پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے جو ابھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرف یہاں بھی بہت سے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک بڑا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ غذا پر ہمیں جس قدر رقم خرچ کرنا چاہیے وہ نہیں ہو پاتی بلکہ ہوتا یہ ہے کہ تمام اخراجات پورے کرنے کے بعد آدمی کہیں بچت کی کوشش کرتا ہے تو وہ بچت کھانے پینے کی اشیا میں ہوتی ہے۔دوسرے ابھی ہماری آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر افراد غذا کی قدر و قیمت اور اس میں پائے جانے والے ضروری اجزا کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ذہنوں میں اپنے ماحول اور رسم و رواج کے تحت غذا سے متعلق عقائد بیٹھے ہوئے ہیں کہ فلاں غذا ٹھنڈی ہے اور فلاں گرم ہے۔ دودھ گیس پیدا کرتا ہے‘ بڑا گوشت بادی ہے وغیرہ۔ ان توہمات میں نہ صرف اَن پڑھ لوگ بلکہ پڑھے لکھے حضرات بھی مبتلا ہیں خصوصاً ہماری خواتین۔ اس کے علاوہ غذائی اجناس کو کاٹنے‘ پیسنے‘ ابالنے‘ بھوننے اور انہیں خوش ذائقہ اور خوش رنگ کرنے کے سلسلے میں جو کچھ باقی بچی ہوئی غذائیت ہوتی ہے‘ اسے بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔
غذا کی اہمیت کو نہ سمجھنے اور اس کی طرف سے غفلت برنے کے نتائج اب بہت کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اگر صحت کے بین الاقو امی معیار کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ہم لوگ پوری طرح طبعی صحت کے مالک نہیں ہیں اور ہمارے ملک کے بچوں کی اکثریت بھی غذائی بدحالی کا شکار ہے۔ بچوں کو ملک کے مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے اب آپ ہی اندازہ لگا لیجیے کہ اگر معمار کمزور ہوں گے تو تعمیر کس طرح سے بہتر ہو سکے گی۔
رسم رواج اور عقائد:
لوگوں کے ذہنوں میں غذا کے ٹھنڈے اور گرم ہونے کا تصور کچھ اس طرح بیٹھا ہوا ہے کہ مریض تو مریض‘ تن درست حضرات بھی اس سے پرہیز کرتے ہیں حتیٰ کہ بچوں کو بھی ان کے قریب نہیں جانے دیتے حالانکہ غذا کا بنیادی مقصد جسم میں حرارت اور توانائی پیدا کرنا ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض چیزیں زیادہ حرارت پیدا کرتی ہیں اور بعض کم۔ بعض لوگ گرمی کے موسم میں انڈا و مچھلی خود بھی کم کر دیتے ہیں اور بچوں کو تو مکمل پرہیز کراتے ہیں کہ یہ غذائیں مزاجاً گرم ہیں۔ اب اگر ان غذائوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بڑی مقدار پروٹین کی ہے جو کہ بچوں کی نشوونما کے لیے سب سے ضروری غذائی جزو ہے اور اس کی کمی سے نہ صرف بچوں کی پرورش رک سکتی ہے بلکہ چند امراض بھی ظاہر ہوسکتے ہیں۔
ترش پھلوں‘ دہی اور لسی کو ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جاتا ہے۔ خصوصاً سردیوں کے موسم میں تو یہ چیزیں شجرِ ممنوع بنی رہتی ہیں حالانکہ ہمیں یہ بات بہت اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہماری جسمانی ضرورت کو جس طرح فطرت بہتر طریقہ پر سمجھتی اور اسے پورا کرنے کے اہتمام کرتی ہے اسے دنیا کا کوئی علم پورا نہیں کرسکتا۔ موسم کے لحاظ سے جس طرح کے غذائی اجزا کی ہماری جسم کو ضرورت ہوتی ہے وہی سب چیزیں پھلوں ترکاریوں اور سبزیوں کی شکل میں پیدا ہونے لگتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ قدرتی طور پر انہیں استعمال کرنے کی خواہش بھی ہمارے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اب اگر ہم محض توہمات کی بنا پر سردیوں میں کینوں‘ مالٹا اور امرود وغیرہ سے پرہیز کریں تو ہم ان ضروری غذائی اجزا سے اپنے جسم کو محروم کر لیں گے جس کی فطری طور پر ہمیں ضرورت ہے اور جسم کا انتظام قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ اس طرح سے تمام موسمی غذائی چیزوں کو متصور کر لینا چاہیے۔
ترش پھلوں سے نزلہ و زکام کے مریضوں کو دور رکھا جاتا ہے حالانکہ ان میں وٹامن سی بڑی مقدار میں ہوتا ہے جو کہ جسم میں امراض سے محفوظ رہنے کے لیے قوتِ مدافعت پیدا کرتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے ہی طبیب ایسی ادویہ نزلہ و زکام کے لیے تجویز کرتے رہے ہیں جن میں وٹامن سی بھی ہے اور وہ ذائقہ میں ترش بھی ہیں اور نزلہ و زکام کا اچھا علاج بھی ہیں حالانکہ اس وقت حیاتین کی نہ صرف اس طرح درجہ بندی ہوئی تھی اور نہ ان کا تصور اتنا واضح تھا۔ مثال کے طور پر تھرپھلہ (جواہر اطریفل کا لازمی جزو ہے) مربہ آملہ‘ شربت شہتوت وغیرہ۔ یہ نزلہ و زکام‘ کھانسی اور گلے کی سوزش میں استعمال ہونے والی عام دوائیں ہیں اور ان کا ذائقہ ترش ہے۔ پرہیز دراصل مریضوں کے لیے ہوتا ہے اور اسے معالج کے مشورے سے ہی کرنا چاہیے اور صرف اس وقت تک جاری رکھنا چاہیے جب تک بیماری رہے یا معالج مشورے دے۔ غیر ضروری طور پر یا محض اپنی عقل لڑا کر کسی غذا کو مستقل چھوڑ دینا درست نہیں ہے۔ مونگ پھلی کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ کھانسی پیدا کرتی ہے اس لیے اسے استعمال نہیں کیا جاتا حالانکہ مونگ پھلی کے اندر بڑی مقدار میں پروٹین اور چکنائی موجود ہے۔ یہ ہمارے بچوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے کا ایک اچھا اور سستا ذریعہ ہے۔ اسے غریبوں کا بادام کہا جاتا ہے تو غلط نہیں کہا جاتا کیوں کہ غذائی لحاظ سے یا بادام سے کم نہیں ہے۔ ہاں اس کے اوپر جو باریک بھوری پرت ہوتی ہے اسے جدا کر دینا چاہیے وہ گلے میں خراش پیدا کرتی ہے۔
دودھ گیس پیدا کرتا ہے؟
دودھ خدا کی ایک نعمت ہے اور جسم کے لیے مکمل غذا ہے اس سے خود کو محروم کرنا بڑی زیادتی ہے خصوصاً بچوں کی جسمانی نشوونما میں بڑا حصہ دودھ کا ہوتا ہے۔ یہ بہت جلدی ہضم ہونے والی غذا ہے اسی لیے جب بیماری کے دوران کوئی غذا ہضم نہیں ہو رہی ہوتی ہے تو دودھ پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور وہ بخوبی ہضم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو اگر معدہ یا جگر کی کمزوری سے پیٹ میں نفخ محسوس بھی ہو تو انہیں چاہیے کہ دودھ کو جوش دیتے وقت اس میں چند دانے منقیٰ یا تھوڑی سی خشک ادرک جسے سونٹھ کہا جاتا ہے‘ ڈال دیں یا کریم نکال اہوا یا بالائی اتارا ہوا دودھ استعمال کیا جائے۔ دودھ بہ سہولت ہضم ہو جائے گا مگر دودھ جیسی غذا سے خود کو محروم کر لینا بڑی زیادتی ہے۔
گائے کا گوشت بادی ہے؟
بڑی آبادی گائے کے گوشت سے اس لیے بچتی ہے کہ وہ بادی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے طرح طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور چھوٹے گوشت کے مقابلے میں اس میں غذائیت بھی کم ہے۔ بکرے کے گوشت کو زیادہ مفید سمجھ کر دوگنی قیمت پر خرید کر استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ گائے کا گوشت زیاد غذائیت رکھتا ہے اسی لیے ترقی یافتہ ممالک میں اس کی قیمت چھوٹے گوشت کے مقابلے میں دوگنی ہے چونکہ وہ اس کی غذائی اہمیت سے واقف ہیں لہٰذا اسے کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے یہ ہمارے ملک میں ارزاں ہیں۔ بکرے کا گوشت مریضوں کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیوں کہ وہ جلد ہضم ہو جاتا ہے اور اس کے پتلے شوربے میں روٹی نرم کرکے کھائی جاتی ہے مگر یہ مشورہ مریضوں کے لیے ہے نہ کہ تن درست افراد کے لیے۔
بناسپتی گھی اور تیل:
عام طور پر بناسپتی گھی کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور تیل کو کم تر سمجھا جاتا ہے حالانکہ انہی تیلوں کو مصنوعی طریقہ پر جما کر گھی بنا دیا جاتا ہے۔ گھی بنانے کے لیے انہیں کیمیاوی عمل سے گزرنا پڑتا ہے جن سے ان کی غذائیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ان کیمیاوی اجزا کی کچھ نہ کچھ مقدار بھی گھی میں باقی رہ جاتی ہے جو صحت کے لیے مضر ہے اور محض نفسیاتی تسکین کے لیے ہم ان بنیادی طور پر تیلوں کو گھی سمجھ کر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ان کی قیمت بھی زیادہ ادا کی جاتی ہے اور فائدے بھی کم حاصل ہوتے ہیں بلکہ بعض امراض پیدا ہو جانے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ تیل بھی بہت صاف شفاف قسم کے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہیں بھی مختلف قسم کے تیزاب میں ملا کر صاف کیا جاتا ہے اگر گہری رنگت لیے ہوئے تیل خریدے جائیں اور وہ خالص ہوں تو انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سبزیوں اور چاولوں کو ابال کر پانی ضائع کر دینا:
یہ رواج تقریباً ہر گھر میں پایا جاتا ہے کہ سبزیوں اور چاولوں کو پانی میں خوب ابالا جائے گا اور بعد میں اس پانی کو بے کار سمجھ کر پھینک دیا جائے گا جب کہ اس پانی میں کافی غذائیت حل ہو جاتی ہے۔ خصوصاً وٹامن (بی اور سی) پانی میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند قسم کے معدنیات بھی اس پانی حل ہو جاتے ہیں۔ یا تو پکاتے وقت اس پانی کو جذب کر دینا چاہیے یا پھر اسے الگ سے سوپ کی شکل میں یا کسی اور طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
چاولوں کے استعمال میں ایک غلطی اور کی جاتی ہے کہ انہیں مشینوں سے صاف کرایا جاتا ہے جسے چاول پر پالش کرنا کہتے ہیں۔ اس عمل سے چاولوں کے اوپر پائی جانے والی باریک پرت ضائع ہو جاتی ہے اس پرت میں ہی وٹامن بی پایا جاتا ہے نتیجتاً چاول خور افراد میں اس وٹامن کی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور انہیں طرح طرح کے امراض لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اس ذیل میں ایک تجربہ بھی کیا گیا کہ صاف کیے ہوئے چاول چند یوم تک چڑیوں کو کھلائے گئے تو انہیں مرض ’’بیری بیری‘‘ ہو گیا اور ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہو گئیں۔ فوراً ہی انہیں اول کی اوپری پرت جو کہ پالش کرتے وقت جدا کر دی جاتی ہے‘ کھلانا شروع کر دیا تو وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو گئیں۔ ایک مخصوص چاول جسے ساٹھی کا چاول کہا جاتا ہے اور جو بغیر پالش کیا ہوتا ہے دوا کے طور پر استعمال کرایا جاتا ہے اور اس کا ابالا ہوا پانی لو بلڈ پریشر اعصابی دردوں اور سنگ رہنی میں نہایت مفید ثابت ہوتا ہے ان میں سے بیشتر امراض وٹامن ’’بی‘‘ کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں۔
آٹے سے بھوسی چھان کر علیحدہ کر دینا:
ہمارے گھروں میں عام طور پر آٹے کو چھان کر اس کی بھوسی علیحدہ کر دی جاتی ہے اور باریک و سفید آٹے کو اچھا سمجھا جاتا ہے جب کہ زیادہ تر غذائی اجزا اسی بھوسی میں ہیں۔ میدے میں محض نشاستہ باقی بچتا ہے۔ ایک مشہور ماہر تغذیہ ڈاکٹر ایچ ہیلڈلے کو 25 سال ایسے علاقے میں رہنے کا اتفاق ہوا جہاں بغیر چھنے ہوئے موٹے آٹے کی روٹی پکائی جاتی تھی۔ ڈاکٹر موصوف نے اندازہ لگایا کہ وہاں کے لوگو ں کو اپنڈی سائی ٹس‘ زخم معدہ‘ قولنج‘ سنگ مرارہ اور ہڈیوں کی کمزوری جیسے امراض بہت کم ہوا کرتے تھے چونکہ اناج کی بھوسی استعمال کرنے سے معدہ و آنتوں کو بڑی مقدار موٹی غذا کی مل جاتی ہے جس کی وجہ سے ان میں خوب خمیر پیدا ہوتا ہے اور نہ صرف تیزابیت زائل ہو جاتی ہے بلکہ ہضم کی قوت بھی بڑھ جاتی ہے۔
یہ بھی تجربہ میں آیا ہے کہ سوزش یا زخمِ معدہ کے مریض اگر گندم کی بھوسی پکا کر صبح و شام ایک ایک پیالی استعمال میں لائیں تو انہیں خاصا فائدہ محسوس ہوتا ہے۔ گندم کی بھوسی معدے کی تیزابیت رفع کرنے کی خصوصیت رکھتی ہے اور اس کے ساتھ قیمتی وٹامن کیلشیم اور دیگر معدنیات سے بھی مالا مال ہے اسی لیے زیادہ پُر تکلف لوگ جو کہ باریک اور چھنا ہوا آٹا پسند کرتے ہیں مذکورہ امراض میں کثرت سے مبتلا ہوتے ہیں۔
غذا کو زیادہ پکانا یا بھوننا:
غذا کو بہت دھیمی آنچ پر پکانا چاہیے جس سے نہ صرف وہ خوش ذائقہ ہوتی ہے بلکہ اس کی غذائیت بھی کم ضائع ہوتی ہے۔ اسے دیر تک تیز آنچ پر پکانے یا بھوننے سے غذا میں موجود وٹامن اے‘ سی اور ڈی ختم ہو جاتے ہیں۔ گوشت کو خاص طور پر خوب بھونا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں پایا جانے والا قدرتی روغن اور وٹامن اے تلف ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے اس میں گھی وغیرہ زیادہ مقدار میں ڈالا جاتا ہے جو کہ مزید اخراجات کا سبب ہوتا ہے۔ کباب کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس پر ہی غور کیجیے کہ پہلے گوشت کو قیمہ کیا جاتا ہے پھر خوب ابالا جاتا ہے پھر اسے باریک پیسا جاتا ہے اس کے بعد گھی یا تیل میں تلا جاتا ہے اس حد تک اس کی بیرونی سطح سیاہ ہو جاتی ہے اب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ اس میں موجود غذائی اجزا کا کیا حشر بنتا ہوگا۔
چائے اور ٹھنڈی بوتلوں کا رواج:
چائے کو بعض لوگ غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں حالانکہ اس میں غذائیت صرف اس شکر اور دودھ کی ہوتی ہے جو کہ قلیل مقدار میں شامل کیے گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ برصغیر میں چائے کوئی مفت پینے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا تھا مگر پہلے غیر ملکی اور اب ملکی صنعت کاروںنے ان کے فوائد گنا گنا کر اس کی خوبیوں کے قصیدے سنا سنا کر اپنے فائدے کا بھرپور سامان کر لیا۔ آج یہ حالت ہے کہ صرف چائے کی درآمد اور دیگر اخراجات پر اس غریب ملک کے اربوں روپے سالانہ ضائع ہو جاتے ہیں۔
پہلے ہمارے دیہاتی اور مزدور بھائی سالن نہ ہونے کی صورت میں روٹی گڑ‘ پیاز‘ لسی چار‘ چٹنی سے کھا لیا کرتے تھے جن میں بہرحال غذائیت ہوتی تھی۔ اب آسان نسخہ ہاتھ آگیا ہے کہ چائے سے روٹی کھائی جاتی ہے حتیٰ کہ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے جس سے طاقت پہنچنا تو ایک طرف الٹی صحت خراب ہوتی ہے۔ ٹھنڈے مشروبات کا بھی یہی حال ہے۔
پہلے مہمانوں کی خاطر دودھ‘ لسی‘ شربت ستو وغیرہ سے کی جاتی تھی جو کہ غذائیت سے بھرپور ہوتے تھے اور چونکہ گھر ہی میں تیار کیے جاتے تھے اس لیے سستے بھی پڑتے تھے نیز قیمتی زرمبادلہ بھی باہر نہیں جاتا تھا۔ مگر صنعتی چال بازیوں اور اشتہار کے جادو نے انہیں دقیانوسی کہہ ڈالا اور فیشن کے خلاف قرار دلوا دیا۔ گویا غذا اور مشروب فیشن کے مطابق ہونا چاہیے چاہے اس سے نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے تمام تر ذرائع کام میں لا کر لوگوں کو بھی سمجھائیں اور خود بھی عمل کریں کہ کم آمدنی کے باوجود کس طرح سے ایک متناسب غذا استعمال کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر غذائی اجناس خریدتے وقت یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ کون سی چیزیں کم قیمت ہونے کے باوجود غذائی اجزا سے مالا مال ہیں دوسرے‘ غلط رسم و رواج اور عقائد کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرے پکانے کے دوران جو غذائیت ضائع ہو جاتی ہے اس کی روک تھام کی جانی چاہیے۔
اپنے گھر کا غذائی منصوبہ بناتے وقت ہمیں بنیادی طور پر اپنے اور بچوں کی صحت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ماحول‘ فیشن‘ فوقیت‘ چٹخارہ یہ سب غیر اہم بلکہ شدید نقصان دہ باتیں ہیں۔