بڑی بھابھی بریانی کے ہر دوسرے لقمے کے بعد اپنی قرآن کلاس کا احوال شروع کردیتیں، جس میں ابھی کچھ ہی دن پہلے جانا شروع کیا تھا۔ ان کو داستان گوئی میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ بات شروع کرتیں سوئی دھاگے سے اور اختتام ہوتا سوئی گیس کے مقام کی اہمیت اور ملکی مسائل پر۔ سنانے کا انداز اتنا دل چسپ کہ سب دم بہ خود سنتے ہی چلے جاتے۔ وہ آواز کے اتار چڑھائو سے ایک سماں باندھ دیتیں، یہاں تک کہ کبھی چولہے پہ رکھی ہنڈیا کے جلنے کی بو، کبھی اطلاعی گھنٹی، تو کبھی کسی بچے کی لڑائی سے سلسلہ تھمتا، اور سب ہڑبڑا کر کہانیوں کے سحر سے نکل کر معمول کے کام میں لگ جاتے۔
مگر آج تو بات ہی اور تھی۔ سلیقے سے دوپٹہ ماتھے پہ جمائے وہ بڑے بھیا کو قصہ سنا رہی تھیں۔ مارے عقیدت کے رائتے کا چمچ اپنی پلیٹ میں ڈالنے کے بجائے برابر بیٹھی مونا کی پلیٹ میں ڈال رہی تھیں، جو خوشی خوشی رائتہ پی رہی تھی کہ بریانی اس کو سخت ناپسند تھی اور آج اماں جوش میں چاول کے بجائے صرف رائتہ پلائیں تو بھلا اس سے مزے کی بات کیا ہوگی!
’’کیا منظر ہوتا ہے، گویا کہ فرشتے صفیں باندھے ہمارے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ اور پھر مدرّسہ کا انداز، گلابی دوپٹے پہ لگی روپہلی بیل میں دمکتا پُرنور چہرہ… اور جب آخرت کے متعلق آیات پڑھتی ہیں تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں بھئی، لیکن کیا کہنے۔ اپنے آپ کو دعوتِ دین کے لیے وقف کرلیا ہے۔ ہلکی سی بالیاں کان میں۔ دو چوڑی ہاتھ میں۔‘‘
قصہ خاصی دیر تک چلتا لیکن بڑی اماں نے قہوہ کی فرمائش کردی تو اٹھ گئیں۔ اُس دن سے تو سارے گھر کی شامت ہی آگئی۔ صبح شام قرآن کلاس کے بارے میں باتیں ہوتیں۔ مس آساورہ، ان کے دھیمے لہجے، ان کے لباس، زیور، خاندان ، سب ہی کا ذکرِ خیر ہوتا۔
’’یا اللہ! بھابھی آپ تو آساورہ بیگم پہ پی ایچ ڈی کرلیں۔‘‘ منجھلی بھابھی نے تنگ آکر کہا۔
اس دن بھی بڑی بھابھی اپنے میاں صاحب کو شام کی چائے کے ساتھ مس آساورہ کی خوش مزاجی کے بارے میں بتا رہی تھیں کہ بی اماں نے بلایا۔
’’جی اماں…‘‘
’’لگتا ہے جوئیں چڑھ گئی ہیں ہمارے بالوں میں… ذرا تیل ڈال دو۔‘‘ بی اماں نے بے چینی سے کہا۔
’’جی اماں ڈالتی ہوں۔‘‘بڑی بھابھی نے دھیمے ہاتھ سے تیل لگانا شروع کیا۔
’’آہ کیا سکون مل رہا ہے۔ اپنے بچپن کے دن یاد آگئے۔ سنہری کناری لگے دبیز تخت پوش پہ عنابی مخمل کے گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ہماری دادی جان آسمانی غرارے میں چاندی سا پان دان کھولے بیٹھی ہوتیں۔ ایک سبز پتا اٹھا، نفاست سے کتھا سونف سجا منہ میں رکھتیں۔ مہندی رچی سرخ ہتھیلی، کان میں چنبیلی، کاجل سے سجی آنکھیں ، موٹا سنہری پراندہ ۔ جب اٹھتیں تو پائل دھیمے سے آواز دیتی۔ ہم وہیں ان کے پاس جا لیٹتے تو چاندی کے پیالے میں تین تیل ملا کر اپنی نرم نرم انگلیوں سے ہمارے سر میں لگاتیں۔ دھیمی سی موتیا چنبیلی کی خوشبو سے سانس مہکنے لگتی۔’’
بڑی بھابھی کو جتنا قصے سنانے کا شوق تھا ، اتنا سننے کا بھی تھا، ماضی کے دلفریب دور میں کھو سی گئیں۔
’’امی … امی…!‘‘ مونا بھاں بھاں کرتی آئی تو ان کو یاد آیا۔
’’امی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’اچھا اماں میں ذرا بچوں کو کچھ کھانے کو دوں۔‘‘ تیل کی بوتل کو ڈھکن لگاتے اٹھیں۔
’’آپ کے قصے سن کر اتنا اچھا لگتا ہے کہ دل چاہتا ہے بس یونہی سنتے رہیں، عجیب سا سرور ملتا ہے، بعض دفعہ تو لگتا ہے آنکھوں میں کاجل کی دھار ڈالے کوئی دوشیزہ مہندی لگی ہتھیلی،گجرے پہنے ابھی پردے سے جھانکے گی۔‘‘ بڑی بھابھی نے خوشگوار لہجے میں اماں بی سے کہا۔
’’بہو رانی! جب دور دیس کے اَن دیکھے قصے کہانیاں تمہارے تصور میں یہ رنگ بھرتے ہیں تو اپنے میاں کے سامنے جو نقشہ تم کھینچتی ہو اس کو کیا محسوس ہوتا ہوگا۔‘‘
پاؤں چپل میں ڈالتے بھابھی یکدم ساکت ہوگئیں۔
’’بیٹے عورت میں مرد کے لیے بے پناہ کشش ہے اور وہ عورت جس کو آنکھ سے نہ دیکھا ہو صرف کان سے سننا ہو‘ اُس کی تصویر کیا دلفریب بنتی ہوگی۔ تمہاری قرآن ٹیچر ہوں یا سہیلی… قصے سناتے ہوئے اُن کا ذکر شوہر، بھائی، بیٹے کے سامنے نہ کیا کرو۔‘‘
’’جی اماں…!‘‘ بھابھی کی آواز بالکل بند سی ہوگئی تھی۔
اماں نے مسکراتے ہوئے قرشیہ کی سلائی اٹھائی اور نواسی کے لیے پرس بنانے لگیں، سر میں کھجلی تو پہلے بھی نہ تھی، مگر بہو رانی کے نرم ہاتھوں کی مالش نے بڑا سکون دیا تھا۔