کرجہاں کو روشن قلم سے

293

19 نومبر کی صبح کا آغاز بہت ہی ہنگامہ خیز تھا۔ ادھر ایک طرف چولہے پر چائے چڑھی تھی تو دوسری جانب بچوں کا بیگ بنایا جارہا تھا۔ اسی بھاگ دوڑ میں ناشتا لگا، میں تیار ہوئی۔ گیارہ بج گئے اور گاڑی آگئی۔ ایک ہاتھ میں ناشتا دان اٹھائے، دوسرے میں بیٹے کو پکڑے اعلیٰ حضرت سے درخواست کی کہ بچوں کو میکے چھوڑ کر آفس جایئے گا۔

پھر ہم گاڑی میں رواں دواں الفلاح مسجد بلاک اے پہنچے۔ اندر ہال میں جب داخل ہوئے تو دیکھا فرش پر خوب صورت سی چاندنی بچھی ہوئی تھی۔ ایک طرف بک اسٹال لگا تھا، میز پر گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔ غرض ایک خوب صورت ادبی محفل ہماری منتظر تھی۔

جی ہاں یہ اسی تربیتی نشست کا قصہ ہے جو شعبۂ نشرواشاعت ضلع وسطی کی جانب سے منعقد کی گئی تھی، جس کی دعوت ہمیں طیبہ سلیم نے بذریعہ واٹس ایپ دی تھی۔

بھئی واہ! زرینہ باجی بھاگ بھاگ کر کام نپٹا رہی ہیں، صائمہ عبدالواحد کمپیئرنگ کی تیاری کررہی ہیں، صوفہ پر عائشہ توقیر(ہماری پیاری مربی) تشریف فرما ہیں، جویریہ لیپ ٹاپ سے نبرد آزما ہیں۔

ساڑھے گیارہ بجے قاری مشاری الفاسی کی دل سوز قرأت میں ’’سورہ ق‘‘ آیت نمبر 26 پیش کی گئی۔ اس کے بعد پیاری سی لڑکی تحریم نے نظم ’’میرا دل بدل دے‘‘ سنا کر ہمارے دلوں کو گرمایا۔

نظم کے بعد پہلا پروگرام نائب نگراں ضلع وسطی روبینہ نعیم صاحبہ کا تھا، انہوں نے ’’تذکیر‘‘ (انبیائے کرام کا طریقہ ابلاغ) کی اور موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے ابتدائے دنیا سے قبل قلم کی پیدائش سے لے کر، قرآن و حدیث میں قلم کی اہمیت اور بعد کے ادوار میں قلم کے ذریعے حق کی تبلیغ اور قرآن و حدیث کی حفاظت کا اہتمام، واقعات کے ذریعے سمجھایا۔

اس پروگرام کے بعد علامہ اقبالؒ کی خوب صورت نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کا ایک ٹکڑا ’’عقابی شان سے جھپٹے‘‘ ملٹی میڈیا پر پیش کیا گیا، جسے ہم سب نے بہت انجوائے کیا۔

اس کے بعد نائب نگراں حریم ادب توقیر عائشہ صاحبہ نے ’’گر کی باتیں‘‘ بتائیں۔ انھوں نے بتایا کہ ادیب عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے اور ہر لمحہ گزرتے ہوئے واقعات کا مشاہدہ ایک الگ طریقے سے کرتا ہے، معاشرے کی ناہمواریوں کو قلمبند کرنے والا اور مسائل کو جوں کا توں پیش کرنے والا بیمار ادب تخلیق کرتا ہے جو باطل تہذیب کا ٹولہ بن جاتا ہے، جب کہ اسلامی نظریۂ حیات کا حامل ادیب رب کا نمائندہ بن کر اعلیٰ نظریاتی سوچ کو عام کرتا ہے، مایوسی اور فرسٹریشن کی راہ روکتا ہے اور کیا ہونا چاہیے، اس پر بات کرتا ہے۔

اس کے بعد بہت ہی مزیدار ورکشاپ ہوئی۔ چوں کہ یہ ورکشاپ بچوں کے ادب کے حوالے سے تھی اس لیے ہمیں بہت مزا آیا۔

کم عمر سی دو چھوٹی بچیوں کی اماں جان فاطمہ عزیز نے ’’کہانی کیسے لکھیں‘‘ پر ورکشاپ کروائی۔

کہانی کی تعریف سے لے کر لوک کہانیوں، دیو مالائی کہانیوں اور جدید دور کی جادوئی کہانیوں کے بارے میں بتایا، نیز قصہ خوانی بازار کا بھی تذکرہ کیا۔ بلاشبہ فاطمہ کو اپنے موضوع پر زبردست گرفت تھی۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے اہم بات یہ تھی کہ بچے آسان زبان میں آسان سے آئیڈیاز کو پسند کرتے ہیں۔ کردار سازی کے ذریعے بچوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ آخر میں ایکٹیویٹی کے طور پر 10 منٹ میں انھوں نے سب سے ایک ایک بچوں کی کہانی لکھوائی۔ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے اچھی اچھی کہانیاں لکھیں۔

اس کے بعد وقفہ برائے نماز ظہر اور طعام ہوا، جس میں ہم سب کو بے حد مزا آیا، ایک ایسی تحریک کا حصہ ہونے پر دل تشکر کے جذبات سے بھر گیا۔ اتنا پُرلطف اجتماعی کھانا تھا جس میں دال ساگ سے لے کر کوفتے اور بریانی تک تھی۔ سب نے ہی اجتماعیت کی خوب صورتی کو محسوس کیا۔

نماز اور کھانے کے بعد ’’تربیتی نشست کے مقاصد‘‘ کے عنوان سے ناجیہ شجاع نگراں شعبہ ضلع وسطی نے گفتگو کی اور مولانا مودودیؒ کے ادب کے حوالے سے فرامین بتائے۔

اس کے بعد مقاصد پر مزید روشنی ڈالنے کے لیے نگراں حریم ادب سیمی نظیر نے خطاب کیا۔ انھوں نے ادبی نشست کی اہمیت پر بھی گفتگو کی اور پرانے ادیب، نئے لکھاری اور نوآموز افراد کے کرنے کے کام بتائے کہ سیکھنے والا لگن اور محنت سے سیکھے اور سکھانے والا حکمت کا دامن تھامے رہے۔ پُرمغز گفتگو کے بعد افسانہ نگار فرحی نعیم نے بہت عمدہ انداز میں کہانی نویسی اور افسانہ نگاری پر ورکشاپ کروائی، جس سے بہت کچھ سیکھا۔ مطلعہ، مشاہدہ، رموز و اوقاف، مضبوط پلاٹ، مضبوط کردار، جاندار مکالمے، کہانی ایک پیرائے میں اور بہترین آغاز اور اختتام ایک افسانے کے لازمی جزو ہیں، ان بنیادی باتوں کو مدنظر رکھ کر آپ محنت اور محبت سے افسانہ تخلیق کرسکتے ہیں۔ کہانی اور افسانے کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ’’کہانی ایک بیانیہ ہے اور افسانہ کرداروں، مکالموں اور ماحول کے ذریعے جذباتی اور ذہنی کیفیت کی کہانی ہے۔‘‘ افسانے میں کہانی ہے لیکن کہانی میں افسانہ نہیں، وہ فقط ایک پیرائے میں کہا ہوا ایک قصہ ہے۔

اس بہترین گفتگو کے بعد ناظمہ ضلع وسطی نے سورہ نبا کی آیت نمبر 31 پیش کی اور آخرت میں کامیاب ہونے والوں کی خصوصیات بتائیں، آخرت کی جواب دہی کا احساس اجاگر کیا، انہوں نے کہا کہ خصوصاً اہلِ قلم اور سوشل میڈیا کے کارکنان کو فتنوں سے بچتے ہوئے رب کی رضا کو اوّلین مقصد بنانا چاہیے، قلم ایک امانت ہے اسے اللہ کی خاطر ہتھیار کے طور پر استمعال کریں۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں کے خلاف برسر پیکار رہیں، انسان نگاہوں کی چوری نہیں پا سکتا لیکن اللہ رب العزت پلکوں کے اٹھنے اور گرنے سے واقف ہیں، رب سے ڈرتے ہوئے اقامتِ دین میں لگے رہیے۔

آخر میں اتنی اچھی نشست کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی اور دعا کروائی۔ اتنے خزانوں سے مزین اس نشست سے تقویٰ کے ہیرے موتی دامن میں بھر کر اور دلوں میں امنگیں اور ولولے لے کر ہم گھر روانہ ہوئے۔

حصہ