مشکل

348

’’اسد! میں کچھ نہیں جانتی، بس مجھے جاب کرنی ہے، آپ کی اتنی کم تنخواہ میں میرا گزارا مشکل ہے۔ سوچا تھا پڑھائی مکمل کرکے جاب کروں گی، اپنا کیرئیر بناؤں گی، لیکن سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ امی ابو نے میری ایک نہ سنی اور آپ سے شادی ہوگئی، لیکن اب میں اپنے سارے خواب پورے کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ ردا نے اپنے شوہر اسد کو چائے دی اور خود اُس کے سامنے بیٹھ گئی جیسے ابھی اپنی بات منوا کر ہی اٹھے گی۔

اسد نے چائے کا گھونٹ لیا اور کہا ’’بھئی مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اماں جان شاید نہ مانیں۔‘‘اسد نے خدشہ ظاہر کیا۔

’’اس کی آپ فکر نہ کریں، اُن سے میں بات کرلوں گی۔‘‘ ردا نے مسکرا کراسد کو اطمینان دلایا۔

جب سے اماں جان نے سنا تھا پریشان تھیں اور ردا سے خفا بھی، کیوں کہ اس کی دیکھا دیکھی بڑی بہو کو بھی اپنے ادھورے خواب یاد آگئے تھے جوکہ کم عمری میں شادی ہونے کی وجہ سے پورے نہ ہوسکے تھے۔

’’ایک تو آج کل کی لڑکیوں کو گھرداری سے زیادہ کیرئیر بنانے کی فکر رہتی ہے۔‘‘ اماں جان کی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی تھی کہ دونوں بہوئوں نے بآسانی سن لی اور یہی اماں جان چاہتی بھی تھیں۔

بڑی بہو کے تین بچے تھے اور اسے ہر وقت یہی خلجان رہتا کہ مہنگائی بہت ہے، اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ آخر ایک دن اس نے فیصلہ سنادیا کہ ’’میں پارلر میں کام کروں گی، کیوں کہ میں نے بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا ہے۔ قریبی پارلر میں میں نے بات بھی کرلی ہے۔‘‘

اماں جان نے گھبرا کر اپنے بڑے بیٹے کی طرف دیکھا، مگر اس کی خاموشی یہ ظاہر کررہی تھی کہ اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اماں جان حیران تھیں، انھیں اپنے بیٹوں سے ایسی کم عقلی کی توقع نہیں تھی۔

ردا ضد کی پکی نکلی اور شوہر بھی اس کی خوشی میں خوش تھا، اس لیے اُس نے تو فوراً ہی جاب کے لیے اپلائی کردیا۔ اس کے پاس ڈگری تھی اور مختلف کورسز بھی کیے ہوئے تھے اس لیے جلد ہی مثبت جواب آگیا اور اس نے جوائن کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ صبح اسد کے ساتھ نکلتی اور واپسی بھی تقریباً ایک ساتھ ہی ہوتی۔ اماں جان اعتراض نہ کریں اس لیے واپس آکر کام بھی کرنے پڑتے۔ آخر سسرال سسرال ہی ہوتا ہے۔

اماں جان نے بڑی بہو کو سمجھانے کی کوشش کی، گھر اور بچوں کی ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ ’’اماں جان! آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ردا کی ابھی کوئی اولاد نہیں ہے پھر بھی اسے نوکری کی ضرورت پڑ گئی، جب کہ میرے تین بچے ہیں، اخراجات زیادہ ہیں، مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ جہاں کمانے والا ایک اور کھانے والے زیادہ ہوں وہاں تو اور بھی مشکل ہوتی ہے۔‘‘ بڑی بہو نہ جانے کیا جتانا چاہ رہی تھی۔ اماں جان سے مزید کچھ بولا ہی نہیں گیا۔

بڑی بہو نے بھی آخرکار پارلر جانا شروع کردیا۔ اماں جان خوب سمجھتی تھیں کہ دونوں بہوئیں ایک دوسرے کی ضد میں نوکری کررہی ہیں، اور یہ بھی وجہ تھی کہ کسی ایک پر پورے گھر کی ذمے داری نہ پڑ جائے۔ خیر جو بھی تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ نہ گھر کی دیکھ بھال ٹھیک طرح ہو پا رہی تھی، نہ شوہروں کی خدمت۔ بیگمات خود اتنا تھک جاتی تھیں۔

دونوں بہوئیں باتوں میں مصروف تھیں۔ ’’بھابھی! آپ کی جاب کیسی جارہی ہے؟‘‘ ردا نے جیٹھانی سے پوچھا۔

’’کچھ نہ پوچھو ردا! میں تو پچھتا رہی ہوں یہ جاب کرکے، اتنی محنت کرو پھر بھی پارلر کی مالکن خوش نہیں ہوتی، گھر آکر بھی کاموں میں لگے رہو، بچوں پر بھی ٹھیک طرح توجہ نہیں دے پا رہی ہوں، میاں صاحب الگ روٹھے روٹھے رہتے ہیں۔‘‘

کچھ فاصلے پر اماں جان بیٹھی بچوں کو دین کی باتیں بتارہی تھیں کہ ان دونوں کی باتوں نے انھیں چونکا دیا۔
’’میں خود یہی سوچ رہی ہوں بھابھی کہ جاب چھوڑ دوں، جس طرح میں سوچتی تھی ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ مجھے لگتا تھا جو لڑکیاں شادی کے بجائے اپنا کیرئیر بنانے کی فکر کرتی ہیں وہی کامیاب زندگی گزارتی ہیں، لیکن جاب کرکے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے، شادی سے پہلے باپ کا گھر اور شادی کے بعد شوہر کا گھر۔‘‘
’’دادی! آگے بتائیںکہ ہمارا دین کیا سکھاتا ہے؟‘‘
اماں جی جو ان دونوں کی باتیں سننے میں محو تھیں چونک کر دونوںکی طرف متوجہ ہوئیں اور مسکراتے ہوئے بولیں ’’اللہ نے اپنے بندوں کے لیے جتنا رزق لکھ دیا ہے وہ انہیں مل کر رہے گا۔ جو اللہ کی تقسیم پر راضی ہوگیا اللہ اس کے دل اور جسم کو راحت دے گا، اور دوسری بات کہ عورت گھر کی ملکہ ہوتی ہے، گھر کی چار دیواری میں ہی اس کی حفاظت بھی ہے اور عزت بھی۔‘‘
دونوں بہوؤں نے ایک دوسرے کو خفت بھری نگاہوں سے دیکھ کر سر جھکا لیے۔

حصہ