گواہ قرب قیامت کی دلیل ہے۔ عدالت سے قیامت تک جس سے مفر نہیں وہ گواہ ہے۔ عدالت مختصر نمونۂ قیامت ہے اور قیامت وسیع پیمانہ پر نمونۂ عدالت۔ فرق یہ ہے کہ عدالت کے گواہ انسان ہوتے ہیں اور قیامت کے گواہ فرشتے جو ہمارے اعمال لکھتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں۔
عدالت کو قیامت اور قیامت کو عدالت کی جو حیثیت حاصل ہے، وہ گواہ کے دم سے ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے آرٹ کی عورت سے ہے، گواہ عینی ہو یا سماعی، روایتی ہو یا پیشہ ور ہر حال میں گواہ ہے اس لیے ہر حال میں خطرناک۔ گواہ جھوٹا ہو یا سچا عدالت کے لیے اس کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا برطانوی اقتدار کے لیے ہندوستان کی دولت اور ہندوستانیوں کی عبادت!
غالب نے انسان کو محشر خیال قرار دیا ہے۔ ممکن ہے اس کے اسباب میں وہ گواہ بھی ہوں جن کے بیان پر غالب کو اپنے عہد شاعری کا کچھ زمانہ جیل خانے میں گزارنا پڑا تھا۔ گواہ کے تصّور کے ساتھ ہمارے ذہن سے کتنے حالات و حوادث گزر جاتے ہیں۔ گائوں، تھانہ، بے آبروئی، کچہری، جیل خانہ جن کے مجموعے کا نام باغیوں نے ہندوستان اور وفا شعاروں نے حکومت رکھا ہے۔
اصول یہ رکھا گیا ہے کہ ہر انسان پیدائشی جھوٹا اور ہر گواہ اصولاً سچا ہوتا ہے واقعہ کچھ ہو جب تک کوئی گواہ نہ ہو اس کا عدم یا وجود یکساں ہے۔ باعتبارِ واقعہ ممکن ہے کسی حادثے کا گواہ نہ ہو لیکن جس طرح فطرت خلا محض سے متنفر ہے اسی طور پر ضابطہ فوجداری سے متعلق جتنے واقعات ہوسکتے ہیں ان کو بھی تنہائی محض سے بَیر ہے۔ جس طرح ہر خلا کو پُر کرنے کے لیے ہوا یا اس کے متعلقات دوڑ پڑتے ہیں اسی طرح ہر موقعہ واردات پر پولیس اور اس کے گواہ کو پہنچ جانا لازمی ہے۔ اکثر سے ایسا بھی ہوا ہے کہ واردات سے پہلے گواہ پہنچ گئے جیسے کبھی کبھی پولیس واردات کے بعد جائے وقوع پر پہنچنا بہتر سمجھتی ہے۔ قومی تنزل کی مانند گواہ بھی ہر جگہ ملتا ہے۔ اگر قومی تنزل کے انکشاف کے لیے ایک لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے تو گواہ پیدا کرنے کے لیے کسی تھانے دار یا وکیل کا ہونا ضروری ہے۔
بعض مولوی وعظ کہنے سے پہلے ’’کلو واشربو‘‘ کی خوش آئند توقعات کو پیش نظر رکھتے ہیں اسی طرح ایک تھانے دار یا وکیل کسی واقعے یا حادثے کی تفتیش شروع کرنے سے پہلے گواہ کے ملنے یا نہ ملنے کے امکان پر غور کرتا ہے اور ان کے لیے گواہ پیدا کرلینا اکثر اتنا ہی آسان ہوتا ہے جتنا بعض کے لیے اولاد پیدا کرنا۔ اولاد کی پرورش یا نگہداشت کی مانند گواہ کا نباہ اور رکھ رکھائو بھی بڑا کٹھن کام ہے۔ کھانا پینا، لباس تعلیم و تربیت دونوں کے لیے لازمی ہے۔ حادثے کی اہمیت تمام تر گواہ پر منحصر ہے۔ ایک گواہ قتل عمد کو حفاظت خود اختیاری میں اسی آسانی سے تبدیل کراسکتا ہے جس طرح سے کوئی تنقید نگار بے حیائی کو آرٹ میں۔ ضرورت اس کی ہے کہ مدعی ذی حیثیت ہو اور حاکم عدالت خطابات کا متمنی اور نو روز یا ملک معظم کی سالگرہ کا منتظر۔
پہلی عالمی جنگ میں دول متحارب کا مقولہ تھا کہ آدمی اور سامان جنگ فراہم کردو ہم دشمن کی دھجیاں بکھیر دیں گے۔ جیسے یہ کوئی بہت بڑا راز تھا جس کا انکشاف کیا گیا تھا۔ ان کے پیش رو ایک بزرگ ارشمیدش نامی گزرے ہیں ان کا کہنا یہ تھا کہ فلکرم مل جائے میں زمین کا تختہ الٹ دوں۔ لیکن ان دونوں کے مقسوم علیہ اعظم پولیس والوں کا دعویٰ ہے کہ گواہ فراہم کردو تو ہندوستان میں نہ ہم کوکین فروش رہنے دیں گے نہ نان کوآپریٹر۔ ہر بلندی پر یونین جیک ہوگا اور ہر پستی پر سلام علیک!
کسی بات کے حسن و قبح کا مدار زیادہ تر اسی عہد کے ارباب اقتدار کی پسند یا ناپسند پر ہوتا ہے۔ بادشاہ کی مانند مقتدر شخص کسی غلطی کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ شاید اس لیے کہ اس پر جرم ثابت کرنے کے لیے گواہ نہیں مل سکتے! ایسا ممکن بھی ہوا تو پھر اس کو جرم کا مرتکب نہیں آرٹ اور کلچر کا مفسر یا محسن قرار دیں گے۔ پولیس کا کسی کا چالان کردینا ہی ثبوت جرم کے لیے کافی ہے، ہندوستانی عدالت پولیس اور اس کے گواہوں کو وہی اہمیت دیتی ہے جو ہندوستانی عوام ملانوں اور سیانوں کو دیتے ہیں۔ یعنی دونوں معصوم بھی ہیں برگزیدہ بھی۔
ہر یورپین پیدائشی فاتح ہے اور ہر ہندوستانی سرکاری گواہ یا اقراری ملزم۔ اس طرح کے گواہ اس مصنف کی مانند ہوتے ہیں جو نازیبا خیالات و جذبات کا اظہار کرتا ہے لیکن اس بنا پر قابل مواخذہ قرار نہیں دیا جاتا بلکہ لائق تحسین سمجھا جاتا ہے کہ اس نے حقیقت کی ترجمانی کی یا ہندوستان اور ہندوستانیوں کی توہین! سرکاری گواہ کے بارے میں تو آپ جانتے ہوں گے اکثر وہ ایسا مجرم ہوتا ہے جس کے بیان پر دوسرے سزا پاتے ہیں اور خود وہ رہائی پاتا ہے!
جس طرح ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے صرف ایک قوم بنائی گئی ہے اسی طرح گواہ بننے کی صلاحیت ایک طبقے میں خاص طور پر پائی جاتی ہے یعنی پٹواری جس کو گائوں کا غیر متشدد آمیز آمر (ڈکٹیٹر) کہنا بجا ہوگا۔ انگریز کیک کھاتا ہے اور غراتا ہے پٹواری گالی کھاتا ہے نذرانے لیتا ہے اور جو چاہتا ہے درج رجسٹر کرتا رہتا ہے۔ اس کو گائوں میں وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو وکیلوں کو عدالت یا کلرکوں کو دفتر میں ہوتی ہے یعنی یہ سب جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ یہ جو چاہیں وہ ان کو ملتا رہے۔
گواہ کی حیثیت سے پٹواری کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہ مثل صحیح ہے کہ بادشاہ سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی تو یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر مسلّم ہے کہ پٹواری کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ پٹواری اس راز سے خوب واقف ہے اس کے بعد قومی لیڈر ہی اب تک سمجھ سکا ہے کہ جب تک حلوا مانڈہ ملتا رہے توہین اور توقیر کے الفاظ بے معنی ہیں۔ جس طرح ہندوستانی کے لیے شادی اور فاقہ کشی ناگزیر ہے پٹواری کے لیے گواہ بننا مقدر ہے۔ اس لیے وہ اپنے میلے بستے کے بہی کھاتوں میں ایسے اندراجات کرتا رہتا ہے۔ ’’جو بوقت ضرورت کام آئیں‘‘۔ صوفیانہ کلام یا سیاسی دستاویزات کی مانند اس کے اندراجات ایسے ہوتے ہیں کہ جو چاہے جس طرح تعبیر کرے مواخذے سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے اور مواخذے میں آبھی سکتا ہے!
لالہ چرونجی لال گائوں کے پٹواری اور گنگا دین ایک غریب کسان تھا۔ ایک مقدمے میں گنگا دین کو لالہ جی کی گواہی کی ضرورت پیش آئی۔ گنگا دین کی ساری پونچی ایک گرا پڑا جھونپڑا تھا جس کی پردہ پوشی کاشی پھل اور کدو کی ہری ہری بیل، ان کے زاد اور سفید پھول اور صبح شام کی سنہری کرنیں تھیں۔ ایک طرف اُپلوں کا منڈپ تھا دوسری سمت کھاد اور کوڑے کرکٹ کا گڈھا۔ چھپر کے پیچھے کھیت تھا اور سامنے ساگ پات کی کچھ کیاریاں۔ زمیندار کسانوں پر اتنا ہی جری تھا جتنا لالہ چرونجی لالہ سے خائف۔ گنگا دین کے پاس کچھ مویشیاں بھی تھیں جس میں گائے، بیل، بھیڑ، بکری کے ساتھ اس کی بیوی بچے بھی شامل تھے۔
ہندوستانی کسانوں کو دیکھتے ہوئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس کے بال بچے مویشیاں ہیں یا مویشیاں اس کے بال بچے۔ جب سے مقدمہ شروع ہوا تھا ساری معاش و ملکیت لالہ جی کے لیے وقف تھی۔ دودھ دہی ترکاری ان کی رسوئی میں جاتی گنگا دین چلم بھرتا تھا اس کی بیوی للائن کی خدمت گار تھی۔ لڑکے لڑکیاں لالہ جی کے بچوں کو کھلاتے بہلاتے۔ یوں تو ہر پٹواری عدالت کا کیڑا ہوتا ہے جب تک وہ عدالت کی زیارت نہ کرے اس کی زندگی بے کیف و بے معنی رہتی ہے لیکن جب سے گنگوا کا مقدمہ شروع ہوا تھا لالہ جی نے عدالت کا ذکر و فکر کم کردیا تھا۔ گنگوا جب کبھی اس معاملے کو چھیڑتا تو کہتے بھائی دن برے ہیں۔ تھانہ عدالت سے دور ہی رہنا اچھا۔ پتا جی کا حال تو جانتے ہو سچی بات پر جیل خانہ کاٹنا پڑا کوئی سسرا کام نہ آیا۔ گنگا دین لالہ کے پائوں پکڑلیتا گڑ گڑانا شروع کرتا اور جلد جلد ان کے پائوں دبانے لگتا۔ تو لالہ جی پائوں ڈھیلے رکھتے لیکن زبان سے ہائیں ہائیں کہتے جس طور پر ڈاکٹر یا وکیل فیس کے لیے جیب ڈھیلی کرتا جاتا ہے لیکن زبان سے کہتا رہتا ہے ارے آپ یہ کیا کررہے ہیں یا اس کی کیا ضرورت تھی۔ لالہ کی نگاہیں گنگوا کی زمین چھپر اور مویشیوں پر تھیں اور گنگوا کی نظروں میں بیوی بچوں کی تباہی کا نقشہ پھر رہا تھا۔ بالآخر لالہ کی فتح ہوئی اور گنگوا دستاویزی غلام بنا مقدمے کی تاریخ آئی اور دونوں کچہری کو روانہ ہوئے۔
کچہری کا راستہ شہر سے گزرتا تھا۔ چلتے چلتے یکایک لالہ کے قدم سست پڑنے لگے۔ سامنے جوتے والے کی دکان تھی۔ لالہ جی کھڑے ہوگئے۔ فرمایا جوتا ٹوٹ گیا ہے چلنا پھرنا دوبھر ہے۔ مہنگائی سمے روز روز شہر آنا نہیں ہوسکتا۔ گنگوا سمجھ گیا۔ اس نے دام ادا کیے لالہ نے جوتے قبضے میں کیے۔ دونوں آگے بڑھے۔ کچھ دور چلے تھے کہ بزار کی دکان آگئی لالہ جی اس طرح رک گئے جیسے جوتے میں کنکری آگئی ہو جسے اطمینان سے نکالنا چاہتے ہوں۔ بولے بھائی گنگوا اس پھٹی پرانی پگڑی میں عدالت کے سامنے گئے تو حاکم جلاد ہے کھڑے کھڑے عدالت سے باہر نکلوادے گا۔ تمہارا کام کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ گنگوا گھبرایا کہنے لگا لالہ دیر ہورہی ہے۔ عدالت میں پکار ہونے لگی ہوگی۔ ہرج کیا ہے واپسی میں لے لینا۔
لالہ نے تیوری بدل کر کہا اچھی کہی، تمہاری کوڑیوں کی خاطر اپنی لاکھ روپے کی آبرو پر پانی پھر جانے دوں۔ جائو نہیں جاتے۔ ڈاکٹر گوگل پرشاد سے سرٹیفکیٹ لکھوا کر دخل کردیں گے کہ مسمی لالہ چرونجی لالہ کو ہیضہ ہوگیا اس لیے حاضر عدالت نہ ہوسکا! گنگوا ہیضے کے امکان پر ابھی اچھی طرح خوش نہیں ہوپایا تھا کہ لالہ جی بزاز کی دکان کے سامنے تختے پر اس طرح لیٹ گئے جیسے ہیضے میں مبتلا ہوجانے کا اعلان یا انتظار کررہے ہوں بالآخر پگڑی کا کپڑا خریدلیا گیا۔
کچھ اور آگے بڑھے تھے کہ حلوائی کی دکان سامنے آئی۔ لالہ کچھ اس طرح رکے جیسے کوئی ضروری بات دفعتاً یاد آگئی۔ فرمایا گنگا دین دیکھو کیسی چوک ہوئی جارہی تھی درگا جی پرساد لینا بھول گئے! کسان تو ہم پرست ہوتا ہے جیسے ہم آپ مطلب پرست ایک طرف اس کی آنکھوں میں پورے کنبے کی تباہی کا نقشہ پھر گیا دوسری طرف مقدمے کے انجام کا منظر سامنے آیا۔ کچھ نہیں بولا۔ لالہ جی کو سیر بھر جلیبی دلوادی۔ یہ مرحلہ بھی طے ہوا۔ دونوں کچھ دیر تک خاموش چلتے رہے۔ گنگوا اس فکر میں مبتلا کہ لالہ کی سخت گیری کا یہی حال رہا تو دوپہر کے چبینے کے لیے بھی پیسے نہ بچیں گے لالہ اس پھیر میں کہ گنگوا کو اور کس طرح نچوڑا جائے۔
معلوم نہیں گنگوا امید یا ناامیدی کی کس منزل میں تھا لالہ کے ذہن رسا نے جلد ہی کمان و کمین دونوں متعین کرلیے۔ بولے اس پُرویّا نے ناک میں دم کر رکھا ہے مہینے بھر سے گٹھیا کا زور ہے تمہارا بیچ نہ ہوتا تو پرمیشر جانے اس حال میں کبھی گھر دوار نہ چھوڑتا۔ یہ کہتے کہتے ایک سایہ دار درخت کے نیچے انگو چھا بچھا کر لیٹ رہے اور اس چلم کا انتظار کرنے لگے جو ایک خوانچہ والا پیے جارہا تھا۔ خوانچہ والے نے معزز مہمان کی توجہ کو اپنے لڈو اور مرمروں کی طرف مائل کرانا چاہا۔ بولا لالہ کچھ چل کھاوا ہوجائے۔ ایسے سمے کدھر آنکلے ذرا دم لے لو۔
گنگوا کایہ حال کہ بس چلتا تو لالہ جی خوانچہ والا اور خوانچہ سب کو پاس کے کنویں میں دھکیل کر خود بھی کود پڑتا لیکن بے بسی وہ بلا ہے جو ہر طرح کے غم غصے اور غرور کو ٹھنڈا کردیتی ہے۔ گنگوا نے کہا لالہ جی ہم پردیا کرو سورج دیوتا کہاں آئے۔ عدالت کب تک پہنچیں گے لالہ نے کراہ کربے رخی سے جواب دیا۔ بھیا اپنے آپ کی سیوا نہ کریں تو کون بال بچوں کو دیکھے گا۔ تم عدالت جائو ہمار تو پران نکلاجات ہے۔ ارے باپ رے!
خوانچہ والا بولا، لالہ دھیرج دھرو۔ یہ لو چلم پیو۔ کچھ کھا پی لو، عدالت میں بیان حلفی داخل کردینا۔ اس دوران میں ایک خالی یکہ گزرا۔ خوانچہ والا بولا ارے بھائی لالہ جی کا جی اچھا نہیں ہے یکے میں کیوں نہیں بٹھا لیتا۔ یکہ والا رک گیا۔ لالہ جی نے کروٹ بدلی۔ خوانچہ والے نے لالہ کو لڈو اور مرمرے کھانے اور ٹھنڈا پانی پینے کی دعوت دی یہ کہتے ہوئے کہ عدالت کا معاملہ ہے معلوم نہیں کہ کھانے پینے کی نوبت آئے۔ گنگوا نے چند آنے خوانچہ والے کو نذر کیے۔ لالہ جی یکے والے کی دعوت پہلے سے قبول کرچکے تھے۔ ایک کراہتا دوسرا کوستا دونوں یکے میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔
عدالت میں پکار ہوئی۔ لالہ نے پگڑی اور بستہ سنبھالا۔ چپراسی لالہ جی کا آشنا نکلا۔ گردن میں ہاتھ دے کر ایک دشنام زیر لبی کے ساتھ جھونکا دیا تو لالہ جی گواہوں کے کٹہرے میں داخل تھے۔ شام تک سوال و جواب ہوتے رہے۔ لالہ جی نے موافقت میں گواہی دی نہ مخالفت میں اس دوران میں عدالت، وکلا فریقین، چپراسی، حاضرین، سب نے باری باری لالہ جی کو اپنی اپنی پسند کی گالیاں دیں۔ طرح طرح سے ڈراتے دھمکاتے رہے۔ لیکن لالہ کے سامنے کسی کی پیش نہ گئی۔
کچہری برخاست ہوئی۔ لالہ باہر نکلے۔ یکہ والوںکا ہجوم تھا۔ کسی پر ایک سواری تھی۔ وہ دو ور کی فکر میں تھا۔ کسی پر دو تھیں وہ ایک کا متلاشی تھا۔ اس دھرپکڑ میں لالہ وارد ہوئے۔ سر پر نئی پگڑی پائوں میں نیا جوتا۔ ہاتھ میں دن بھر کا سمیٹا ہوا مال غنیمت۔ بغل میں غیرفانی لیک ناشدنی بستہ، چاروں طرف سے چابک دست لنگوٹی بند یکہ والوں نے گھیرلیا۔ ایک نے بستہ چھین کر اپنے یکہ پر رکھ لیا، دوسرے نے گٹھڑی اپنے قبضے میں کی، تیسرے نے خود لالہ کو پکڑ کر کھینچنا شروع کیا اور کچھ دور تک گھسیٹتا ہوا لے بھی گیا۔ اس رستاخیز میں پگڑی نے سر سے اور جوتے نے پائوں سے مفارقت کی جن کو دوسرے یکہ بانوں نے تبرکاً اپنے اپنے کوں پر رکھ لیا۔ یہ سب آنکھ جھپکاتے ہوگیا۔
اب جو دیکھتے ہیں تو میدان صاف تھا۔ سارے یکے والے چل دیئے تھے اور لالہ جی بیک بینی و دوگوش اس مسئلے پر غور کررہے تھے کہ دنیا کا آئندہ آشوب کون ہوگا۔ یکہ بان یا پٹواری!