پاکستان میں آرمی چیف پہلے بننے کے بعد مقبول تھا مگر اب بننے سے پہلے ہی مقبولیت کی کئی حدیں پار کر چکا ہے۔ ملک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر چوک چوراہوں پر ڈسکس ہو رہا ہے۔ اتفاق سے کئی ماہ قبل میں اپنی تحریر میں یہ پیش گوئی کر چکا تھا، اس میں آئی ایس آئی چیف کی تقرری بھی شامل تھی۔ تو دیکھ لیجیے گا اب وہ بھی ایسے ہی ڈسکس ہوگی۔ اس لیے چھوڑیں سیاست کو ،نہ ارشد کے قاتل پکڑے جانے ہیں نہ عمران حملے کا معمہ حل ہونا ہے۔ تو کھیل کود کی بات کرتے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ کے بعداب فٹ بال ورلڈ کپ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا سینسیشن بن گیا ہے۔ ہر میچ ڈسکس ہو رہا ہے چاہے پاکستانی ٹیم ہو یا نہ ہو۔ فٹ بال کا دائرہ کار بہرحال کرکٹ سے بڑا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی معاونت میں ایسی سرگرمیاں بڑا مقام رکھتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بار میزبانی ایک اسلامی ملک قطر کے پاس آئی۔ 1930 میں پہلا ورلڈ کپ یوراگوئے کی میزبانی میں ہوا جسے یوراگوئے نے ہی جیتا، پھر اٹلی، فرانس، برازیل ، سوئٹزرلینڈ، سوئیڈن، چلی، انگلینڈ، ارجنٹینا، اسپین، میکسیکو، اٹلی، امریکا ، فرانس، جنوبی کوریا ، جرمنی، جنوبی افریقہ، برازیل، روس تک گیا۔ سارے میزبان بتانے کا مقصد یہ تھا کہ باوجود اس کے کہ اس کھیل میں پاکستان کے علاوہ کئی مسلم ممالک انتہائی دل چسپی رکھتے ہیں، مگر اس کھیل پر مغربی ممالک کی فتوحات کی وجہ سے ایک بھرپور اجارہ داری قائم ہے۔ پہلی بار قطر کو اس کھیل کی میزبانی ملی اور انہوں نے ایسی ’چکا چک‘ تیاری کی کہ معصوم، سادہ لوح مسلمان خوشی سے لوٹ پوٹ نظر آئے۔ فٹ بال کی سرمایہ دارانہ میزبانی میں اسلامی ٹچ نے دلوں کو جیت لیا۔ یہی نہیں قطر نے قوتِ نافذہ کی بدولت ایسے اہم اعلانات بھی کیے جس نے واقعی ’لبرلز‘ کی انگلیاں دانتوں میں دے ڈالیں۔ افتتاحی تقریب ہی نہیں ، دو اہم میچز،جن میں سعودی عرب کی فتح، جاپان کی جرمنی سے اَپ سیٹ فتح سوشل میڈیا پرخوب شیئر کی گئی۔ سوشل میڈیا خبروں کے مطابق شرکا کو عطر کے تحائف، خوش الحان اذان، وضو خانے و نماز کی جگہوں کے انتظام، ڈاکٹر ذاکر نائیک کی آمد نے تو زبردست ماحول بنا دیا۔ بھارتی میڈیا نے اس پر شدید رد عمل دیااور خوب زہر اُگلا۔ قطری صحافی کے ٹوئیٹ کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک خصوصی لیکچر بھی دیں گے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان فلسطین کا مقدمہ بہت اچھے انداز سے پیش کیا گیا جس پر اسرائیل کو خاصی مرچیں لگیں۔ یہی نہیں قطر کی جانب سے ’ایل جی بی ٹی ‘ کی شیطانی تحریک کو دروازے پر ہی روک دینے کا عمل بھی قابل تحسین تھا، کھلاڑیوں کی کلائی تک سے ’’رینبو بینڈز‘‘ اتروا لیے گئے۔ جرمن کھلاڑیوں نے منہ پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنوائی اور اس پراپنا ردعمل ظاہر کیا۔ اس کے بعد ٹورنامنٹ کے تیسرے دن برطانوی سیکرٹری خارجہ کو آنا پڑا، اس نے بیان دیا کہ ہم نے بڑی مشکل سے قطر کو راضی کیا ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کو مجبور کریں گے کہ وہ میزبان قطری قوانین کے مطابق ادب، تمیز اور احترا م سے قوائد کے پابند رہیں اور لچک دار رویے کے ساتھ کچھ کمپرومائز کریں۔ (بحوالہ :بی بی سی، 23 نومبر) لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سارے عمل سے بھی قطر پر ’ہیومن رائٹس وائلیشن‘ کا لیبل چسپاں کیا گیا، زبردستی کئی عالمی گلوکاروں کی عدم آمد کو بھی اس حوالے سے متنازع بنایا گیا۔
یہ تو تھا ایک پہلودوسر ی جانب اس کی پذیرائی کا عالم ایسا تھا کہ علامہ اقبالؒ کے ایک شعر کو موضوع بنا کر یہ پوسٹ ہر جگہ شیئر ہوتی ملی ،’’قطرمیں فٹ بال کے عالمی مقابلوں کے آغاز کے ساتھ ہی ساری دنیا کے لبرلز بلبلا اٹھے ہیں۔سوشل میڈیاپر قطرکے خلاف مہم کی بھرمار ہے مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ایک اسلامی ملک نے اپنی دینی روایات سے ہٹ کر کسی بھی کام سے انکار کر دیا اور تاریخ میں پہلی بار فٹبال ورلڈ کپ کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا، سیکولر ازم کا روپ ہر ملک میں مختلف ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اس کے ہاں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت وغیرہ کے خلاف نہیں۔ یہ اجتماعی زندگی میں ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کی جان جمعہ کے خطبے سے نکلتی ہے۔ اسے عید کا اجتماع دیکھ کر موت پڑجاتی ہے۔ دنیا کروڑوں ٹن بیف کا باربی کیو بنالے، آسٹریلیا کی بھیڑوں کے کروڑوں تکا بوٹی بنا کر کھائے جائیں اسے جانوروں کے حقوق یاد نہیں آتے لیکن ایک دن عیدالاضحی کی قربانی اسے زہر لگتی ہے۔ اسے کرسمس کی فضول خرچی بری نہیں لگتی، لیکن حج پر جانے والوں کے یا میلاد النبی پر خرچے کا حساب کرتا ہے۔ دنیا بھر میں ٹورازم انڈسٹری سے اربوں ڈالر کمانا ترقی کی علامت ہے لیکن اسے عمرے کا ایک سادہ سا سفر برا لگتا ہے۔ ہندو کروڑوں کی تعداد میں ہردوار‘ بنارس اور کنبھ جائیں تو سیکولر کو کچھ نہیں ہوتا۔ ویٹیکن سٹی میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں پوپ کی زیارت کو آئیں تو کسی لبرل کا دل نہیں جلتا۔ چرچ کی راہبائیں حجاب پہنیں‘ یہودی عورتیں شٹل کاک برقعہ پہنیں اس کو برا نہیں لگتا لیکن وہ مسلمان عورت کے حجاب پر تلملا اٹھتا ہے۔ یہ ہے سیکولرازم کا اصل دکھ اور اس کا اصل چہرہ۔ ان کی کتابیں، ان کے رسالے، ان کی ویب سائٹس، ان کے فیس بک پیجز اٹھالیں آپ کو صرف اور صرف اسلام اور شعائر اسلام سے نفرت ملے گی۔ آج کی دنیا میں ضرورت اس امرکی ہے کے ہم بحیثیت مسلمان اسلام کے آفاقی پیغام پرخود بھی عمل پیرا ہوں اوراپنی یکجہتی سے اقوام عالم کو یہ پیغام دیں ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ۔‘‘
فیفا اور کرکٹ میں فتح سے جڑے کھلاڑیوں کے سجدۂ شکر کے ایک عمل کے بارے میں اطہر وقار اپنی وال پر یوں لکھتے ہیں کہ ’ایک الٹرا لبرل نے اپنی پوسٹ میں اعتراض کیا کہ مسلم کھلاڑی گول کرنے یا میچ میں کامیابی کے بعد سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں یہ قطعی غیر ضروری ہے۔ اس پر تبصرہ :کیا عیسائی کھلاڑی فرط جذبات میں گلے کی صلیب کو نہیں چومتے یا آسمان کی طرف نہیں دیکھتے پھر مسلمانوں پر اعتراض کیوں؟ ہمیں تو حکم دیا گیا ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو خدا سے مانگو اور مل جائے تو شکر بجا لائو۔ ہمارے لبرلز مسلم تھیالوجی سے بالکل لاتعلق ہیں اور مخصوص علمیت، تعصب اور میلانات کی وجہ سے ایک passive تصور خدا رکھتے ہیں جو کہ مکمل طور پر پین تھیسٹک اور سیکولررائز ہے، اس لیے انہیں ہر اُس چیز سے خدا واسطے کا بیر ہو جاتا ہے جہاں خدا کے ساتھ تعلق ایکٹو یا ایک متحرک تصور خدا alive ہو جاتا ہے۔المیہ ہے اور صد افسوس ہے۔‘‘
افتتاحی تقریب جو بلاشبہ رنگوں، روشنیوں، موسیقی کی دھنوں پر انتہائی خوب صورت انداز سے سجائی گئی تھی ، خاصی زیر بحث رہی۔ روشنی، رنگینی، موسیقی سے بھری فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں سب سے زیادہ توجہ معروف ہالی ووڈ اداکار مورگن فری مین کے ایک (معذور) قطری نوجوان غانم المفتاح سے مکالمے کی تھی۔ معذوری کے سبب نوجوان نے عالمی میڈیا کی بھرپور توجہ پالی، پھریہ فیفا ورلڈ کپ ایمبیسیڈر بھی تھا۔ مکالمے میں نوجوان نے ایک آیت سنائی، بس اب تو بات ہی ختم۔ مطلب کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایک ڈائیلاگ کے بہانے تلاوت کو افتتاحی تقریب کا حصہ بناکر فٹ بال شائقین کو ایک ڈائیلاگ کے بہانے آیت سنائی گئی۔ (سوشل میڈیا پرایسا لگا کہ) اس مکالمے سے تو ’لبرل‘، سیکولر، ملحدین سب کے سب جل کر ختم ہوگئے۔ اس مکالمے کے بعد جو زبردست موسیقی، رقص، تفریحات پیش کی جاتی رہیں اُس سے بھی وہ سارے لبرل دوبارہ نہیںزندہ ہو سکے۔ دکھ ہوا کہ سادہ مسلمان اس عمل کو مغربی عقائد میں ہی سراہتے نظر آئے اور اس کوتوحید اور مساوات کا درس قرار دینے لگے۔ اس قسم کی تعریف دیکھ کر جہاں مجھے افسوس ہوا، وہیں اس موضوع پر بات کرنے پر مجبور کیا، کہ یہ تو انتہا ہی تھی۔
اس آیت میں نہ ہی توحید کا ذکر تھا اور نہ ہی مساوات کا۔ خوب جان لیں کہ ’مساوات ‘ کے معنی Equality ہے، یہ خالص باطل مغربی عقیدہ ہے، اس کی کوئی مثال اسلام میں کہیں بھی نہیں ہے، یہ اصطلاح وہیں سے آئی ہے اور وہیں کی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ امریکی اداکار مورگن فری مین اسٹیڈیم میں اپنے ڈائیلاگ دہراتے ہوئے داخل ہوتا ہے ، کہ ’اب تو دنیا مزید تقسیم نظر آتی ہے، ایسے میں دنیا میں کس طرح مختلف اقوام ، نسلیں، ثقافتیں ساتھ رہ سکتی ہیں، اگر کسی ایک طریقے کو ہی مانا جائے؟
اس کے جواب میں غانم :قرآن کی ایک آیت پڑھتا ہے اور ترجمہ بتاتا ہے! ’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
آیت کو پڑھ کر‘ سن کر صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ایک تو تمام انسان برابر نہیں ہیں دوسرا یہ کہ پرہیزگاری بہ معنی اطاعتِ رب کی وجہ سے سب میں فرق ہے۔ تو بھلا بتائے کوئی کہ اب اس میں توحید و مساوات کہاں رہی؟
اپنی تاریخ، اپنے دین کو اپنے دین کے کانٹیکسٹ میں ہی پڑھا، سمجھا جائے توہی حق کا درست فہم عطا ہوتا ہے۔ مغرب کی 200 سالہ غلامی کے زیر اثر ہوکر اپنی تاریخ، اپنے دین کو پڑھیں گے تو شدید کنفیوژن پیدا ہوگی۔ تمام انسان اصل میں صرف اللہ تعالیٰ کے بندے (عبد) ہیں جو انسان اللہ کا بندہ ہونے کا انکار کرے گا، وہ مشرک ہوگا، کافر ہوگا اور کبھی بھی اللہ پر ایمان لانے والوں کے برابر نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ پہلی جامع فرق کی دیوار ہے، جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر ایمان نہیں لائے وہ اندھے، بہرے، گونگے ہیں۔ کافر مسلم برابر نہیں ہو سکتے اس لیے کہ دار الاسلام میں ذمی کفار اور مشرکین پر شرعی سزائوں کا اطلاق نہیں ہوتا اگر وہ اپنے علاقے میں ایسے جرائم کریں۔ لہٰذا کافر کے زنا کرنے پر، شراب پینے پر حد نافذ نہیں ہوگی بلکہ حد صرف اور صرف مسلمان پر نافذ ہوگی۔