توازن

281

سامنے کا منظر مسکرانے والا تو تھا لیکن اس کے بے ساختہ قہقہہ لگانے کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔
’’ہوا کچھ یوں کہ پڑوسن کو دروازے تک چھوڑنے گئی، سامنے گلی میں بلی ایک چوہے پر جھپٹ رہی تھی، اچانک چوہا مڑا اور بلی کو غصے سے دیکھا، بلی کے لیے یہ غیر یقینی کیفیت تھی، تبھی وہ یکدم رک سی گئی۔‘‘ وہ بے ساختہ قہقہے کی وجہ بتاتے ہوئے بولی۔
’’یہی منظر صبح میرے گھر تھا، میاں کے غصے کو معمول کے مطابق برداشت کرتے کرتے آج حد ہوگئی۔ جواباً منہ بنا کر غصہ دکھایا۔ میاں بھی یکدم ہی اس بلی کی طرح ساکت ہوگئے تھے۔‘‘
اُس نے کچھ اس انداز سے بتایا کہ کتنی ہی دیر ہماری ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ تب سے سوچ رہی تھی ازدواجی زندگی بھی کتنے اتار چڑھاؤ کا مجموعہ ہے۔
ڈرامائی کرداروں میں زندگی گزارنے والی ایک خاتون یعنی اداکارہ کسی انٹرویو میں شوہر کے ساتھ بیٹھی ڈرامے اور حقیقت کا فرق بتاتے ہوئے کہہ رہی تھی:
’’شادی شدہ زندگی وہ ہرگز نہیں جو فلموں، ڈراموں میں دکھائی جاتی ہے، نہ ہی وہ ہے جس کے جوانی میں خواب دیکھے اور توقعات باندھی جاتی ہیں۔ یہ ایک ذمے داری کا نام ہے جس کا آغاز اگلی صبح ہی ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرے کو جاننا، قبولنا بھی ایک بڑا کام ہے جس میں وقت، محنت، توجہ، قربانی کی ضرورت دونوں کو ہوتی ہے۔‘‘
ان دنوں تسلسل سے کچھ خواتین کو اپنے خاندان اور کیریئر کے درمیان الجھتے دیکھا جو اس چیلنج سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کی کوشش میں تھیں۔
انہیں کیریئر بھی بنانا تھا، آٹھ گھنٹے کی نوکری کے ساتھ وہ شوہر، گھر اور بچوں کو بھی کھونا نہیں چاہتی تھیں۔ اس چکر میں ڈپریشن کی زد میں تھیں۔
ایسے میں جشنِ آزادی کی تقریب میں اینکر صاحبہ یاد آئیں، جو ڈھولکن خاتون کو فخریہ پاکستان کی پہلی ڈھولکن خاتون کا خطاب دے کر نہ جانے کسے دھوکا دے رہی تھیں! جو ڈھولکن شہزادی کے نام پر ازدواجی رشتے کو کھونے کی قیمت پر نازک پن کے ساتھ ساتھ سبھی کچھ تو کھو بیٹھی تھی۔ مضبوط حصار سے نکل کر وہ نہ گھر کی، نہ گھاٹ کی رہی تھی۔
دعوت میں کچھ سہیلیاں جمع ہوئیں۔ گفتگو ازدواجی زندگی پر آگئی۔ ایک دانش مند خاتون نے بڑی گہری بات کہی کہ ’’شوہر کے ساتھ تو ابتدائی کچھ عرصے کے بعد گزارا ہی ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ اتنی تبدیلی ہوتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی ماننا اور کچھ اپنا آپ منوانا آجاتا ہے، لیکن گھر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
شوہر ایک ذمے داری کا نام ہے۔ اس کے بغیر شوہر، شوہر نہیں ہوتا۔ یہ ذمے داری احساس اور ادائیگی ہے۔ بجلی، گیس، پانی کے بل، لین دین، فیسیں، کتابیں، کپڑے اس نام کے ساتھ ایک لمبی فہرست لگی ہے۔
بیوی الگ ذمے داری کا نام ہے۔ اس رشتے میں بندھتے ہی کھانا پکانا، صفائی دھلائی… نزاکتوں کو ابھی سمجھ ہی رہی ہوتی ہے کہ بچوں کی آمد ہوجاتی ہے۔
ماں کا رتبہ بڑا اعزاز ہے لیکن ابھی ذمے داری کی ادائیگی باقی ہے۔ ادا کرنی کیسے ہے؟ یہ بھی سیکھنا ہے۔ زیادتی کوئی اور نہیں وہ خود اپنے ساتھ آپ کرتی ہے، جب وہ شوہر کے تصور کے ساتھ توقعات کی لمبی لسٹ جوڑ لیتی ہے۔
وہ معصوم سمجھ ہی نہیں پاتی کہ اس کا شوہر ابھی پنگوڑھے سے منسلک ایک بچہ ہے، جو خود اپنے ذاتی کام بھی نہیں کر پاتا، بے فکری اور موج مستی میں ماں باپ کے ساتھ جاکر ایک ساتھی بیاہ لایا ہے جس کے تقاضوں کو سمجھنے سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔
نتیجے میں محترمہ کا تاج محل جلد لڑھکتا، ٹوٹتا، بکھر جاتا ہے۔ مگر برسوں سے دیکھے خوابوں سے جلدی دست بردار ہونا بھی نہیں چاہتی۔ حقیقی زندگی خوابوں سے یکسر مختلف ہے۔ شہزادی سے متضاد روپ پاکر اب ایک اور غلطی کرتی ہے۔ اپنے مقام کے تقاضے سمجھنے کے بجائے نام نہاد خودترسی کا شکار ہوکر کسی کے بھی دھوکے میں آجاتی ہے، بعض دفعہ ہمدردی کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کے جال میں جا پھنستی ہے۔ چند برسوں میں زندگی کا کچھ شعور پاتے ہی اسے ادراک ہوتا ہے کہ کئی قیمتی لمحے ضائع کرچکی ہے۔
یاد رہے اس رشتے کی اصل خوب صورتی یہ ہے کہ دونوں فریق خوابوں سے ہٹ کر حقیقت سمجھنے کی کوشش کریں۔ سمجھ لیں کہ ان کی ذات سے الگ کئی اور رشتے اور تقاضے جڑے ہیں۔ دونوں سیکھنے کے مرحلے میں جذباتیت کے دور میں الگ وجود اور شناخت بھی چاہتے ہیں۔
ان حقیقتوں کے ادراک کے بعد ذرا سی مسکراہٹ، ہاتھ تھام لینا، کندھا بن جانا، کہیں جاتے ایک قلفی یا بھٹا کھلانا، سامان اٹھا لینا بھی بہت خوب صورت احساس دیتا ہے۔
اس رشتے کا ایک تقاضا بھرم قائم رکھنا بھی ہے۔ گھر کا کچرا کبھی بھی گلی، محلے میں سجانے کے لیے نہیں بلکہ کوڑا دان میں ڈالنے کے لیے ہوتا ہے۔ عزت، بھرم کا قائم رکھنا ہی کامیابی ہے۔
کسی فریق کو اتنا بوجھل کردینا کہ وہ پلٹ کر غلط انداز اختیار کرے یا ایسے کسی رویّے پر مجبور ہوجائے… ہرگز زیب نہیں دیتا۔ صبر اور شکر کے دو رویوں کے ساتھ بہت اچھا گزارا ہوسکتا ہے۔

حصہ