چہل قدمی :جسم کو چاق و چوبند رکھنے والی بہترین ورزش

495

چہل قدمی یا پیدل چلنا ایسی بہترین ورزش ہے جو نہایت مفید ہونے کے ساتھ ساتھ بالکل مفت بھی ہے کیوں کہ اس ورزش کے لیے نہ کسی کلب کی رکنیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی طرح کے آلاتِ ورزش خریدنے کی‘ کسی بکنگ یا ریزرویشن کے بغیر آپ جب چاہیں اور جہاں چاہیں چلنا شروع کر دیجیے۔ جتنی دیر دل چاہے چلتے رہیے اور جب دل بھر جائے یا ضرورت پوری ہو جائے تو رک جایئے۔ سمندر کے کنارے‘ پہاڑوں کی سطح مرتفع‘ سرسبز و شاداب جنگل‘ کھلے میدان‘ شہروں کی بارونق سڑکیں اور تفریحی پارک‘ سب ہی چہل قدمی کرنے والوں کے لیے اپنے دامن کشادہ کیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ بحری جہازوں کے عرشے‘ ریل گاڑی کے ڈبوںکے درمیانی راستے‘ طیاروں کی نشستوں کے درمیانی راستے‘ آپ کے اپنے مکان کی چھت‘ غرض کون سی ایسی جگہ ہے جہاں یہ سیدھی سادی اور ہلکی پھلکی ورزش نہ کی جاسکتی ہو؟ پھر دیگر کھیلوں کی طرح اس ورزش کے لیے کسی ساتھی کی بھی ضرورت نہیں ہے اگر کوئی مل جائے تو سبحان اللہ‘ ورنہ آپ خود اپنے بہترین ساتھی ہیں۔

چہل قدمی کے لیے چونکہ کسی مخصوص جگہ آنا جانا نہیں پڑتا اس لیے وقت کی بچت ہوتی ہے‘ دوسرے اسے شروع کرنے سے قبل کسی قسم کی تیاری (وارم اَپ) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ورزشوں اور کھیلوں کی تمام اقسام میں چہل قدمی ہی ایسی ورزش ہے جس میں چوٹ لگنے اور زخمی ہونے کے امکانات سب سے کم ہیں۔

چہل قدمی ہی ایک ایسی ورزش ہے جس کا مشورہ ہزاروں معالج اپنے لاکھوں مریضوں کو دیتے ہیں۔ خواہ قلب اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا مریض ہوں یا جوڑوںکے درد اور ذیا بیطس کے شکار افراد ہوں۔ دراصل چہل قدمی سے نہ صرف جسم چست رہتا ہے بلکہ امراض پر قابو پانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

جدید تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ پیدل چلنا ذہنی دبائو کو کم کر دیتا ہے۔ ہم جب ورزش کرتے ہیں تو ہمارے دماغ سے ایک خاص قسم کی رطوبت خارج ہونا شروع ہو جاتی ہے اس رطوبت کو ’’انڈروفنس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ رطوبت اعصاب پر سکون بخش اثرات مرتب کرتی ہے جس کے باعث ہمارا جسم اور دماغ دونوں سکون اور آرام محسوس کرتے ہیں۔ یہ رطوبت ایسی نشہ آور شے ہے جسے ہمارا جسم خود بناتا ہے اور اس میں عام طور پر ملنے والی نشہ آور اشیا مثلاً افیون یا الکوحل وغیرہ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ورزش یا چہل قدمی کے بعد نیند بہت اچھی آتی ہے۔

بہت دیر تک بیٹھے رہنے‘ خصوصاً ایک ہی حالت میں بیٹھے رہنے سے اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے‘ جسم کے جوڑ سخت ہو جاتے ہیں‘ عضلات میں درد ہونے لگتا ہے اور دورانِ خون سست ہو جانے کی وجہ سے پیروں پر اکثر ورم آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ طویل سفر کرنے والے حضرات اکثر گردن اور کمر کے درد کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ جدید تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سست زندگی بسر کرنے یا بہت دیر تک بیٹھے رہنے کے عادی لوگوں کی دماغی صلاحیتیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایسے افراد اپنے ذہن کو کسی ایک مرکز یا معاملے پر مرکوز نہیں رکھ سکتے جس کی وجہ سے ان کے لیے صحیح فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے اور فیصلہ کرنے کے بعد بھی وہ گومگو کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیںکہ آیا فیصلہ درست تھا یا نہیں۔

زیادہ دیر بیٹھ کر کام کرنے یا طویل سفر کرنے والے لوگوں کو ہلکی ورزش اور چہل قدمی ضرور کرنی چاہیے۔ اگر کہیں چھٹیاں گزارنے یا تفریح کی غرض سے جائیں تو زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے کئی فائدے ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ پورے سکون و اطمینان سے ایک ایک چیز کو دیکھ سکیں گے اور یوں ذہنی پریشانی اور اعصابی دبائو سے محفوظ رہ سکیں گے پھر جہاں تکان محسوس کریں یا کوئی خوب صورت قدرتی منظر سامنے آجائے وہاں آپ اپنی مرضی سے جتنی دیر چاہیں بیٹھ کر آرام کر سکتے ہیں۔

جو لوگ زیادہ پیدل چلتے ہیں وہ بہت سی دوائوں سے بے نیاز ہو جاتی ہیں مثلاً خواب آور گولیاں‘ درد دور کرنے والی دوائیں‘ قبض اور بدہضمی سے نجات حاصل کرنے کے لیے گولیاں حتیٰ کہ بعض سنجیدہ امراض میں مبتلا مریض جب زیادہ چہل قدمی کرتے ہیں تو اپنے مرض کو بھول جاتے ہیں۔

پیدل چلنے سے جسم کے عضلات اور رگ پٹھے مضبوط رہتے ہیں‘ جسم میںدورانِ خون پوری طرح اور آسانی سے جاری رہتا ہے اس کے نتیجے میں قلب پر بار کم پڑتا ہے پھر یہ کہ جسم کے ہر چھوٹے بڑے حصے کو آکسیجن کافی مقدار میں فراہم ہو جاتی ہے۔ کھانا سہولت کے ساتھ ہضم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ نظامِ ہضم سے متعلق امراض لاحق نہیں ہوتے جسم کے جوڑ کھلے رہتے ہیں۔ کسی قدر پسینہ آکر جسم سے غیر ضروری پانی اور نمکیات خارج ہو جاتے ہیں۔ پیدل چلنے سے جو جسمانی تکان ہوتی ہے‘ دماغ میں پیدا ہونے والی مخصوص رطوبت ’’انڈروفنس‘‘ خون میں مل کر اس تکان کو دور کر دیتی ہے بلکہ نیند گہری آتی ہے چنانچہ سو کر اٹھنے کے بعد تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

وہ لوگ جو طویل عرصے تک ورزشوں یا سخت قسم کے کھیلوں میں حصہ لیتے رہتے ہوں‘ انہیں چاہیے کہ وہ چہل قدمی کو ہرگز ترک نہ کریں۔ دراصل ایسے لوگوں کا جسم محنت و مشقت کا عادی ہو چکا ہوتا ہے اور ان کا دماغ روزانہ مناسب مقدار میں انڈروفنس بناتا ہے۔ اب اگ وہ اچانک ہر قسم کی ورزش ترک کر دیں گے تو ان کا جسم اس کے خلاف ردعمل ظاہر کرے گا اور کئی قسم کے عارضے انہیں گھیر لیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ محنت و مشقت کرنے والے لوگ جب ریٹائر ہو کر ہر قسم کی ورزش ترک کر دیتے ہیں تو ان کا وزن بڑھ جاتا ہے‘ پیٹ باہر کو نکل آتا ہے اور وہ سست رہنے لگتے ہیں۔

چہل قدمی ان لوگوں کے لیے بے حد مفید ہے جو اپنا وزن کم کرنے کے لیے آئے دن طرح طرح کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ چہل قدمی سے جسم میں جمع شدہ حرارے (کیلوریز) خرچ ہو جاتے ہیں۔ اگر آہستہ رفتار سے ہوا خوری کی جائے یعنی دو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تو ایک گھنٹہ میں 250 حرارے خرچ ہو جاتے ہیں۔ تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چہل قدمی کی صورت میں ایک گھنٹے میں 350 حرارے خرچ ہوں گے اور تیز قدموں سے چلنے یعنی تقریباً چار میل فی گھنٹہ سے چلنے کے نتیجے میں ہمارا جسم 400 حرارے ایک گھنٹے میں خرچ کر ڈالے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے 3500 حرارے خرچ ہو جائیں تو تقریباً ایک پونڈ جسمانی وزن کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ چہل قدمی کے نتیجے میں بھوک بھی بڑھتی ہے لیکن بھوک میں یہ اضافہ اتنا نہیں ہے جس قدر کہ جسمانی وزن میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

یوں تو چہل قدمی کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے لیکن چار اوقات میں ٹہلنا‘ طبی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے یعنی صبح‘ شام‘ رات کے کھانے کے بعد اور رات کو سونے سے قبل۔ اب یہ دیکھیں کہ کس کے لیے چہل قدمی کا کون سا وقت مفید ہے۔ رات کھانے کے بعد فوراً بعد ٹہلنا ان لوگوں کے لیے مفید ہے جن کا نظامِ ہاضمہ کمزور ہو‘ انہیں بھوک نہ لگتی ہو یا وہ قبض میں مبتلا ہوں۔ ضعیف اور کمزور افراد کو اور خصوصاً ان لوگوں خو بھی جو بیماری سے اٹھے ہوں‘ کھانا کھانے کے بعد ہی ٹہلنا چاہیے لیکن جن لوگو ں کا وزن بڑھا ہوا ہو‘ وہ فشار خون (بلڈ پریشر) یا دل کے امراض میں مبتلا ہوں یا ان کے خون میں کولسٹرول کی زیادتی ہو‘ وہ خالی پیٹ چہل قدمی کریں۔ ایسے لوگ جنہیں نیند ٹھیک طرح نہ آتی ہو یا نیند کے عالم میں ڈراونے خواب نظر آتے ہوں یا کھانا کھانے کے بعد سینے میں جلن ہوتی ہو انہیں چاہیے کہ وہ رات کو سونے سے قبل کچھ دیر ٹہل لیا کریں۔ ذہنی طو ر پر پریشان اور تفکرات میں گھرے ہوئے لوگ بھی اگر رات کو سونے سے پہلے تھوڑی سی چہل قدمی کر لیں تو اعصابی کشیدگی کم ہو جاتی ہے۔

سمندر کے کنارے رہنے والے لوگوں کو تو ایک اور سہولت میسر ہے اگر وہ سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پندرہ منٹ پہلے سمندر کے کنارے چہل قدمی شروع کر دیں اور پندرہ منٹ تک جاری رکھیں تو ان کے جسم کو بڑی مقدار میں آکسیجن مل جائے گی کیوں کہ ان اوقات میں سمندری ہوا میں نہایت لطیف آکسیجن موجود ہوتی ہے۔ یہ چہل قدمی خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جن کے پھیپھڑے کمزور ہوں یا وہ تپ دق اور دمہ جیسے امراض میں مبتلا ہوں خون میں سرخ ذرات کی کمی کو بھی اس طرح کی چہل قدمی کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔

مختلف لوگوں کے چلنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔اس کا انحصار عمر‘ صحت‘ جسمانی طاقت اور بعض امراض پر ہوتا ہے عام طور پر ضعیف العمر حضرات کو یا بیماری سے حال ہی میں اٹھنے والوں کو آہستہ آہستہ چلنا چاہیے۔ دل کے مریض کے لیے بھی یہی صورت بہتر ہے۔ لیکن جو لوگ جوان اور تن درست ہوں ان کے لیے تیز قدموں کے ساتھ چلنا بہتر رہتا ہے جو لوگ وزن کم کرنے یا بڑھے ہوئے پیٹ یا کولہوں کو اپنی جگہ واپس لانے یا پھر جسم میں کولسٹرول کو کم کرنے کے خواہش مند ہوں انہیں ’’تیز گام‘‘ رہنا چاہیے۔

مختلف امراض خصوصاً دل کے امراض میں مبتلا لوگوں کو چہل قدمی کرنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیے۔ معالج ہی انہیں بہتر مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ کتنی دیر اور کتنے فاصلے تک چہل قدمی کریں۔ عام حالات میں روزانہ دو ڈھائی میل پیدل چلنا کافی ہوتا ہے لیکن جب چہل قدمی کی عادت ڈال لی جائے تو اس کا دورانیہ دھیرے دھیرے بڑھانا چاہیے۔

کب تک چہل قدمی جاری رکھی جائے؟ اس کا سیدھا اور آسان اصول یہ ہے کہ جب تک آپ کا جسم بہت زیادہ تکان محسوس نہیں کر رہا ہو اور آپ کا سانس غیر معمولی طور پر پھول نہیں رہا آپ چہل قدمی یا کوئی اور ورزش جاری رکھ سکتے ہیں لیکن جب آپ محسوس کریں کہ آپ تکان کا شکار ہو رہے ہیں اور آپ کا سانس پھولنے لگا ہے تو چہل قدمی روک دیں خاص طور پر دل کے مریضوںکو اس قسم کی علامات کے ظاہر ہوتے ہی یا سینے میں درد کا احساس ہونے پر نہ صرف چہل قدمی ترک کر دینی چاہیے بلکہ سستانے کے لیے بیٹھ بھی جانا چاہیے۔ طویل عرصے تک تحقیقات اور تجربے کے نتیجے میں پتا چلا ہے کہ بہت سخت ورزشوں کے مقابلے میں ہلکی پھلکی ورزشیں عام جسمانی صحت کو بہتر بنانے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ڈنٹر پیلنا‘ بیٹھکیں لگانا‘ ویٹ لفٹنگ کرنا‘ تن سازی (باڈی بلڈنگ) یا اکھاڑے جا کر زور کرنا‘ ان کے لیے تو مناسب ہو سکتا ہے جنہیں جسم کی نمائش کے مقابلے میں حصہ لینا ہو یا کہیں دائو پیچ لگانا ہو‘ لیکن ایک عام آدمی جس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی صحت اچھی رہے اور وہ خود کو چست اور توانا محسوس کرے‘ اسے بہت بھاری ورزش نہیں کرنی چاہیے۔ ایسے شخص کے لیے چہل قدمی‘ ہلکے پھلکے کھیل اور ’’پی ٹی‘‘ (فزیکل ٹریننگ یا جسمانی تربیت) جیسی ورزشیں مناسب ہیں۔ یوں بھی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ لوگ جو پابندی سے چہل قدمی کرتے ہیں ان کی صحت ایسے لوگوں کے مقابلے میں بہتر رہتی ہے جو بہت بھاری اور سخت ورزشوں کے عادی ہوں۔

ایک بار جسم کو جس ورزش کا عادی بنا لیا جائے اسے عمر بھر جاری رکھنا چاہیے۔ بھاری ورزشوں کو عمر اور حالات کے لحاظ سے ایک نہ ایک دن ترک کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں جسم پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ بھاری ورزشوں کے باعث جسم کے مختلف نظام اور اعضا پر زبردست دبائو پڑتا ہے خاص طور پر قلب‘ خون کی رگیں‘ جوڑ اور عضلات اس دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ اعضا جلد تھک جاتے ہیں۔ بعض ماہرین کی رائے تو یہاں تک ہے کہ بہت سخت ورزش انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔

اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو چہل قدمی ایک ایسی ورزش ہے جسے عمر کے آخری حصے ترک جاری رکھا جاسکتا ہے اور یہ ورزش جسمانی نظام یا اعضا پر غیر ضروری بار بھی نہیں ڈالتی۔ چہل قدمی یا ہلکی ورزش کے وقت لباس کا انتخاب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اس کا انحصار موسم پر بھی ہوتا ہے۔ موسم گرما ڈھیلے ڈھالے سوتی کپڑے زیب تن کرنا چاہئیں اور موسم سرما میں ہلکے لیکن گرم پڑے اس طرح پہننے چاہئیں کہ جسم کو براہ راست ہوا نہ لگے۔

دور سے چل کر آنے کے بعد فوراً بعد ٹھنڈا پانی پینا یا بہت ٹھنڈا پانی جسم پر ڈالنا مناسب نہیں ہوتا۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر سستا لیا جائے تاکہ دورانِ خون اور سانس کی رفتار معمول پر آجائے اس کے بعد ٹھنڈا پانی پیا جا سکتا ہے یا غسل کر سکتے ہیں۔ ہوا خوری کرتے وقت چلنے کے انداز کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جسم سیدھا‘ سر اوچا اور کاندھے پیچھے ہونے چاہئیں۔ لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے اس طرح چلیں کہ بازو آزادی کے ساتھ حرکت کرتے رہیں۔ جوتے بہت آرام دہ ہونے چاہئیں جن کا تلا نرم اور ایڑی نیچی ہو۔

دوپہر کا کھانا کھانے کے فوراً بعد چہل قدمی سے منع کیا جاتا ہے۔ اس وقت انسان کام کاج اور دوڑ دھوپ کی وجہ سے تھکا ہوا ہوتا ہے اور ذہنی انتشار کی وجہ سے اس کے عضلات خصوصاً پیٹ کے عضلات تنے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں کھانے کے بعد دس پندرہ منٹ تک لیٹ کر جسم کو ڈھیلا چھوڑنا اور اِدھر اُدھر کروٹیں بدلنا مفید رہتا ہے اس طرح عضلاتی تنائو کم ہو کر غذا کے ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے اور نظامِ ہاضمہ سے تعلق رکھنے والے اعضا کی طرف خون کا دوران بھی درست ہو جاتا ہے اس عمل کو ’’قیلولہ‘‘ کہتے ہیں لیکن قیلولہ کا مطلب سونا ہرگز نہیں ہے۔

ہلکی ورزشوں میں کھیلوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے لیکن ایسے کھیل زیاد مفید رہتے ہیں جن میں بہت زیادہ جسمانی مشقت نہ کرنی پڑے مثلاً بیڈ منٹن‘ ٹیبل ٹینس‘ والی بال یا باسکٹ بال وغیرہ۔ ٹینس بھی احتیاط کے ساتھ کھیلا جاسکتا ہے لیکن 45 سال کی عمر کے بعد تنہا سیٹ نہیں کھیلنا چاہیے۔ ہاکی‘ فٹ بال‘ کرکٹ یا اسکواش کا شمار سخت ورزشوں میں کیا جاتا ہے۔ اسکولوں میں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ طلبا سخت کھیل نہ کھیلیں۔ ان سے تکان ہو جاتی ہے جس کا اثر پڑھائی پر بھی پڑتا ہے۔ دوسرے ان کھیلوں کوطویل عرصہ تک جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ البتہ وہ طلبا جو سخت کھیلوں میں مہارت حاصل کرکے انہیں بطور پیشہ اپنانا چاہتے ہوں وہ ان کھیلوں پر اپنی توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔

آج کے دور میں جب کہ انسان بہت آرام پسند ہو گیا ہے‘ سائنسی ایجادات نے دوڑ دھوپ اور محنت و مشقت کے مواقع کم کر دیا ہے اور ہر کام آسانی کے ساتھ تھوڑے وقت میں ہو جاتا ہے‘ جسمانی ورزش کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ہمارے بزرگ سخت محنت کیا کرتے تھے۔ میلوں پیدل چلا کرتے تھے‘ کھیتی باڑی کرتے تھے‘ شکار میں حصہ لیتے تھے۔ ہماری خواتین گھریلو کام کاج میں مشغول رہتی تھیں یہی وجہ ہے کہ پرانے دور کے لوگوں کی صحت بہت اچھی ہوتی تھی اور ان کا جسم سخت کام کرنے کا عادی ہوتا تھا۔ آج کے دور میں جب کہ سائنسی آلات نے ہمیں محنت و مشقت سے بے نیاز کر دیا ہے چہل قدمی ہی ایسی بہترین ورزش ہے جس کو باقاعدگی سے اپنا کر ہم اپنے جسم کو چاق و چوبند رکھ سکتے ہیں۔

حصہ