قول ہے ’’ماں کی گود سے گور تک علم حاصل کرو‘‘۔ گویا تعلیم و تربیت سانس کے ساتھ جڑی ہے۔ ماں کی گود کے بعد اسکول معتبر درسگاہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی بہت سے والدین اسکول کے بجائے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا خود اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر عدم رہنمائی کے باعث باقاعدہ عمل درآمد ممکن نہیں ہوپاتا۔ ہوم اسکولنگ ترقی یافتہ دنیا کا اہم حصہ بن چکی ہے مگر بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں اب بھی اس حوالے سے والدین ابہام و الجھن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اسی کے پیش نظر ہم نے شعبۂ تعلیم سے وابستہ ماہرین سے گفتگو کی، جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
1) ہوم اسکولنگ کیا ہے؟ کسی بھی دوسرے اسکولنگ سسٹم سے کیسے مختلف اور اہم ہے؟
2) ایسے طالب علم عموماً قابلیت و صلاحیت کے اعتبار سے پیچھے رہ جاتے ہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے؟
3) ہوم اسکولنگ کو جدید علمی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے؟ طریقہ کار؟
پروفیسر سلیم مغل (سابق ٹی وی پروڈیوسر ، مدیر ماہنامہ نونہال ، ماہر تعلیم)
1) ہوم اسکولنگ دراصل روایتی تعلیمی نظام سے ہٹ کر، اور محدود طریقہ تعلیم ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت مجبوری میں متبادل تو ہوسکتا ہے مگر آئیڈیل سسٹم نہیں۔ جو بچے باقاعدہ اسکول جاکر پڑھتے ہیں، سیکھنے کے بے شمار پہلو انہیں وہاں ملتے ہیں جو درحقیقت گھر کے ماحول میں میسر نہیں ہوسکتے۔ اسکول میں بڑی تعداد میں بچوں کا گھلنا ملنا، باہمی دوستی، خیالات اور پڑھائی کا تبادلہ، لڑائی کے بعد صلح، کسی مسئلے کو ازخود حل کرنا، مکالمہ، سب سے اہم دوسروں کو سننا اور توجہ سے سننا بھی تو ایک آرٹ ہے۔ سو، نادیدہ کتنے ہی عوامل ہیں جو ہجوم میں ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات تو ماحول کی ہے، جو بہت سارے بچوں کے آجانے سے اُس کو ملتا ہے اور ہر طرح سے تربیت ہوتی ہے۔
اس کے برعکس، میں سمجھتا ہوں کہ ہوم اسکولنگ بچوں کے لیے بہتر نظام تعلیم نہیں، حد درجہ مجبوری میں تو اپنایا جاسکتا ہے لیکن والدین یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہوم اسکولنگ خالصتاً بالواسطہ یا بلاواسطہ ماں باپ کی تعلیم کا معاملہ ہے۔ ہمارے سامنے ابراہم لنکن، ایڈیسن اور بہت سی مثالیں ہیں جنہوں نے ہوم اسکولنگ کی اور نام کمایا۔ والدین اگر بچوں کو درست سمت اور مناسب انداز سے رہنمائی دیں اور اس پر سختی سے عمل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اچھے نتائج برآمد نہ ہوسکیں۔
2)دیکھیں ہم کسی بھی بات کو سو فیصد قرار نہیں دے سکتے۔ تاریخ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ باقاعدہ اسکول سسٹم سے مستفید نہ ہونے والے لازمی نہیں کہ ناکام ہی ہوجائیں، لیکن عموماً مکمل طور پر ہوم اسکولنگ پر انحصار کرنے والوں کی اکثریت کمزور رہ جاتی ہے۔ دنیا میں وہ بظاہر کامیاب تو ہوجاتے ہیں لیکن اپنی ذات کے پہلوؤں میں کمی کے باعث وہ بہت آگے نہیں بڑھ پاتے۔ بہرحال ، حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی، دونوں طرف سے ہی مثالیں ملتی ہیں مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ باقاعدہ اسکول سسٹم سے پڑھنے والے بچے مجموعی طور پر زیادہ متوازن شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔
3) ہوم اسکولنگ کے لیے والدین پر ذمے داری بڑھ جاتی ہے کیونکہ ہوم اسکولنگ باقاعدہ گھر کی حدود میں تعلیمی نظام اور مزید ذمے داری کا کام ہے۔ ایسا نہیں کہ جو والدین چاہیں وہ بغیر کسی معلومات کے کرسکتے ہیں، بلکہ ان کو بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر ماں باپ سمجھ جاتے ہیں تو پھر وہ بچے کو بھرپور انداز میں تعلیم دے سکیں گے ۔ یوں سمجھیے کہ بچے کی کامیابی کی خاطر اصل میں تربیت تو ماں باپ کی ہوتی ہے۔ انہیں کتنا اور کیا بولنا ہے، ناراضی یا پیار کا اظہار کس طرح کرنا ہے، ماں باپ کی طرف سے بچے کو بوسہ ہی بڑی حوصلہ افزا بات ہوتی ہے۔ ایسے کئی رویّے ہیں جو ماں باپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ بچے کو وقت دیں، اس کو فطرت کے مشاہدات کروائیں، نئے اداروں میں لے کرجائیں، نئی شخصیات سے ملوائیں، خاندان کے بچوں سے دوستیاں کروائیں تو بڑی حد تک مذکورہ کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ والدین بہ خوبی ذمے داری کا ادراک رکھتے ہوں۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ عمر کے مطابق بچوں کی نفسیاتی ضروریات پوری ہوتی رہنی چاہئیں۔ اس طرح وہ کسی بڑی محرومی کا شکار نہیں ہوں گے اور ان کی شخصیت بہتر انداز میں پروان چڑھ سکے گی۔
فہیم نقوی (ماہر تعلیم ، ٹرینر، جنرل منیجر EAST )
1) ہوم اسکولنگ یہی ہے کہ بچہ کسی فارمل اسکول کا حصہ نہیں بنتا بلکہ اپنے گھر کے کسی حصے کو اسکول کا نام دے دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ جب اور جہاں مرضی چاہے پڑھے گا، بلکہ وہ مکمل طور پر اسکول کی طرح ہی مخصوص وقت اور جگہ پر پڑھائی کا تمام کام اور سرگرمیاں انجام دے گا۔ والدین اس کے اساتذہ کا کردار ادا کریں گے۔ اس کے علاوہ اگر والدین گھر میں ہی کسی استاد کو بلا کر بچے کی تعلیم و تربیت کروانا چاہیں تو وہ بھی ممکن ہے، لیکن اس صورت میں والدین ہی بچے کی پڑھائی کے نصاب اور دیگر سرگرمیوں کا انتخاب کریں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے نصاب اور ماحول ہی اہمیت کا حامل نہیں بلکہ اچھے اساتذہ بھی کُلی حیثیت رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمومی اسکولنگ سسٹمز میں اساتذہ کی فنی تربیت اور تنخواہوں کا فقدان ہے، جس کے باعث بچے عدم توجہ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ چوں کہ بچوں کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں جبکہ غیر تربیت یافتہ اور اَن پروفیشنل اساتذہ اپنی ذمے داری نبھانے میں چُوک سکتے ہیں، اس لیے بھی ہوم اسکولنگ دیگر نظام ہائیِ تعلیم سے قدرے بہتر انتخاب ہے۔ بنیادی طور پر ہوم اسکولنگ گھر کے آرام دہ ماحول میں والدین کی ہدایت و رہنمائی میں بچے کو دی جانے والی تعلیم ہے۔ یہ ایک پیرنٹ ڈائریکٹِڈ ایجوکیشن ہے۔
والدین بہت سی وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کے لیے ہوم اسکولنگ کا انتخاب کر سکتے ہیں، لیکن بچوں کی آزادی عام طور پر سب سے اہم ہوتی ہے تاکہ بچہ بے خوفی سے سیکھ سکے۔
2) یہ مفروضہ اور غیر حقیقی تصور ہے کہ گھر میں رہ کر اسکولنگ کرنے والے بچوں میں مہارتوں کی کمی ہوتی ہے۔ درحقیقت اصل اعداد و شمار بالکل مختلف ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اگر بچوں کو درست سمت میں ہوم اسکولنگ کروائی جائے تو یہ بچے خواہ سماجی ہو یا تعلیمی، ہر لحاظ سے مروجہ اسکول کے ساتھیوں سے بتدریج آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ بچوں کا اپنے ہم عمر بچوں سے سیکھنا بھی بہت اہم ہے، لیکن ہوم اسکولنگ سے وابستہ بچوں کے والدین انہیں اپنے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ وہ انہیں گھر تک قید نہیں رکھتے بلکہ کبھی بچوں کو بازار لے جاتے ہیں اور خرید و فروخت کے ذریعے ان کو حساب سکھا دیتے ہیں۔ پارک، کراٹے کلب یا کرکٹ اسٹیڈیم لے جاتے ہیں جہاں بچوں کی جسمانی نشوونما پر بھی توجہ دی جاتی ہے اور وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ان سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، تو اس طرح بھی بچے اپنے والدین کی سربراہی میں دوسرے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے اور سیکھتے ہیں۔ بہت سی ایسی سرگرمیاں ہیں جو باقاعدہ اسکولنگ سے وابستہ بچے نہیں کرپاتے جبکہ ہوم اسکولنگ کرنے والے بچوں کو میسر آجاتی ہیں۔ ایسے بچے گھر میں پالتو جانوروں کے ذریعے فیصلہ سازی کے اہل ہوتے ہیں، وہ بہتر انداز سے باغبانی جانتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گی کہ ہوم اسکولنگ سے منسلک بچے دیگر سسٹم کے بچوں کی نسبت زیادہ تیز اور جلد کام کرنے کے اہل پائے گئے۔ سب سے اہم نکتہ یہ کہ ہوم اسکولنگ بچوں کو والدین کے ساتھ بیشتر وقت گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے والدین بچے کے مشاغل اور بدلتی عادات و ضروریات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں ۔
3) میں سمجھتا ہوں کہ ہوم اسکولنگ کے خواہش مند والدین جدید تعلیمی تقاضوں کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ باقاعدہ اسکول سسٹم سے مطمئن نہیں ہوتے، نتیجتاً اسکول کا رُخ کروانے سے اجتناب برتتے ہیں۔ چونکہ ہوم اسکولنگ میں مخصوص نصاب کو مکمل کروانے کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا، نہ ہی کسی روایتی امتحان/ جانچ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں ہر بچے کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں اور عمر کے عین مطابق کام کروایا جاتا ہے۔ ان کی ذہنی صلاحیتیں جانچنے کے لیے مختلف قسم کی سرگرمیوں سے گزارا جاتا ہے، اور یہی بچوں کی اُٹھان کا قدرتی طریقہ بھی ہے۔ ہوم اسکولنگ میں جہاں والدین کی توجہ ایک قدم زیادہ مانگتی ہے، وہیں جدید علمی تقاضوں کے مطابق لے کر چلنا ان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ میں نے بھی اپنے بچوں کے لیے ہوم اسکولنگ کا انتخاب کیا۔ روزِ اوّل سے ہی عالمی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ویب سائٹس کو چُنا اور ان کا تعلیمی سلسلہ جوڑ دیا، مگر جب بھی موقع ملا مختلف آن لائن کورسز بھی کروائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آج وہ مروجہ نظام تعلیم سے منسلک ہم عمر بچوں کی نسبت قدرے زیادہ باصلاحیت اور خود انحصار نظر آتے ہیں۔
ہوم اسکولنگ ابتدائی 12 سال کی عمر یعنی پرائمری تک ہی کارگر نہیں بلکہ ہم اسے مڈل، میٹرک اور اولیول تک بھی لے جا سکتے ہیں۔ ابتدائی ہوم اسکولنگ سے استفادے کے لیے بہت سی ویب سائٹس بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے میں خان اکیڈمی بچوں کے لیے نہایت کارآمد پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جو والدین مڈل تک خود تعلیم دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ ای ایل ای (ELE)) کی ویب سائٹ سے بھی رہنمائی لے سکتے ہیں۔
سمیرا سجاد خان (پرنسپل نجی اسکول، ماہر تعلیم )
1) ہوم اسکولنگ رسمی طریقہ تعلیم سے یکسر مختلف ہے، جہاں تعلیم و تربیت کے مکلّف صرف والدین یا ٹیوٹرز ہوتے ہیں۔ ہوم اسکولنگ تمام بچوں کے لیے نہیں ہے، نہ ہی اسے ہمارے معاشرے میں عملی جامہ پہنانا اتنا آسان اور سہل ہے۔ ہمارے ملک میں ہوم اسکولنگ کی صورتِ حال قدرے مشکل ہے، کیوں کہ والدین نصابِ تعلیم اور تعلیم کے حوالے سے زیادہ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے، اور یہ عام طریقۂ تعلیم سے قدرے مہنگی بھی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 95 فیصد والدین اسے باقاعدہ اپنانے سے قاصر ہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہوم اسکولنگ کے لیے ٹیکنالوجی اہم جزو ہے۔ بدقسمتی سے یہاں والدین باقاعدہ ٹیکنالوجی سے نابلد نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہوم اسکولنگ مناسب پنپ نہیں رہی۔
2) جی بالکل، یہ عموماً تاثر ہے مگر حقیقتاً ایسا ہرگز نہیں کہ ہوم اسکولنگ سے مستفید ہونے والے بچے باصلاحیت نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قابلیت کے اعتبار سے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ چونکہ ایسے بچے دیگر عام نظام ہائے تعلیم میں تربیت پانے والوں کی نسبت سماجی طور پر زیادہ فعال نہیں ہوتے تو شخصیت میں کچھ جھول تو رہ جاتے ہیں۔
3) میرا خیال ہے کہ سب پلک جھپکتے ممکن نہیں، وقت درکار ہوگا۔ بلا تاخیر ہمیں اپنے بچوں کو دنیا کی دوڑ میں لانے کے لیے اپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔ ہوم اسکولنگ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی چاہیے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ آج سوچا اور کل سے آغاز کردیا جائے۔ اس پر سنجیدگی سے حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ بغیر سند یافتہ والدین کو ہوم اسکولنگ کی اجازت نہ دی جائے بلکہ دل چسپی رکھنے والے والدین کی تربیت اور باقاعدہ سند کے اجرا کو یقینی بنایا جائے۔
طیبہ عاطف (لائف کوچ، سابق ڈائریکٹر بیٹھک اسکول، ماہر تعلیم )
1) ہوم اسکولنگ دراصل بغیر اصطلاح کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بہ خوبی نظر آتی ہے کہ جب گھر کا ماحول اور مساجد ہی ایک بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے کتنا نتیجہ خیز کام کرتے تھے۔ ہوم اسکولنگ دراصل اپنے فطری دائرے کے اندر تعلیم و تربیت کا نام ہے۔ دیگر مروجہ نظاموں سے اس لیے مختلف ہے کہ وہاں تقریباً تمام عوامل ہی متعین کردہ اور یکساں نظام پر چل رہے ہیں۔ اوقاتِ کار متعین، کلاس روم متعین، درجہ بدرجہ تقسیم یکساں، بچوں کی عمر کا تعلق متعین، لباس میں یکسانیت، امتحانی نظام یکساں، اور اس سے صحیح جانچ ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ سارے طریقہ کار ہی مروجہ نظام تعلیم کے اندر موجود ہیں۔ ہوم اسکول سسٹم دراصل اس کے برخلاف ہے، اور یہ اس لیے اہم ہے کہ ایک بچے کو قدرتی انداز میں اپنے ماحول کے اندر رہ کر جس طرح تعلیم و تربیت اور سیکھنے کی جانب مائل کیا جاسکتا ہے، وہ دیگر نظام ہائے تعلیم میں ممکن نہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ قرآن و سنہ بھی والدین کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذمے دار ٹھیراتے ہیں جب کہ ہم دیگر نظام ہائے تعلیم میں بچوں کو داخل کرتے ہی دوسروں کو اپنی ذمے داری تفویض کرتے ہوئے دراصل منہ موڑ لیتے ہیں۔
2) ایسا ہرگز نہیں اور یہ خدانخواستہ تب ہی ممکن ہے اگر والدین اس پر بھرپور توجہ نہ دیں اور اپنی اصل ذمے داری کا حق ادا نہ کریں۔ تحقیق اور تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ہوم اسکولنگ کرنے والے بچے مروجہ نظام تعلیم سے بہتر اور ازخود سیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ زیادہ ہنرمند، مشاہداتی اور تخلیقی صلاحیت کے مالک اور معاشرے کے لیے عملی اور مؤثر شہری بن کر سامنے آتے ہیں۔
3) ہوم اسکولنگ میں یہ ضروری ہے کہ والدین باشعور ہوں، مقاصدِ تعلیم کا بہ خوبی ادراک ہو، اپنے دن بھر کے کاموں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور بہترین وقت بچوں کو فراہم کریں۔ ایک غلط فہمی جس کی نشاندہی کی ضرورت ہے کہ ہوم اسکولنگ میں مروجہ اسکولوں کی طرح پڑھانا نہیں پڑتا بلکہ ان کو سیکھنے والا بنانا اصل مقصد ہے۔ مختلف ماحول کے ذریعے انہیں سیکھنے کی ترغیب دینی ہوگی۔ والدین کو باہمی رضامندی کے ساتھ ذمے داری ادا کرنی ہے۔ انہیں استاد کی حیثیت اختیار نہیں کرنی بلکہ قدرتی انداز میں سکھاتے جائیں۔ عملی سرگرمیوں، آڈیوز، وڈیوز کے ذریعے سکھایا جاسکتا ہے۔ تخلیقی لکھائی کی جانب متوجہ کروائیں۔ میرا خیال ہے کہ صحیح بنیادوں پر اگر عزم سے بتدریج کام کرتے چلے جائیں تو امت مسلمہ کے نظام تعلیم کے ذریعے ایسے کردار اُبھر سکیں گے جن کا تذکرہ قرآن و سنہ میں ملتا ہے۔
سروے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگرچہ ہوم اسکولنگ سسٹم مثالی تعلیمی نظام نہیں گردانا جاتا، مگر باقاعدہ حکمت عملی، توجہ اور محنت سے ہوم اسکولنگ کے ذریعے علمی اور عملی میدان کے لیے ایسا طریقہ کار متعارف کیا جاسکتا ہے جس کا خاکہ کسی طور بھی جدید طرزِ تعلیم سے کم نہ ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمے داران اسے سنجیدگی سے لیں اور بہترین حکمت عملی مرتب کریں۔