ہمارا اپنے آپ کو بندگیِ رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذ ِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت و تجارت،انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپناضابطۂ حیات بناکر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے۔
امامت میں تغیر کی ضرورت: اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندئہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم، فساد، بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے، اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النھار ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کردینے اور غلبۂ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
امامت میں انقلاب کیسے؟ یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہرحال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لیے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر مومنین صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظامِ دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو تو پھر مشیت الٰہی غیرمومن اور غیرصالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں، تو مشیت الٰہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔
پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے۔ (دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار، ص ۱۵-۱۷)
صالح گروہ کی تنظیم: ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زُہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور دنیا کے کاروبار اُن بُرے لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لیے آتا ہے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو، راست باز اور دیانت دار بھی ہو، خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے بھی آراستہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیاداروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت اور قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔
ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے۔ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اُسی وقت تک چرچُگ لینے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ایسا گروہ تیار ہوجائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست، معیشت، مالیات، علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رُونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی اس بات کا یقین بھی ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رُونما ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی ہوجائے…. (رُوداد جماعت اسلامی، حصہ دوم،ص ۵۲-۵۳)
صالح عنصر کو منظم کرنا:اس تاریکی میں ہمارے لیے اُمید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم ۴،۵ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بداخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے….
ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے… یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہوجائیں، تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لیے جا رہا ہے۔
آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہوجائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا ایک بہتر حل، اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھاکر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کردیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جاسکتا….
اگر خیر کے علَم بردار سرے سے میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برادرانِ شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علَم بردار بھی میدان میں ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علَم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہوگا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میںبے ایمانی اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (جماعت اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحہ عمل، ص ۳۵-۳۷)
منزل کے قریب: پچھلے ۳۰، ۴۰ سال کے دوران اسلامی خیالات کی اشاعت کا کام جتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے اور وہ صرف میں نے ہی نہیں کیا ہے، دوسرے لوگوں نے بھی کیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اب اسلام کی خواہاں ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس کے اخلاق بالکل اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں ہوسکے لیکن اس میں اسلام کی سمجھ اور اسلامی نظام قائم کرنے کی تڑپ ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جو درس گاہیں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم پر قائم تھیں، خدا کے فضل سے انھی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہوگئی ہے جو اسلام سے گہری قلبی عقیدت بھی رکھتی ہے اور اسلام کا فہم بھی بڑی حد تک اس کو حاصل ہوچکا ہے۔ اب ہمارے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عام آبادی جو اَن پڑھ ہے، اس کے اندر کس طرح اسلام کے علم و فہم کو پھیلایا جائے۔ چونکہ راے دہندگان کی اکثریت اَن پڑھ ہے، اس لیے تعلیم یافتہ لوگوں کی ۱۰۰ فی صد تعداد بھی اگر صحیح کرنا چاہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری: اس مرحلے پر میرے نزدیک یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور علماے کرام شہروں، قصبوں اور دیہات کی اَن پڑھ آبادیوں میں دین اسلام کی واقفیت پیدا کرنے میں لگ جائیں۔ اس کے لیے لوگوں کا خواندہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ حضوؐر کے زمانے میں کتابوں کے ذریعے سے دین نہیں پھیلا تھا، زبانی تلقین سے پھیلا تھا۔ اب بھی یہ ضروری نہیں کہ ہم ان سب کو پہلے پڑھا لکھا بنائیں، پھر انھیں دین سمجھائیں۔ عہدِرسالتؐ کی طرح آج بھی عام لوگوں کو زبانی تعلیم سے دین سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسلام کے عقائد اور اُصولِ اخلاق سے انھیں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ فرائض اور ارکانِ دین کی اہمیت ان کے ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ان میں پیدا کی جاسکتی ہے۔ بڑے بڑے گناہوں کے عذاب کا خوف ان کے دلوں میں بٹھایا جاسکتا ہے۔ نیکیوں کے اجر کی رغبت انھیں دلائی جاسکتی ہے۔ قرآن کی آیات اور رسولؐ اللہ کی احادیث جنھوں نے عرب کی دنیا بدل ڈالی تھی، آج بھی اپنا معجزنما اثر دکھا سکتی ہیں، بشرطیکہ ہم ان سے اصلاحِ معاشرہ کا کام لینا چاہیں۔
جواب دہی کا احساس: بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن اور حدیث کی صاف صاف تعلیمات پیش کر کے ہم لوگوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کریں کہ تم سب کی نگاہوں سے چھپ سکتے ہو، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ سب کی سزا سے بچ سکتے ہو مگر خدا کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔ تمھارا پورا پورا اعمال نامہ تیار ہورہا ہے۔ ایک دن تمھیں یقینا مرنا ہے اور قیامت کے روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ تم نماز ترک کردو، رمضان میں علانیہ کھاپی کر خداکے دین کی توہین کرتے رہو، بے باکی کے ساتھ گناہوں کی گندگی میں لَت پت ہوجائو، لوگوں کے حقوق مار کر خدا کے سامنے جائو، لوگوں کی عزت و آبرو لُوٹ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو، لوگوں کی جانیں لے کر وہاں جائو، اور پھر اللہ کی عدالت سے چھوٹ جائو۔ اس دنیا میں تم چال بازیاں کرکے بچ سکتے ہو، خدا کی گرفت سے کیسے بچو گے۔ یہ چیزیں آپ عام لوگوں کے دماغ میں بٹھائیں تو رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ہماری عام آبادی کے اندر صحیح سمجھ بوجھ اور اخلاقی حس پیدا ہوجائے گی۔
اسلامی شعور کی بیداری: [پھر] جب لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اب ہمیں اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے تو انتخابات کے موقعے پر وہ خود ہی سوچیں گے کہ اس کام کے لیے کیسے لوگوں کو آگے لائیں۔ عام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہوں تو کس ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ اس بات کو جانتے ہیں کہ کوئی مقدمہ پیش آجائے تو کس وکیل کے پاس جائیں۔ اسی طرح جب آپ لوگوں میں اسلام کا شعور اور سمجھ پیدا کردیں گے تو وہ خود ہی دیکھ لیں گے کہ اسلامی نظام چلانے کے لیے وہ کن لوگوں کو منتخب کریں۔ پہلی بار اگر وہ کچھ غلطی کر بھی جائیں گے تو ان شاء اللہ دوسری مرتبہ نہ کریں گے، بشرطیکہ تعلیمِ عوام کا عمل برابر جاری رہے، اور حکمران اسلام سے ہٹ کر جو کام بھی کریں، اس پر معقول و مدلل تنقید کی جاتی رہے۔ بالفرض اگر غلط آدمیوں کی اکثریت منتخب ہوجائے اور وہ دوسرا انتخاب ناجائز ذریعے سے جیتنے کی کوشش کریں تو انھیں [مزاحمتی] تحریک کا سامنا کرنا ہوگا۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۲۳-۲۵)
انتخابی حکمتِ عملی: جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کامیاب کرالینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کامیابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی بُرے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہوسکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔
تیسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعت اسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہوکر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آئندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آئندہ اسمبلیوں میں اسلامی نقطۂ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہِ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجاے کسی حامی دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو، بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اُٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اُٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں ، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں ….
حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہوجائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجایش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّ وبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجائش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اُوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھیے جو خدا اور رسولؐ کی شریعت نے آپ پر عائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کرلیجیے۔شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بناچکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کر کے آپ ’اصول پرستی‘کا فخر کرنا چاہیں تو کرلیں، مگر یہ حصولِ مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہوجائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے‘‘۔(تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۵۶-۱۵۸)۔
(ترتیب: امجد عباسی)