ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا جس میں پاکستان میں بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، مثبت و متوازن سوچ کے حامل ، صحیح الخیال افراد شامل رہے۔
میرے بابا جانی کی شخصیت اور مزاج میں ایک خاص نفاست ، سلیقہ ، وقار اور کشش تھی جو دوسروں کو متوجہ کرتی۔ بقول ان کے ایک عزیز دوست سید شاکر حسین صاحب کے ’’ فضل صاحب کو بھولنا آسان نہیں ہے ، ان کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا کہ جو ایک بار ملتا ہمیشہ کے لیے ان ہی کا ہو جاتا تھا۔‘‘
وہ سحر خیز تھے، کہتے ’’جس دن سورج طلوع ہونے کے بعد اٹھوں سارا دن طبیعت سست اور بوجھل رہتی ہے۔ سردی ہو یا گرمی‘ فجر کے لیے جاگتے، نماز اور تلاوتِ قرآن پاک کے بعد خود ناشتا کرنے سے پہلے، لان میں آنے والے اپنے مہمان پرندوں کو دانہ پانی ڈالتے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت اچھی صحت سے نوازا تھا، عمر بھر معمولی نزلہ زکام سے زیادہ کوئی سیریس مسئلہ نہیں رہا۔۔ الحمدللہ 82 سال 6 ماہ کی عمر میں بھی جوانوں سے زیادہ تن درست اور چاق و چوبند رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے معمولات میں تبدیلی نہیں آنے دی۔ مطالعہ کے علاوہ باغبانی بھی ان کا ایک دل پسند شغل رہا ہے۔ سارے گھر میں ان کے لگائے پیڑ پودے دیکھنے والوں کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کرتے۔
28 ستمبر 2022ء کی شب بھی وہ میرے کمرے میں دیر تک بیٹھے ہم سب کے ساتھ باتیں کرتے، لطیفے سناتے رہے اور پھر میرے کمرے ہی سے وہ اسپتال گئے تھے کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ اُس پل لرزتے دل اور برستی آنکھوں کے ساتھ انھیں رخصت کرتے ہوئے میں نے کہا تھا ’’بابا جانی! فی امان اللہ۔‘‘

حصہ