بچوں کا شور

303

اچھا نہیں لگتا۔۔۔ کیا۔؟ بچوں کا شور۔۔ ! ہیں؟ میں نے کتاب میں سے سر نکالا تو کیا دیکھا کہ کامی کھڑا ہے دروازے پہ ۔۔۔۔
اجڑے بال ، ستا ہوا چہرہ، تھکی تھکی آنکھیں، اور پھر آتے ہی بولنا شروع۔۔
کیا ہوگیا کامی کیسی باتیں کررہے ہو؟ میں نے پوچھا۔
کہہ تو رہا ہوں۔ ’’شور نہیں اچھا لگتا، بچوں کا۔‘‘
کامی گلا پھاڑ کر چیخا، میں نے کان بند کرلئے۔ اس کا گلا بھی بیٹھا ہوا لگ رہا تھا۔
مجھے اس کی دماغی حالت پہ شک ہوا ابھی پہلا ہی دن تھا بڑا طرم خان بنا وہ اسکول گیا تھا بچوں کو پڑھانے، میرا مطلب ٹیچنگ کرنے اور آتے ہی۔۔۔۔
بوبی۔۔! وہ دوبارہ چیخا اسے ذرا لحاظ نہیں تھا نہ بڑے بھائی کا نہ چھوٹے بھائی کا۔
جج جی کامی بھائی، بوبی دوڑتا ہوا آیا ۔
’’پانی پلائو ‘‘۔۔ اس نے گویا حکم دیا۔ اس کی حرکتیں ایسی ہی ہوا کرتی تھیں گھر میں سب پر حکم چلانا جانتا تھا بس جب ہم بھائی ہاتھ نہ آئے تو اسکول روانہ ہوگیا تھا۔
تھوڑی دیر کو رک جائیں میں آپ سے تعارف کرادوں۔ہم تین بھائی ہیں۔ میں” غفران” مجھے غوفی کہتے ہیں پیار سے۔دوسرا کامی، اوہ سوری! کامران اور چھوٹا برہان اسے ہم بوبی کہہ دیا کرتے ہیں۔
بستر پہ گر کر کامی لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں نیند کی وادی میں گم۔ مجھے بہت حیرت ہوئی، کامی کو تو اس کے دوست بھی بھٹکی روح کہتے ہیں کہ اسے نیند کم ہی آتی ہے جاگتا رہتا ہے زیادہ تر لیکن شاید بچوں نے زیادہ ہی تھکا دیا تھا، ایک ہی دن میں۔۔۔ میں سوچنے لگا اگر یہی حال رہا تو ہمارا کامی تو مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی پورا نہ ہوجائے، پھر ہم اس کی تنخواہ کا کیا کریں گے۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔! ایک تو دماغ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچتا رہتا ہے تبھی میں کہتا ہوں کہ مصروف رہنا چاہیے دماغ کے ساتھ کہ ادھر ادھر نہ بھٹکے۔
انہیں سوچوں میں شام ہوگئی ، کامی ابھی بھی نہ اٹھا تھا ۔ بوبی ٹیوشن چلا گیا تھا۔ حسن ( کامی کا اور میرا مشترکہ دوست) شام میں آیا، اسے صورتحال بتائی تو کہنے لگا کامی سے کہنا گھر میں ٹیوشن پڑھا لے اپنے محلے کے ہی بہت بچے آجائیں گے۔
آئیڈیا اچھا ہے لیکن آپ یہ بتائیں گھر میں بچے آئیں گے تو کیا شور نہیں ہوگا؟ بچوں کا شور۔۔۔

حصہ