ارم: ’’ثمینہ تم بھی بڑی عجیب ہو تمہاری ساس تمہیں پسند نہیں کرتی، سیدھے منہ بات نہیں کرتی اور تم… میں نے سہیل بھائی اور تمہاری بات سنی… تم روز اسے (شوہر کو) اس کی ماں کے گھر بھیجتی ہو حالانکہ وہ اس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتی اور… اور انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟‘‘
ثمینہ (تحمل سے) ’’ماں تو ماں ہوتی ہے دیکھو نا (اس نے اپنے دوماہ کے بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا) مجھے اگر میرے بیٹے سے کوئی دو گھنٹے بھی دور کر دے تو میری تو جان نکل جائے، یقیناً وہ بھی اپنے بیٹے سے اتنی ہی محبت کرتی ہو گی اسے یاد کرتی ہو گی، ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے اور … دوسری بات یہ ہے کہ ماں باپ کا بڑا درجہ ہے ان پر تو ایک نظر محبت کی ڈالنے سے بھی حج کا ثواب ملتا ہے میں اپنے شوہر کو اس اجر سے محروم نہیں کرنا چاہتی اسی لیے زبردستی روزاسے اس کی ماں کے پاس بھیجتی ہوں پھر یقیناً اس اجر کا بدلہ اسے اس دنیا میں بھی ملے گا اس کی اولاد اس کی فرمانبرداری کرے گی۔‘‘
ارم نے اپنی دیورانی کو بڑے حیرت سے دیکھا کہ یہ کس مٹی کی بنی ہوئی ہے اتنی زیادتی کے بعد بھی…
…٭…
نورین کا رویہ شادی کے پہلے دن سے ہی اپنی ساس سے اکھڑا اکھڑا سا تھا جسے گھر کے ہر فرد نے محسوس کیا لیکن اس کی ساس بڑے درگزر اور افہام و تفہیم سے کام لینے والی خاتون تھی لہٰذا اس نے اس بات کو بھی در گزر کیا کہ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا…
نورین کی والدہ: ’’نورین بیٹا تمہارا رویہ تمہاری ساس کے ساتھ صحیح نہیں ہے اس طرح تو وہ بھی تمہارے ساتھ… میرا مطلب ہے ظاہری طور پر ہی اس کا ادب احترام کرو اس کی دوسری بہو کو دیکھا ہے تم نے وہ کس طرح؟‘‘
نورین: ’’شروع ہو گئیں آپ کی نصیحتیں … آپ کی اس محبت اور عمدہ رویے سے آپ کے سسرال والوں نے آپ کا کیا حال کر دیا؟ اور …اور اب وہی پٹی آپ مجھےپڑھا رہیں ہیں… ویسے میری ساس تو پڑھی لکھی بھی ہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہیں میں اگر اس کے سامنے جھکوں گی تو وہ ’’شیر بن کر‘‘ مجھ پر دھاڑیں گی جیسا آپ کی ساس نے آپ کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
نورین کی امی: ’’بیٹا ہر ایک آپ کی دادی کی طرح نہیں ہوتا، میں تو جتنی بار تمہاری ساس سے ملی ہوں وہ مجھے ’’بھلی خاتون‘‘ لگی ہیں اور پھر وہ اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتی ہیں اور ریحان بھی اس کا بڑا ادب احترام کرتا ہے اس کی آنکھوں سے ہی اپنی ماں کے لیے پیار ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔‘‘
نورین (غصہ سے) یہی چیز تو مجھے پسند نہیں، ہر وقت اپنی امی کی تعریف کرتا رہتا ہے اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ پورا دن اس کی ہی خدمت میں گزاردے، ہوں!
…٭…
شادی کو سات آٹھ سال گزر گئے لیکن اس کا رویہ اپنے سسرال والوں سے اسی طرح رہا زیادہ وقت وہ اپنے کمرے میں گزارتی خصوصاً ساس کے ساتھ وہ برائے نام ہی گفتگو کرتی۔ وہ سمجھتی کہ اس کا شوہر اپنے ماں کے قبضے میں ہے اس نے شوہر کو بھی ماں سے بدظن کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوتی۔
دوسری طرف زینب (ساس) نے بہت کوشش کی کہ وہ بھی دوسری بہو کی طرح سے اس سے بیٹھ کر باتیں کرے اسے اپنا سمجھے لیکن سب بے سود تھا اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی موڈ ہوتا تو دو گھڑی اجنبیوں کی طرح بیٹھ کر بات کرتی ورنہ اپنی دنیا میں مصروف رہتی، زینب نے شروع میں تو یہ خیال کیا شاید نورین کم گو ہے لیکن نہیں وہ تو اپنے میکے والوں سے گھنٹوں باتیں کرتی زور سے ہنستی مسکراتی لیکن سسرال والوں سے اس کا رویہ بالکل مختلف ہوتا…
نائلہ(پڑوس): ’’زینب بہن ابھی تو دس بارہ سال ہو گئے تمہاری چھوٹی بہو کو ابھی تک اولاد نہیں ہوئی کچھ علاج وغیرہ کروایا۔‘‘
زینب: ’’نائلہ بہن اولاد تو اللہ کی دین ہے ضرور میرا مولا میری بہو کی جھولی بھر دے گا اسے اولاد والا کرے گا۔‘‘
یہ حقیقت تھی کہ زینب ہر وقت اپنے بیٹے اور بہو کے لیے ’’نیک اولاد‘‘ کےلیے دعائیں مانگتی اب تو کچھ آس پاس کے لوگوں نے زینب کو اپنے بیٹے کی دوسری شادی کے لیے مشورے بھی دینے شروع کر دیے تھے لیکن زینب نے ان مشوروں پر کان نہیں دھرے بلکہ کہتی کہ مجھے میرے رب پر کامل بھروسہ ہے کہ وہ ہمیں مایوس نہیں کرے گااور بیشک میرا رب اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا اس کی مصلحتیں ہیں وہ جب چاہے ان کی دعائوں کو قبول فرمائے۔
…٭…
اللہ رب العزت نے نورین کو ایک خوبصورت پیارے بیٹے سے نوازا تو اس گھرانے کے ہر فرد نے شکرانے کے نفل ادا کیے خاص طور پر زینب کی زبان پر تو اپنے رب کی تسبیح تھی کہ بیشک وہی سب نوازنے والا ہے۔ جس نے ہم گنہگاروں کو بھی نوازا ہے۔ زینب کی آنکھوں میں شکرانے کے آنسو دیکھ کر نورین منہ بناتی ہونا!
بناوٹی عورت ہے کوئی موقع نہیں جانے دیتی اپنی اداکاری دکھانے سے… اس مبارک موقع پر سب ہی خوش تھے ریحان تو بار بار ماں کے ہاتھ چھومتا مما یہ سب آپ کی دعائوں کی بدولت اللہ نے عطا کیا ہے۔
…٭…
آج منے کو معمولی بخار تھا جس کی وجہ سے وہ بے چین تھا ساری رات بھی نہ سو سکا دوائی دینے کے بعد صبح کہیں جا کر منے کو نیند آئی تو نورین بھی سو گئی لیکن اس کا دھیان بار بار منے کی طرف جاتا وہ بار بار اٹھ کر اسے چیک کرتی… بڑی مشکل سے فجر کے بعد اسے نیند آئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی اس کا بچہ اس سے چھین رہا ہے وہ ہڑبڑا کر اٹھی بیٹے کو دیکھا وہ بالکل ٹھیک تھا اس نے اسے گود میں اٹھایا خوب پیار کیا بے اختیار اس کے لبوں پر جنبش ہوئی یا اللہ تو ہر ماں کو اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھنا نصیب کر کسی بھی ماں کو اس کی اولاد سے دور نہ کرنا… بے اختیار اسے اپنی ساس کا خیال آگیا… اوہ… میں نے ہمیشہ اپنی ساس کو دکھ دیے ہیں وہ بھی تو ایک ماں ہے اس کے لیے بھی میں نے ورغلانے کی کوشش کی… اور وہ… وہ عورت کتنی بردبار اور ہمت والی ہے۔ آج پہلی مرتبہ نورین کو اپنی غلطی کا احساس ہواکہ اس نے اپنی ساس سے اس کا بیٹا دور کرنے کی کتنی کوشش کی ہے اگر کوئی میرا بیٹا مجھ سے نہیں… نہیں…
صبح نورین اٹھی تو سیدھے ساس کے کمرے میں گئی اسے سلام کیا تو ساس نے اسے بڑی حیرانی سے دیکھا لیکن اس کا دل بڑا سرور تھا کہ اس کی بہو نے اسے سلام کیا ہے۔
…٭…
مذکورہ بالا دونوں واقعات مجھے معلوم ہوئے تو میں نے آپ سے شیئر کیے واقعی میں نو مہینے اپنے بچے کو کوکھ میں رکھ کر تکلیفیں سہنا پھر ایک لمبا سلسلہ اس کی پیدائش پرورش تعلیم و تربیت کرنا اس دوران سب سے زیادہ زیادہ مشقت و تکلیف اور پریشانیوں سے گزرنا صرف ماں کے حصے میں ہی آتا ہے جب وہ ان لمحوں سے گزرتی ہے تو اسے ’’ہرماں‘‘ کا احساس ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ اللہ رب العزت نے اسے جس رتبے اور اعزاز سے نوازا ہے وہاں دوسرے کی ماں کا احساس ہونا ہی ’’ممتا ‘‘ کی نشانی ہے میرے خیال میں کوئی بے حس ہو گا جو دوسرے کی ماں کے احساسات و جذبات سے ناواقف ہو ان سطور کو لکھتے ہوئے مجھے اپنی بات یاد آگئی بڑے بیٹے کی پیدائش سے چند ماہ بعد کی بات ہے بڑی بھابھی اپنے بیٹے (میرے بھتیجے کو )کو کسی بات پر تھپڑ مار رہی تھی میں نے ان کا ہاتھ روک کر کہا ’’نہیں آپ اسے نہیں ماریں یہ تھپڑ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ آپ میری کوکھ پر مار رہی ہیں… بھابھی ہنس کر کہنے لگی بیشک اب لگ رہا ہے کہ ’’تم بھی ایک ماں‘‘ ہو۔ یعنی ماں بننے کے بعد عورت دوسرے کی ماں اور دوسرے کی اولاد کا درد بھی اپنے دل پر محسوس کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ میری بات سے متفق نہ ہوں لیکن عموماً حساس لوگوں (عورتوں کےلیے) ’’ماں‘‘ بننا ایک بڑا ہی خوبصورت و حساس موقع ہوتا ہے اسی لیے ایسی خواتین میری بات کی ضرور تائید کریں گی۔ اللہ رب العزت ہر ماں کو اپنی اولاد کی تمام خوشیاں دیکھنا نصیب فرمائے (آمین ثم آمین یارب العالمین)