بچو! حضرت حمزہ بن عبد المطلب (رض) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے میں چچا بھی تھے اور رضائی بھائی بھی۔ رضائی بھائی کا مطلب تو آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں ناں۔ وہ بچے جن کا رضائی بھائی یا بہن کا مطلب نہیں معلوم، ان کو بتاتا چلوں کہ ایسے بہن بھائی جو سگے تو نہ ہوں لیکن انھوں نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہو تو وہ بھی سگے بھائی بہنوں کی طرح ہی ہوتے ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضائی والدہ کا نام حلیمہ سعدیہ تھا اور حضرت شیما آپ کی رضائی بہن تھیں؛ بالکل اسی طرح ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ (رض) نے حضرت سیدہ ثوبیہ (رض) کا دودھ پیا تھا۔ اس لحاظ سے حضرت حمزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے اور رضائی بھائی بھی۔ حضرت حمزہ (رض) قبیلہ قریش کے معزز سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔ شکار کے شوقین تھے۔ بہت دولت اور جائیداد کے مالک تھے۔ کوئی بہت مثبت سوچ والے نہ تھے۔ لا ابالی سی شخصیت کے حامل تھے اور اپنی دنیا میں مگن رہنے والے انسان۔ آپ ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت رکھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو تمام اہلِ قریش آپ سے سخت خفا ہو گئے جس میں خاندان والے بھی شامل تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ (رض) نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں تھے اور نہ ہی موافقت میں گویا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں ذرہ برابر بھی رکاوٹ نہیں تھے۔
اہلِ قریش میں ابو جہل نامی انسان نما شیطان نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا تھا بلکہ کے اہلِ قریش کے ہر فتنہ پرور فرد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد تمیزی پر اکساتا اور خود بھی گستاخیاں کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد بھی کیا کرتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صبر سے کام لیتے اور زبان یا ہاتھ پاؤں سے کبھی کوئی جواب نہ دیتے۔
ایک مرتبہ ہوا یوں کہ حضرت حمزہ (رض) شکار پر گئے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا کے دامن میں تشریف فرما تھے کہ ابو جہل لعین وہاں آن پہنچا۔ پہلے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر مغلظات بکتا رہا، اور منہ میں آئے جو بھی نازیبا الفاظ تھے، ادا کرتا رہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کوئی جواب دیئے بغیر نہایت تحمل کے ساتھ سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر اور جہالت کی باتوں پر خاموشی نے اس کے تن بدن میں غصے کی آگ اور بھڑکا دی۔ اس نے تیش میں آکر ایک پتھر اٹھا کر آپ کے سر پر دے مارا جس کی ضرب سے آپ کے سر سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ خون کو بہتا دیکھ کر ابوجہل کسی حد تک خوف زدہ ہو گیا اور وہاں سے چل کر خانہ کعبہ، جو اس وقت بتوں کا گڑھ بنا ہوا تھا، جا کر اپنے شیطان ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنا آج کا کارنامہ بیان کرنے لگا کہ اس نے آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا برا سلوک کیا ہے۔ قریب ہی عبداللہ بن جدعان کا گھر تھا اور ان کی کنیز یہ ظالمانہ سلوک دیکھ رہی تھی کہ اتنے میں حضرت حمزہ، جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے، شکار سے واپس آ رہے تھے کہ عبداللہ بن جدعان کی کنیز ان کے قریب دوڑتی ہوئی آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی ساری تفصیل حضرت حمزہ کے گوش گزار کردی۔ حضرت حمزہ نہ صرف آپ کے چچا تھے بلکہ آپ کے رضائی بھائی اور لگ بھگ عمر میں آپ کے برابر کے بھی تھے، نیز آپ سے بے حد پیار بھی کرتے تھے اس لئے آپ سے ابوجہل کی یہ زیادتی برداشت نہ ہو سکی۔ وہ نہایت غصے کے عالم میں اپنے شکار کو گھوڑے سے پھینک کر، گھوڑا دوڑاتے ابوجہل کے ٹھکانے پر جا پہنچے۔ ابو جہل اپنے فتنہ پرور دوستوں کے درمیان بیٹھا اپنی بڑائیاں ہانک رہا تھا کہ آپ کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر مجمع کو ہٹاتے ٹھیک ابو جہل کے پاس جا پہنچے۔ اس سے پہلے کہ ابو جہل کچھ کہتا یا اس کے شیطان دوست کوئی آواز نکالتے، آپ نے ابو جہل کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور کمان کندھے سے اتار کر اس زور سے ابوجہل کے سر پر دے ماری کہ اس لعین کا سر پھٹ گیا۔ انھوں نے ابو جہل سے کہا میں خود بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں شامل ہو چکا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ یہ سن کر تو میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اگر آج کے بعد تو نے ان کی جانب بری آنکھ سے دیکھا تو میں تیرے جسم کی پوری کھال میں اونٹ کی لید (پوٹی) بھر دوںگا۔
اس واقعے کو تاریخِ اسلام کا منظوم ترجمہ کرنے والے منفرد و عظیم شاعر اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق، جناب حفیظ جالندھری نے یوں بیان فرمایا ہے کہ
کماں تھی ہاتھ میں وہ سر پہ ناہنجار کے ماری
گرا بو جہل سر سے ہو گیا ناپاک خوں جاری
کہا گر آج سے میرے بھتیجے کی طرف دیکھا
ترے ناپاک چمڑے میں شتر کی لید بھر دونگا
یہ کہہ کر چل دیئے مشرک بھلا کیا ٹوک سکتے تھے
کہیں روباہ بھی اس شیرِ نر کو روک سکتے تھے
حضرت حمزہ ان پہلوانوں اور شمشیر زنوں میں سے ایک تھے جن کے سامنے اگر درجنوں شمشیر زن بھی ہوتے تھے تو وہ لمحے بھر میں سب کی گردنیں تنوں سے جدا کر کے رکھ دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جتنے شیاطین وہاں موجود تھے سب کو سانپ سونکھ گیا تھا اور کسی میں بھی اتنی جرات نہیں ہوئی کہ وہ ابو جہل کا ساتھ دیتے۔
اپنے بھتیجے کا بدلہ لینے کے بعد حضرت حمزہ (رض) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ میں نے آج آپ کا بدلہ لے لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے اور ایک توقف کے بعد کہا کہ چچا مجھے حقیقی خوشی تب ہوگی جب آپ اسلام قبول کر لیں گے۔ یہ سن کر آپ کا دل اندر سے ایسا موم ہوا کہ کچھ ہی دنوں بعد وہ کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔ بقول حفیظ جالندھری
یہاں سے جا کے حمزہ جلد تر ایمان لے آئے
بھتیجے کے وسیلے سے چچا نے مر تبے پائے
بچو! حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دیکھا اور قرآن پاک کی تلاوت سنی تو دل میں اسلام کی حقانیت کا نور بھر گیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے تاثرات اس طرح بیان کئے:”میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں کہ اُس نے دین ِ حنیف اسلام کو قبول کرنے کے لئے میرے دل کو ہدایت دی۔ وہ دین جو رب کریم کی طرف سے آیا ہے۔ وہ رب کریم عزت والا ہے اور اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور اُن کے ساتھ لطف و احسان کرنے والا ہے۔ جب اس کے (اللہ تعالیٰ) کے پیغاموں (قرآن پاک کی آیات) کی ہم پر تلاوت کی جاتی ہے تو ہر عقل مند اور زیرک انسان کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ یہ ایسے پیغامات ہیں جو”احمد مجتبیٰ محمد مصطفی“صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ ایسی آیات کے ساتھ جن کے حروف روشن ہیں۔ ”احمد مجتبیٰ محمد مصطفی“صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہیں جن کی ہم اطاعت کرتے ہیں اور کوئی کمزور بات اور عقل و فہم سے گری ہوئی بات سے وہ پاک ہیں۔ اللہ رب العزت کی قسم! ہم انھیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دشمن کے حوالے ہرگز نہیں کریں گے اور ہم نے ابھی تک ان کے درمیان تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہم اُن کے مقتولوں کو ہموار زمین پر پھینک دیں گے۔ ان پر ایسے پرندے آئیں گے جو چکر لگانے والے لشکر کی مانند ہوں گے۔ (آخری پیرا گراف انٹر نیٹ سے اخذ کیا گیا ہے)۔ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت سب بچوں بڑوں، عورتوں مردوں کو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی والہانہ محبت کرنے اور اللہ کے احکامات پر چلنے کی تو فیق عطا درمائے (آمین)۔