سن اے راہی !

176

گھوڑے کی پشت پر ہاتھ پھیر کر اس نے پھرتی سے سوار ہوکر ایڑ لگا دی۔ سواری سدھائی ہوئی ہو تب سوار کا اعتماد نظر آتا ہے۔ یہی اعتماد اس کی سرخوشی میں اضافہ کررہا تھا۔ اپنی سرمستی میں وہ اردگرد کے ماحول سے بے پروا نہ ہوا تھا۔ تیز سفر میں منظر بدل رہے تھے، ہوائیں بڑھ بڑھ کر اس کے ماتھے کا بوسہ لے رہی تھیں۔
رات کے اندھیرے میں بھی گھوڑے کی سیاہ جلد اپنی چمک کی بنا پر واضح ہورہی تھی۔ منزل اگرچہ دور تھی مگر سفر دل پسند تھا۔ سرپٹ دوڑتا گھوڑا یکایک زمین کو ایڑ لگا کر رک گیا۔ سوار نے دیکھا آگے کھائی ہے۔
احمد کی آنکھ تیز تیز دھڑکتے دل کے ساتھ کھل گئی۔ اس کے خواب نے پھر پورا دن ہی اسے اپنے اثر میں رکھا۔ وہ سوچ رہا تھا کوئی خواہش کتنی خاموشی سے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتی ہے جیسے موٹر سائیکل لینے کی تمنا۔
’’میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے ، مگر ضدی بچے کی طرح پھر بھی میرے خواب میں آن وارد ہوئی۔‘‘
زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ احمد اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔
وہ ایک موٹر مکینک تھا۔ کام سیکھے سال بھر ہی ہوا تھا۔ دکان بھی اپنی نہ تھی، استاد فضلو کے گیراج میں کام کرکے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے روزی کماتا۔
اصل میں احمد شہر پڑھنے آیا تھا مگر حالیہ بارش کے زور نے سب قصبوں دیہات کی طرح اس کے علاقے میں بھی تباہی مچا دی۔ ٹوٹی سڑکوں پر پانی کے گہرے گڑھے، کمزور ہوتے پل کے کنارے اس کے ابا کی دکان ختم ہوگئی تھی اور اب بچا کھچا سامان ابا سر پر دھری ٹوکری میں رکھ کر بیچنے نکلتے۔
احمد ایک حساس اور ذمہ دار لڑکا تھا۔ اس کے ابا نے اپنی سی کوشش کرکے قصبے کے اسکول میں پڑھایا۔ احمد بھی پتا نہیں کیسے استاد کی چلم بھرتے بھرتے، جانوروں کو چارہ ڈالتے دس جماعتیں پڑھ گیا۔ ابا نے اس کی صلاحیت کو بھانپتے ہوئے مزید پڑھنے کا موقع دیا۔
’’میرا مدو بابو بنے گا۔‘‘ ماں بھی ہر نتیجے پر خوش ہوجاتی۔
پڑھائی کے لیے شہر بھیجنے کا مشورہ امام صاحب نے دیا کہ ان کے جاننے والے کام کے سلسلے میں شہر جا بسے تھے۔ احمد کے ابا نے جتن کرکے اس کی ماں کو منایا، وہ کہتا ’’نیک بخت! بڑی جگہ پر جا کر ہی تو ہمارا مدو بڑا آدمی بنے گا۔‘‘
احمد شہر تو آگیا پَر اجنبی ماحول میں سہما دیکھ کر فضل دین نے ایک شام اپنی ملک شاپ پر آئے مدثر صاحب سے درخواست کی کہ احمد کو اپنی سرپرستی میں لے لیں۔
یہ کالج کے ریٹائرڈ استاد تھے، پَر استاد بھی کہاں ریٹائرڈ ہوتے ہیں! وہ اب بھی اپنے علاقے کے بچوں کو گھر پر ہی پڑھاتے تھے۔ احمد کو انہوں نے اپنی لائبریری میں رہائش دے دی۔ احمد کو تو مانو ڈھیروں دوست مل گئے۔ ساری کتابیں احمد کی ساتھی بن گئیں جنہوں نے اس کے ذہن میں شمعیں جلا دیں، آنکھوں میں سپنے سجا دیے۔ اس کا کالج میں داخلہ ہوا۔ ابا پابندی سے خرچے کی رقم بھیجتے۔ ایسے میں مدثر صاجب نے جنہیں اب احمد بہت عزت سے سر جی کہتا‘ گاڑیوں کی ورک شاپ پر کام سیکھنے کا مشورہ دیا کہ ’’علم وہنر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جیسے زندگی اور محنت کا تعلق ہے۔‘‘
سر جی اکثر احمد سے کہتے ’’زندگی کو محنت ہی سے سنوارا جاسکتا ہے۔‘‘
احمد دن میں پڑھائی اور شام میں استاد فضلو کے گیراج پر کام کرتا۔ یونی ورسٹی سے اس کے گھر کے طویل راستے کو تین بسیں بدل کر طے کیا جاتا۔ ایسے میں اپنی سواری موٹر سائیکل کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوجاتی۔ اپنا گھر، اپنی سواری… ان جائز خواہشات کو بھی وہ اپنی انتھک محنت کے باوجود حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا، البتہ اس کی محنت اُس وقت رنگ لائی جب اس نے ماسٹر ڈگری پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ موٹر مکینک کا کام بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
اس دن بھی سر جی نے احمد کو ایک گاڑی کے نیچے انجن ٹھیک کرتے ہوئے پایا اور وہیں یہ خوش خبری سنا دی کہ حکومت نے حال ہی میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والوں کے لیے بہترین جاب آفر کی ہیں۔
مدثر صاحب واقعی بہت خوش تھے۔ وہیں گاڑی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور انجن ٹھیک کرتے احمد سے بولے ’’حکومت تو سرپرست ہوتی ہے، دیکھو ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی قدر کی ہے۔ اب یہ محنتی بچے بھی نوکری کے ذریعے قوم کی خدمت کریں گے۔‘‘
’’کامیاب قومیں ایسے ہی بنتی ہیں۔‘‘ سر جی کی باتیں سن کر احمد بھی سوچ رہا تھا کہ واقعی موقع ملا تو پوری ایمان داری سے اپنے فرائض انجام دوں گا۔
پڑھائی اور فضلو استاد کے گیراج میں محنت اور ایمان داری اس کے خون میں رچ بس گئی تھیں۔
اگلے ہی دن رجسٹریشن کروا کر وہ اپنی تیاری کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کا جوتا ٹوٹ رہا تھا اور دونوں شرٹس بے رنگ ہورہی تھیں۔
’’بابو جی! صاحب لوگوں سے ملنے جا رہے ہو، یہ پہن لینا۔‘‘ راجو شام کو ہی ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ لانڈری سے استری کروا لایا تھا اور سر جی نے اپنے عید کے جوتے پیش کردیے، پڑوسی خالہ نے پھٹے موزے مرمت کردیے، اور یوں سب کی دعائیں لے کر احمد اپنی تمام تعلیمی اسناد لے کر انٹرویو کے لیے پہنچ گیا۔
وہاں اس کے ہم عمروں کی کثیر تعداد آنکھوں میں خواب سجائے موجود تھی۔ خاصے انتظار کے بعد انٹرویو کے لیے کمرے میں بلایا گیا، وہاں موجود افراد نے اس کے کاغذات دیکھنے میں کوئی دل چسپی نہ دکھائی ۔ ایک صاحب نے کچھ سوالات کرکے انتظار کا دلاسہ دے کر رخصت کردیا۔
آج دو مہینے ہوگئے تھے مگر احمد کا انتظار ختم نہ ہوا، وہ کچھ دن بعد آفس خیر خبر لینے چلا جاتا جہاں سے کوئی شافی جواب نہ ملتا۔
آج اس کی مایوس صورت پر ترس کھا کر ایک افسر نے اشارے سے پاس بلا لیا، اور کہنے لگے ’’ بیٹے! شکل سے تو عقل مند لگتے ہو‘ کوئی اور کام ڈھونڈو۔ بار بار آکر وقت کیوں برباد کررہے ہو! پانچ سو درخواستیں تھیں اور بھرتی صرف تین کی کرنی تھی۔‘‘
’’صاحب میرا انٹرویو ہوا ہے، میں نے ماسٹرز پہلی پوزیشن کے ساتھ کیا ہے۔‘‘ احمد کے لہجے میں آنسوؤں کی نمی گھل گئی۔
افسر صاحب نے پانی کا گلاس احمد کو دیتے ہوئے اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔ وہ اندر کے معاملات کی تفصیل بتاکر اس کے ذہن کو باغی نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ احمد بے دم قدموں سے باہر آگیا۔
باہر اندھیرا پھیل رہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی۔ اس اندھیرے میں اسے اپنا راستہ دیکھنا تھا۔
اس نے ارادہ باندھ لیا تھا کہ وہ اپنے مستعد گھوڑے کو کسی گہری کھائی اور سنگلاخ چٹان کے سامنے بے بس کھڑا نہیں چھوڑے گا۔

حصہ