اقبال اور تصور وطنیت

1780
بقول علامہ اقبالؒ:
اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے اور جم اور
ساقی نے بِنا کی رَوشِ لطف و ستم اَور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

موجودہ نظریۂ قوم پرستی کو مغربی طاقتیں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ وہ دیرینہ خواب جس کی تعبیر صلیبی جنگوں سے اُن کو حاصل نہیں ہوسکی، وہ قوم پرستی سے حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کو توڑنے میں استعماری قوتیں کافی حد تک کامیاب ہوگئی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں بہت سی ایسی قومیں گزری ہیں جن کی مادی شان و شوکت سے دوسری قومیں لرزتی تھیں، مگر بایں ہمہ گردشِ ایام نے اُن کو پیس کر رکھ دیا۔ اس کی وجہ دین سے بے زاری اور نسلی و جغرافیائی طریقہ زندگی کو فوقیت دینا ہے۔ اس لیے کہ وطنیت، چاہے رنگ و نسل کی بنیاد پر ہو یا علاقائی حد بندی کی بنیاد پر، انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے ہوس پرست بنادیتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے ملّی تصور کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی شاعرانہ صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

فرد قائم ربطِ مِلت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تُو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
یقین افراد کا سرمایۂ تعمیرِ ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے

قوم پرستی کا آغاز مغرب میں انقلابِ فرانس یعنی 1789ء کے بعد ہوا۔ مشہور قوم پرست جان جیک روسو اس بات پر مُصر تھا کہ انسان کو سب سے زیادہ تعلق اپنے گھر اور ملک سے ہونا چاہیے۔ اُس کا عقیدہ تھا کہ فرد یا گروہ کی محبت اور وفاداری کا مرکز و محور اس کا وطن ہونا چاہیے۔ اُس نے نوعِ انسانی کی اجتماعی، دینی اور سماجی نظام سے وابستگی کی شدید مخالفت کی۔ مغربی مصنفین کی تحریروں سے عیاں ہے کہ وہ قوم پرستی، زبان، ملک اور نسل کو وحدت کی بنیاد قرار دیتے تھے۔ اُن کا اصرار ہے کہ غیر کے مقابلے میں ہم کو وطن کا دفاع کرنا ضروری ہے، چاہے اس کا مؤقف صحیح ہو یا غلط۔ چنانچہ قوم پرستی عوام کے جذبات سے کھیلنے، فوجوں کو حرکت میں لانے، ہمسایہ ملکوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے، توسیع پسندی، قتل و غارت گری، بدعنوانی اور ظلم و جبر کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔

اسلام اپنا ایک مستقل نظامِ فکر رکھتا ہے۔ وہ انسان کی عملی، سیاسی، اجتماعی اور روحانی زندگی پر محیط ہے۔ اسی وجہ سے قوم پرستی کا ملتِ اسلامیہ کے ساتھ ٹکرائو ناگزیر ہے۔ دونوں نظریات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ ملتِ اسلامی کی وحدت کی بنیاد ایک بین الاقوامی تصور پر مبنی ہے اور اس کی تشکیل عقیدے کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے علامہ اقبالؒ نے مذہب کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِین زخمہ ہے، جمعیت مِلت ہے اگر ساز
پانی نہ مِلا زمزمِ مِلت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پَود میں الحاد کے انداز

جب مختلف قومیں کسی خاص مقام یا کسی ایک مرکز میں اپنی قدرتی اور مناسب ترکیب و ترتیب کے ساتھ مل جاتی ہیں تو ایک اجتماعیت وجود میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جا بہ جا اجتماعیت کو قومی زندگی کی سب سے بڑی بنیاد اور انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بڑی رحمت و نعمت قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

(ترجمہ)’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اور اللہ کی اس نعمت کو یادکرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ (آل عمران: 103)

دورِ جدید میں لوگوں نے قوم پرستی (یا وطن پرستی) سے متاثر ہوکر اخوت کے رشتے کو بری طرح پامال کیا ہے۔ اس کےنتیجے میں بنی نوع انسان قبیلوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ علامہ اقبال نے جب اس تصور کو مسلمانوں میں پنپتا دیکھا تو انہوں نے وطنیت پر زبردست تنقید کی:

گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے
حصہ