ہم کیوں مسلمان ہوئے

314

ڈاکٹر طارق احمد راشد(انگلستان)
ڈاکٹر طارق احمد راشد کا پرانا نام ڈاکٹر کینتھ کریگ (Kenneth Craig) تھا۔ قبول اسلام سے قبل وہ انگلستان میں عیسائیت کے ایک مستند عالم اور مبلغ (Theologian) تھے۔ اسلام کی طرف حیرت انگیز طور پر انہوں نے اس وقت پیش قدمی کی جب 1976ء میں وہ ملازمت کے سلسلے میں چین میں مقیم تھے اور وہاں دیگر مذاہب کی طرح اسلام پر بھی مکمل پابندی عائد تھی۔ ان کے قبول اسلام کی دل چسپ داستان انہی کی زبان سے سنیے۔
…٭…
میں 1935ء میں امریکا میں پیدا ہوا۔ عام ماحول کے مطابق میرے ماں باپ محض نام کے عیسائی تھے اور انہیں مذہبی مراسم کی چنداں پروا نہ تھی۔ تاہم مجھے رواج کی خاطر رومن کیتھولک طریقے سے بپتسمہ دیا گیا۔
میری عمر چند ہی برس کی تھی جب میرے والدین چین منتقل ہوگئے اور میرے لڑکپن کے کئی سال شنگھائی میں بسر ہوئے۔ قدرتی طور پر مجھے چین کے لوگوں سے پیار ہو گیا اور کمیونزم کی تحریک چلی تو عام چینی بچوں کی طرح مائوزے تنگ میرے بھی محبوب رہنما بن گئے۔ میں نے چیئرمین مائو کے علاوہ کارِل مارکس‘ انجلٹرو اور لینن کی تحریروں کا خوب مطالعہ کیا اور ساری امیدیں پرولتاری انقلاب سے وابستہ کرلیں انقلاب کا ماحول‘ ان گنت قسم کی پابندیاں اور گھٹن ہمارے خاندان کو راس نہ آئی اور میرے والدین انقلاب کے تین چار سال کے اندر چین سے انگلستان چلے گئے جہاں میں نے سیکنڈری اسکول کی تعلیم ختم کی ہی تھی کہ بدقسمتی سے میرے ماں اور باپ دونوں وفات پا گئے اور میں دنیا یک و تنہا رہ گیا۔
اس وقت خدا نے مجھے سہارا دیا اور اس کی یاد اور عبادت میری تنہائیوں کی مونس و ہمدم بن گئی۔ چنانچہ میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو مذہبی تعلیمات کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے میں فلاسفی اور Theology (علمِ الہٰیات) کے مضامین اختیار کیے۔ میں چاہتا تھا کہ مستقبل میں عیسائیت کی تعلیم اور تبلیغ میں تخصص (Sepcialization) حاصل کروں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں نے پوسٹ گریجویشن کے بعد Theology میں پی ایچ ڈی بھی کر لی اور عیسائیت کے ایک مستند مبلغ کی حیثیت سے چرچ میں خدمات انجام دینے لگا۔
لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میں اس دور میں جب میں مبلغ کی حیثیت سے اپنی خدمات جوش و خروش سے انجام دے رہا تھا‘ میں عیسوی عقائد کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گیا اور شک کی یہ لہر بڑھتی ہی چلی گئی۔ مسیح کا خدا ہونا‘ عقیدہ تثلیث یعنی ایک میں تین اور تین میں ایک ہونا اور سب سے بڑھ کر ’’خدا‘‘ کا دشمن کے ہاتھوں مصلوب ہونا‘ ان عقائد نے مجھے سخت پریشان کیا اور عجیب بات یہ ہے کہ جوں جوں مطالعہ کیا اور رفقا سے گفتگو کیں‘ یہ گتھی الجھتی چلی گئی۔ تنگ آکر تقابل ادیان کی ٹھانی اور اسلام کا مطالعہ کیا اگرچہ یہ معلومات تعصب سے آلودہ تھیں‘ پھر بھی ذہن بے اختیار اس اجنبی مذہب سے خاصا متاثر ہوا۔ میں چرچ سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ’’سول‘‘ زندگی اختیار کر لی اور پہلے انگلستان اور پھر جرمنی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض انجام دیتا رہا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ذہنی تبدیلی کے باوجود خدا پر میرا ایمان متزلزل نہ ہوا اس لیے ہفتہ وار عبادت کے لیے میں اتوار کو گرجے میں جایا کرتا تھا۔
1972 میں لندن کے چینی سفارت خانے نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور پیشکش کی کہ میں چین کے ایک لسانیاتی ادارے (Language Institute) اور پیکنگ یونیورسٹی میں انگریزی زبان کی تعلیم دیا کروں۔ میں بہت خوش ہوا۔ گویا خوابوں کو تعبیر مل گئی۔ میں نے پیشکش قبول کر لی اور پیکنگ یونیورسٹی سے وابستہ ہو گیا۔ زبانوں کے متعلقہ انسٹی ٹیوٹ میں بھی مجھے خدمات انجام دینا تھیں۔
چین میں اس مرتبہ مجھے بالکل نئی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مذاہب کو مکمل طور پر کچل دیا گیا تھا۔ عبادت خانے یا تو مسمار کر دیے گئے تھے یا انہیں سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تھا جب کہ چرچ سے تعلق منقطع ہونے کے باوجود میرا خدا سے رابطہ بڑھ گیا تھا اور میں عبادت کے بغیر اپنے آپ کو خلا اور گھٹن کی کیفیت سے دوچار پاتا تھا۔ اسی لیے اتوار کو پابندی سے گرجا میں حاضری دیتا تھا لیکن یہاں ایسی کوئی سہولت موجود نہ تھی اور چند ہی برسوں میں ماحول کے زیر اثر میری یہ کیفیت ہوئی کہ آخر کار میں نے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا کہ آیا خدا واقعی موجود ہے اور مذہب کی کوئی افادیت بھی ہے؟
مایوسی کا یہ وہ آخری درجہ تھا جب اللہ نے ہاتھ بڑھایا اور مجھے حیرت انگیز طور پر دہریت و الحاد کی تاریک پستیوں میں گرنے سے بچا لیا۔ ہوا یوں کہ میرے شاگردوں میں دو نوجوان ایسے تھے جن کا مجموعی رویہ باقی سب طلبہ سے مختلف تھا۔ وہ بڑے ہی خوش اخلاق‘ ملنسار اور باوقار تھے۔ ان سے کوئی چھچھوری حرکت کبھی سرزد نہ ہوئی اور خصوصاً اساتذہ کا وہ بڑا ہی احترام کرتے تھے۔ ان دونوں نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔راہ و رسم پیدا ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور اس طرح اسلام سے میرا براہِ راست تعلق قائم ہوا۔ اگرچہ غیر ملکیوں سے چینی باشندوں کا تعلقات استوار کرنا ممنوع تھا مگر استاد کے ناتے ہمیں کچھ رعایات بھی حاصل تھیں اور اسی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان نوجوانوں سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کیں اور پہلی بار مجھ پر کھلا کہ یہ مذہب تو عقل و شعور اور وجدان و ضمیر کے مطالبات کے عین مطابق ہے۔
اسلام کے بارے میں میری دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ میں نے پاکستان اور مصر کے سفارت خانوں سے بھی رابطہ قائم کیا اور وہاں سے مجھے بہت ہی کارآمد لٹریچر مل گیا خصوصاً مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے مجھے ان سارے سوالوں کے جواب مل گئے جو مذہب کے بارے میں میرے دل و دماغ میں پیدا ہوتے رہتے تھے اور وہ سارے اعتراضات بھی رفع ہو گئے جو مجھے گھیرے رکھتے تھے۔ مولانا مودودیؒ کے علاوہ پروفیسر محمد قطبؒ اور حمودہ عبدالعاطیؒ کی تحریروں نے بڑا کام کیا۔ میں مکمل طور پر یکسو ہو گیا اور جی چاہنے لگا کہ مسلمانوں کے انداز میںعبادت کیا کروں۔ میرے مسلمان شاگردوں نے بتایا کہ پیکنگ کے نواح میں ٹونگسی کے مقام پر ایک مسجد جمعہ کے روز صرف ایک گھنٹے کے لیے کھلتی ہے جہاں ایک چینی امام غیر ملکی مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھاتا ہے۔ اس کی تصدیق فلسطین‘ پاکستان اور مصر کے رفقائے کار نے بھی کی اور میری خواہش پر وہ مجھے جمعہ کے روز اپنے ساتھ مسجد میں لے جانے لگے اور اسلامی طریقِ عبادت اور اس کے فلسفے نے میری ساری روحانی پیاس بجھا دی۔ پاکستانی سفارت خانے سے مجھے قرآن اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی مل گیا اور میں اسے خوب توجہ سے پڑھنے لگا۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور مسلمانوں سے رابطے کا سلسلہ کئی سال تک جاری رہا حتیٰ کہ میں نے اسلام قبول کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس مقصد کے لیے میں ہانگ کانگ چلا گیا اور 12 دسمبر 1983ء کو وہاں کے اسلامک سینٹر میں جا کر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ اللہ غفور الرحیم کی رحمت اور فضل و کرم کا شکر کس زبان سے ادا کروں‘ اس نے اسلام کی نعمت مجھے اس ملک میں عطا فرمائی جہاں اس کا نام لینا جرم قرار پایا تھا اور جہاں خصوصاً اہلِ اسلام پر بے حد و حساب ظلم توڑے گئے تھے۔

حصہ