عالمی دن 21 نوم بر: ٹیلی ویژن کی ایجاد

1164

کیا کھویا کیا پایا

دو لفظوں سے بننے والا ٹیلی ویژن ہماری زندگی کا ایک اہم جز چاہتے نہ چاہتے بن چکا ہے اور اس ایجاد نے دنیا کا تصور ہی تبدیل کر دیا جس کے بعد کی دنیا کافی مختلف ہے اور یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے اور بات ٹی وی سے آگے پہنچ چکی ہے ۔
وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں ٹیلی ویژن کی اہمیت کا عالمی دن21نومبر کو منایا جاتا ہے،اس دن کو منانے کا مقصدلوگوں کی تفریح،تعلیم و تربیت اور معلومات کے حصول کے لئے ٹیلی ویژن کی اہمیت کو اجاگر کرنا رکھا گیا،جس میں لوگوں کو ٹیلی ویژن کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس دن منانے کا آغاز اس وقت سے شروع ہوا کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنرل اسمبلی نے دسمبر1996ءمیں ایک قرارداد کی منظوری دی تھی جس کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 21نومبر کو ٹیلی ویژن کا عالمی دن منایا جائے گا۔
ٹی وی کا موجد امریکی سائنسدان جان لوگی بیرڈ ہے۔
بیرڈ نے 1927 میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا ۔
لیکن اس کو پہلی بار 1938 میں جان لوگی بیرڈ نے مکمل طور پر الیکٹرانک طریقے سے اپنانے کے بعد مارکیٹ میں متعارف کرایا تھا۔
30 دسمبر 1929 ءکو بی بی سی لندن نے جان لوگی کے بنائے ہوئے ٹی وی پر پہلا پروگرام پیش کیا۔
یہ دنیا کی ایک حیرت انگیز ایجاد ہے جو کہ دورحاضر میں رابطے،معلومات اور خبروں تک رسائی کا ایک طاقت ور ترین ذریعہ ہی نہیں بلکہ سوچ اور فکر کو تبدیل کرنے والا میڈیم ہے۔
اب گھر کے ہر فرد کو اس کی پسند کا پروگرام دیتا ہے ہمارے گھروں میں خواتین کا ڈرامہ دیکھنا ، بچوں کا کارٹون دیکھنا اور تو کسی کا خبروں اور ٹاک شو دیکھنا۔ابتدا میں محلے کے کسی ایک گھر میں ٹی وی ہوتا تھا اور سب دیکھتے تھے پھر گھر میں ہوتا تھا اور ساری فیملی ملکر دیکھتی تھی۔ لیکن اب ہر کمرے میں ٹی وی موجود ہے اور یہاں تک بعض گھروں کے واش روم میں بھی ٹی وی ہوتا ہے ہم آج موبائل کو کہتے ہیں اس نے سوشل لائف ختم کردی ہے لیکن ٹی وی نے اس سے قبل ہی خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے دور کردیا تھا اور اب تو یہ اسمارٹ ٹی وی ہوگیا ہے۔
آج کی دنیا ٹیلی ویژن کی ایجاد سے پہلے کی دنیا سے بہت مختلف ہے یہ وہ انسانی ایجاد ہے جس نے انسان کو جہاں بہت کچھ متعارف کرایا اور دیا وہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ انسان نے بہت کچھ کھویا بھی ہے۔
اس ضمن میں ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر اسامہ شفیق جو آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں اور ٹیلی ویژن ماس میڈیا ، سوشل میڈیا ان کا خصوصی سبجیکٹ ہے کا کہنا ہے کہ :
”ٹیلی ویژن کی حیرت انگیز ایجاد نے دنیا کو ہی تبدیل کردیا یہ کہنا کہ ٹیلی ویژن کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصان ایک بہت مشکل کام ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ ٹیلی ویژن نے دنیا میں معلومات کی رسائی میں بہت زیادہ اضافہ کیا اور اس کے ذریعے معلومات، علم اور پروپیگنڈا کا ایک نیا جہاں بھی آباد کیا ٹیلی ویژن سے قبل اخبارات و جرائد رائے سازی کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا ذریعہ تھے لیکن ٹیلی ویژن نے اس کو تبدیل کرکے خود رائے عامہ کو بنانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ ٹیلی وژن نہ صرف سیاست بلکہ بین الاقوامی معاملات و تعلقات پر بھی ایک اتھارٹی بن گیا۔ دنیا بھر میں اب عوام کی رائے سازی اب ٹی وی کے ذریعے کی جارہی ہے سی این این اور پہلی جنگ خلیج اور اس کے بعد عراق پر امریکی حملہ و امریکی ٹیلی ویژن کا کردار اور اس کے ساتھ ہی ستمبر گیارہ کے حملے اور ان کی براہ راست نشریات میں کیا جانے والا پروپیگنڈا عوام کے ذہن میں لائیو کمنڑی کی طرح راسخ ہوگیا کہ گویا یہی سب سچ ہے اور حملہ و حملہ اور ٹی وی اسکرین کے مطابق ہی ہیں۔ لہٰذا اب نئے دشمن کا تعین اور نئی دنیا کا آغاز کرنے میں ٹی وی کا کردار ناقابل فراموش ہے اور اس کی قیمت آج تک دنیا میں بے امنی کی صورت میں ادا کی جارہی ہے۔ ٹی وی نے جہاں اطلاعات کی رسائی سرعت بخشی وہیں اس نے علم اور معلومات کو بھی خلط ملط کردی اور انسان علم ومعلومات کے درمیان تفریق کھو بیٹھا۔ ٹی وی سے قبل کا دور کتاب کا دور تھا کہ جہاں رائے سازی ٹھوس عقلی و علمی دلائل پر کی جاتی تھی لیکن اب ٹی وی کا دور ہے کہ جہاں رائے سازی محض سطحی معلومات اور جذباتیات پر کی جاتی ہے۔ جہاں ٹی وی نے دنیا کو ایک اسکرین پر لاکر پوری دنیا کو آپ کے کمرے تک پہنچا دیا وہیں ٹی وی نے معلومات کو خاص نقطہ نظر دے کر معلومات اور علم میں تنوع کو بھی ختم کیا ہے“۔
اسی پس منظر میں جب میں نے ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے رکھنے والے ڈاکٹر نعمان انصاری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ :
”جس وقت جان لوگی کو ریڈیو سنتے ہوئے یہ خیال آیا تھا کہ جب ہوا کی لہروں سے آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتی ہے تو ان لہروں پر تصویر کو بھی ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہوگا۔ جان لوئی جب یہ تجربات کررہا تھا تو اس نے خود شاید کبھی یہ نہ سوچا ہوگا کہ ٹیلی ویژن ہماری زندگیوں میں ایسے گھس جائے گا کہ پھر اسے زندگی سے ختم کرنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔ میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے آنکھ کھلتے ہی رنگین ٹی وی کا نظارہ کیا بلکہ گھر میں ٹی وی دیکھنا ایک اجتماعی” فیملی ایونٹ“ جیسا ہوا کرتا تھا باوجود اس کہ کے ٹی وی کئی نسلوں کا عشق ہوتا تھا پھر بھی خبریں،علم اور تفریح مہیا کرنے میں ٹی وی کا کردار اخبارات، رسالوں، کتابوں اور فلموں سے کم ہی رہا کیونکہ یہ ایک ایسا زریعہ تھا جس کو پلٹ کر دوبارہ نہیں دیکھا جاسکتا تھا ( اب تو انٹر نیٹ نے یہ صورتحال بھی بہت حد تک بدل دی ہے)ماضی میں پوری دنیا میں اور پاکستان میں بھی ٹی وی سے بہت سے معیاری پروگرامات دکھائے جاتے تھے اور عوام کی تعلیم اور تربیت کا فریضہ بھی کسی حد تک پورا کیا جاتا تھا لیکن پھر سیٹلائیٹ ٹی وی کا دور آیا جس کہ کونٹینٹ میں صرف ” جلد بازی اور ہیجان” کو فروغ دیا گیا اور معاشرے افراتفری اور انتشار کا شکار ہوا۔اب ٹی وی چینلز معاشرے کی تربیتی ضروریات اور مسائل سے ہٹ کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر رواں دواں ہیں اور وہ ٹی وی کی نشریات جو کبھی پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھا کرتا تھا رفتہ رفتہ ٹی وی سے اکتائے لگا اور یہ سوال سماجی ماہرین کہ درمیان بحث کا سبب بنا ہوا ہے کہ
Is TV is a dying Medium?
لیکن یہ بات طے ہے کہ جیسے ماضی میں ٹی وی نے ریڈیو کہ ستاروں کا قتل کیا تھا شاید اب ٹی وی کہ ستاروں کہ سر کٹنے کی باری ہے!
ڈاکٹر موسیٰ خان رفاہ یونیورسٹی میں میڈیا سائیٹس کے استاد اور تحقیق کے آدمی ہیں اور آپ کا شمار ان اساتذہ میں ہوتا ہے جو کچھ پڑھتے پڑھاتے ہیں ، ان کا ٹیلی ویژن کی ایجاد کے پس منظر میں کہنا ہے کہ :
” تقریباً پچاس سال قبل کینیڈا کے کمیونیکیشن تھیوریسٹ مارشل میک لوہان نے اپنے کتاب کا ایک باب اس عنوان سے لکھا تھا کہ”میڈیم اِز دَ مِسج“ جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغام سے ذیادہ اہم پیغام کو سامعین تک پہنچانے والا ”میڈیم“ ہوتا ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پرنٹنگ مواد کے بعد ریڈیو اور پھر سینما اور ٹی۔وی کے ذریعے پیغامات نے فلموں، ڈراموں اور بے شمار دوسرے مواد کی صورت میں معاشرے پر کتنا گہرا اثر چھوڑا۔
سوال یہ ہے کہ ہرنئے میڈیم کے ایجاد کے ساتھ پچھلے ادوار کے میڈیمز کو اپنی بقا برقرار رکھنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے، اسی طرح ٹیلی ویژن بھی انٹرنیٹ اور سوشل نیٹورکس کے ایجاد اور ہرجگہ دستیابی کے بعد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ سادہ سے رنگین اور رنگین سے اسمارٹ ٹی۔وی بننے کے باوجود سامعین کی اکثریت کا انٹرنیٹ سے براہ راست مواد دیکھنے کے بعد بعض ماہرین کا خیال یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے لئے بنائے گئے کنٹنٹ کو نہ صرف ٹی۔وی سیٹ تک محدود رکھا جائے بلکہ انہی مواد کو انٹرنیٹ پر موجود دیگر نیٹورکس کا بھی حصہ بنایا جائے اور سامعین کو “ اسٹریمننگ ٹی۔وی” کے ذریعے ان مواد کیساتھ منسلک رکھا جائے تو ٹی۔وی کی بقا “اسٹریمننگ ٹی۔وی” کی صورت میں محفوظ بنایا جا سکتاہے۔ دوسری طرف او۔ٹی۔ٹی ( اور د ٹاپ سروسز) جیسے نیٹپلیکس، امیزون، وغیرہ کے لئے اسپیشل کنٹینٹ کی تیاری نے بھی ٹی۔وی کی بقا کو تشویش میں ڈال رکھا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے آج بھی پرنٹنگ مواد نے ایڈوانس طریقے سے اپنی بقا کو کسی حد تک برقرار کھا ہے اسی طرح ٹی۔ وی کو بھی ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے عین مطابق اپڈیٹ رکھنا ہوگا۔
اس عالمی دن کے موقع پرہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ شک ٹیلی ویژن اور موبائل اہم ایجاد ہیں اور یہ ہماری زندگی سے جڑے ہوئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ :
ہم اس کے ساتھ غیر ضروری وابستہ ہوچکے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرسٹریشن‘ ٹینشن اور اینگزائٹی آسمان کو چھو رہی ہیں مایوسی بڑھ رہی ہے۔اس کے لیے ہمیں ریمورٹ کے استعمال کو کم کرنا ہوگا ۔کیونکہ شاید نہیں یقیناً ہم ٹیلی ویژن اور موبائل یا اس ملتی جلتی ٹیکنالوجی کا ضرورت کے بجائے نشے کی عادت کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ایک بار کسی جگہ جاوید چوہدری نے اسی ضمن درست مثال اور حوالا دیتے لکھا تھاکہ :
”آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا امریکی صدر یا برطانوی وزیراعظم کو ان کا اسٹاف آ کر کہتا ہے سر! آپ پلیز ٹی وی آن کر لیں اور وہ ٹی وی آن کر کے کوئی بریکنگ نیوز دیکھتے ہیں اور پھر ٹی وی بند کر دیتے ہیں جب کہ عام دفتروں میں یہ سہولت بھی نہیں ہوتی.،فرسٹ ورلڈ میں کسی سرکاری اور غیرسرکاری دفتر میں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا‘ اسکرین صرف ویٹنگ روم یا ویٹنگ ایریا میں نظر آتی ہے‘ باس کے کمرے میں ٹی وی نصب ہوتا ہے لیکن وہ ہمیشہ بند رہتا ہے اور صرف نائین الیون جیسے کسی بڑے واقعے پر ہی آن ہوتا ہے۔

حصہ