معصوم خواہش

176

ہوم ورک کرتی شمائلہ ہاتھ روک کر موبائل پر دوستوں سے چیٹنگ کرتے باپ کی آنکھوں اور ہونٹوں کی مسکراتی چمک کو بہت پیار اور شوق سے دیکھ رہی تھی۔ وہاں سے گزرتی ماہم‘ عباد کو معمول کے شغل میں مصروف دیکھ کر ناگواری سے بڑبڑا کر جانے لگی تو اس کی نظر شمائلہ پر پڑی۔
’’شمائلہ! تم نے ہاتھ کیوں روک دیا ہے؟ جلدی جلدی ہوم ورک ختم کرو۔‘‘ ماہم کی ٹوکتی آواز نے عباد اور شمائلہ دونوں کی محویت میں خلل ڈالا۔ شمائلہ نے گھبرا کر سامنے کھلی کتابوں میں سر گھسیڑ دیا، جب کہ عباد نے حیرانی سے نظر اٹھاکر اسے اور بیٹی کو دیکھا اور پھر سے اسی انہماک سے اپنے مشغلے میں مصروف ہوگیا۔ ماں کے جانے کے بعد بھی وہ گاہے بگاہے کن اکھیوں سے باپ کو دیکھتی رہی۔
رات آٹھ بجے بیٹ بال کے ساتھ حمزہ کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر موبائل پہ مصروف عباد اور ہوم ورک کرتی شمائلہ نے اسے دیکھا۔ ’’یہ کوئی گھر آنے کا ٹائم ہے؟‘‘
’’پاپا! آج فائنل تھا۔‘‘ باپ کے غصے سے اسے ڈر ضرور لگتا تھا لیکن ان کے غصے کی اسے کوئی خاص پروا نہیں ہوتی تھی۔
’’تو پیچھے سے گھر اور پڑھائی سب ختم؟‘‘
’’نہیں پاپا! آج میرے گھر دیر سے آنے کا آپ سب کو پتا تھا اور ہوم ورک میں ابھی کرلوں گا۔ ماما پڑھائی پہ کوئی سمجھوتا نہیں کرنے دیتیں۔‘‘ عباد کی تیز آواز پہ ماہم کچن سے نکل آئی تھی، جب کہ شمائلہ سہم کر اپنی جگہ پہ دبک گئی تھی۔
’’ہاں تو تم دونوں کے ہر کام کے پیچھے تمہاری ماما ہی تو ہوتی ہیں۔ نہ بڑوں کے ادب آداب سکھائے ہیں اور نہ کوئی سلیقہ۔ سارا دن بیٹ بال پکڑ کر گھر سے باہر آوارہ دوستوں کے ساتھ رہتے ہو، یا گھر پہ شور شرابہ کرتے رہتے ہو۔ میں تمہیں پڑھتے تو دیکھتا ہی نہیں ہوں۔‘‘
حمزہ کے جواب دینے سے پہلے ماہم بول پڑی ’’عباد! آپ کے دونوں بچوں کی اسکول میں ہمیشہ تعریف ہی ہوتی ہے۔ آپ اپنی دنیا سے نکل کر ان کی دنیا میں جھانکیں گے تو آپ کو پتا چلے گا۔‘‘
عباد نے ماہم کو کرارا جواب دینے کے لیے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ فون کی دنیا سے اسے بلاوہ آگیا وہ چونک کر اس طرف متوجہ ہوا۔ اسکرین پہ جگمگاتا نام دیکھ کر اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی اور ان سب پہ ایک تیز نظر ڈال کر موبائل پہ ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے وہ کمرے میں چلا گیا۔
’’پاپا کو ہم پر غصہ کرنے، ٹوکنے اور تنقید کے سوا کوئی کام ہے؟‘‘ حمزہ نے دل کی بھڑاس نکالی، جس پہ ماہم نے اسے ٹوکا ’’حمزہ غلط بات‘‘۔
’’ماما! میں غلط ہوں اور وہ…!! اس نے سہمی بیٹھی بہن کی طرف اشارہ کیا۔ ماہم نے اسے اپنے پاس بلایا، اور حمزہ کے سامنے کرتے ہوئے بولی ’’باقی ہوم ورک بعد میں، ابھی بھائی سے آج کے میچ کا احوال لو۔‘‘ ماہم نے شمائلہ کا دھیان بٹانا چاہا جس پر حمزہ بھی آگے بڑھا۔
’’وکٹری ماما اینڈ سوئٹ سسٹر۔ وکٹری۔‘‘ وہ جوش اور خوشی سے بولا۔
…٭…
ڈنر کے بعد بچوں کو اپنے کمرے میں سلا کر ماہم معمول کے مطابق عباد کے لیے چائے بنا کر لائی تھی۔ عباد اپنے کسی نیٹ فرینڈ کے ساتھ وڈیو کال پر مصروف تھا۔ اس نے مشکور نظروں سے ماہم سے چائے کا کپ لیا اور مزے سے سپ لیتا باتوں میں مصروف ہوگیا۔
ماہم کو اس سے کوئی بات کرنی تھی تبھی اِدھر اُدھر کے بے مقصد کاموں میں مصروف ہوکر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ لیکن موبائل پر اس کی خوش مزاجی کے مظاہرے ختم ہی نہیں ہورہے تھے۔ آخر تنگ آکر اسے بیچ میں ہی بولنا پڑا ’’عباد! آپ سے ایک بات کہنی تھی۔‘‘
تھوڑی دیر کا اشارہ کرکے وہ دوبارہ مصروف ہوگیا۔ بہت دیر گزرنے کے بعد بھی جب وہ تھوڑی دیر ختم نہ ہوئی تو اسے پھر سے عباد کو ٹوکنا پڑا۔ مجبوراً اس نے دوست کو الوداع کہہ کر بیوی کو کڑے تیوروں سے دیکھا، جس کی بے وقت مداخلت اسے بری لگی تھی۔ ’’اب بولو، کیا مصیبت آن پڑی ہے؟‘‘
ماہم کو اس کا لہجہ اور بات سخت ناگوار محسوس ہوئی، لیکن ابھی اپنی بات کہنی تھی اس لیے برداشت کرگئی۔
’’پرسوں شمائلہ کے اسکول میں پیرنٹس میٹنگ ہے۔ میڈم نے ہم دونوں کو بلایا ہے۔‘‘
’’کیا پرسوں میری آفس سے چھٹی ہے؟‘‘ عباد کے تلخی سے کیے گئے غیرمتوقع سوال نے اسے گڑبڑا دیا۔
’’نہیں تو…‘‘ بوکھلاہٹ میں اسے یہی جواب سوجھا۔
’’پھر میں پرسوں کیسے چل سکتا ہوں؟‘‘ عباد کے بے محل سوال کی اسے اب سمجھ آئی تھی۔
’’آپ کی پرسوں چھٹی نہیں ہے تو کیا ہوا، آپ چھٹی لے سکتے ہیں۔‘‘
’’ایک فضول پیرنٹس میٹنگ کے لیے چھٹی لوں؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے!‘‘ عباد کی بات نے اس کے اندر کی شکایت کو راستہ دکھادیا، اس کا لہجہ بھی تیز ہوگیا:
’’اس میں دماغ خراب ہونے والی کیا بات ہے! پچھلے ہفتے آپ نے اپنے کسی فیس بک فرینڈ سے ملنے کے لیے چھٹی لی تھی تو اب بیٹی کے لیے بھی لینے میں کیا حرج ہے!‘‘
’’گھما پھرا کر کیوں بات کررہی ہو! صاف کہو نا کہ تمہیں میرا اپنے دوستوں سے ملنا اور باتیں کرنا برا لگتا ہے۔‘‘ عباد ایسے بلبلایا جیسے ماہم نے اس کی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا ہو۔
’’دن بھر تمہارے اور اسی اولاد کے آرام و آسائش کے لیے گدھے کی طرح آفس میں سر کھپاتا ہوں۔ شام کو آکر دو تین گھنٹے اپنے لیے صرف کرکے موبائل پہ اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوں تو وہ بھی تمہیں کھٹکتا ہے۔‘‘
’’گھر والوں کے لیے صرف آرام اور آسائش مہیا کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، ان کو ٹائم بھی دینا ہوتا ہے۔ ان کی باتیں، دلچسپیاں اور ان کے مسائل بھی سننا ہوتے ہیں۔‘‘ ماہم کے لہجے میں تلخی آگئی۔
’’تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں تم لوگوں کو ٹائم نہیں دیتا، تم لوگوں سے باتیں نہیں کرتا؟‘‘ نوبت لڑائی تک پہنچتے دیکھ کر ماہم نے خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی:
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ بس جس خوش مزاجی کے مظاہرے آپ موبائل پر غیر لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ویسے ہی ہم اپنوں کے ساتھ بھی کیا کریں۔ بچے آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ حمزہ لاابالی ہے، وہ گھر کے اندر باہر مگن رہتا ہے، لیکن شمائلہ بہت حساس ہے، وہ آپ کی بے توجہی کو محسوس کرتی ہے اور آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آپ کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔‘‘
’’اپنی بات بچوں پہ مت ڈالو۔‘‘ وہ ترشی سے کہہ کر موبائل ہاتھ میں پکڑے کمرے سے باہر نکل گیا۔ ماہم اس کو بے بسی سے دیکھتی رہ گئی۔
…٭…
’’السلام علیکم ماما‘‘۔ اسکول سے آکر وہ دونوں سیدھے باورچی خانے میں کام کرتی ماں کے پاس آئے۔
’’وعلیکم السلام میرے پیارے پیارے بچو!‘‘ بارہ سالہ حمزہ اور دس سالہ شمائلہ کو دیکھ کر ماہم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
’’ماما آج کیا پکا رہی ہیں؟‘‘ حمزہ نے اچک کر دیگچی میں جھانکا۔ ’’آلو گوشت… وائو‘‘۔ حمزہ خوش ہوگیا۔
’’اب جلدی سے چینج کرکے آؤ۔‘‘ وہ بھاگتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا۔
’’شمائلہ! تم بھی جلدی سے چینج کرکے آؤ تو کھانا لگاؤں۔‘‘ شمائلہ کو وہیں پہ کھڑے دیکھ کر اس نے اسے ٹوکا۔
’’ماما! ٹیچر نے آپ کے لیے یاددہانی کروائی ہے کہ کل پیرنٹس میٹنگ ہے اور آپ دونوں کو لازماً آنا ہے۔‘‘
’’جی بیٹا! مجھے یاد ہے اور اِن شاء اللہ کل آؤں گی۔‘‘
’’اور پاپا…؟‘‘ اس نے ایک آس سے ماں کو دیکھا تو وہ نظریں چراگئی۔
’’نہیں بیٹا، کل اُن کی بہت اہم میٹنگ ہے۔‘‘
’’وہ تو ہر دفعہ ہوتی ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں کچھ ٹوٹا تھا۔ ’’پیرنٹس میٹنگ ماما پاپا دونوں کے لیے ہوتی ہے۔‘‘
’’میری جان آپ تو اللہ کا شکر ادا کرو کہ آپ کی ماما آئیں گی، ورنہ بہت سے بچوں کے ماما پاپا دونوں ہی نہیں آتے۔‘‘ ماہم اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔ شمائلہ نم آنکھوں سے ماں کو دیکھتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ ماہم بے بس تھی۔
…٭…
’’مسٹر عباد نہیں آئے؟‘‘ میڈم نے ہمیشہ کی طرح اسے اکیلے دیکھ کر استفسار کیا۔
’’دراصل ان کے آفس میں بہت اہم میٹنگ تھی اس لیے وہ نہیں آسکے۔‘‘ ہر دفعہ کی طرح اس کا وہی جملہ سن کر میڈم کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔ پرنسپل ہونے کی وجہ سے ان کا ہر طرح کے والدین سے واسطہ پڑتا رہتا تھا، سو وہ ان کے مزاجوں سے بھی واقفیت رکھتی تھیں۔
’’مسز عباد! ہم آپ کے دونوں بچوں کی نصابی اور غیر نصابی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ایسا یقیناً آپ میاں بیوی کی توجہ سے ہوا ہوگا۔‘‘
’’حمزہ اور شمائلہ کی اچھی کارکردگی کے پیچھے صرف ہم میاں بیوی کا ہاتھ نہیں ہے، اسکول کے ماحول اور ٹیچرز کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘‘ ماہم کی جواباً تعریف پر میڈم ہنس پڑیں۔
’’جوابی تعریف کا بہت شکریہ۔ آپ کے بچوں کی تعریف تو ہر دفعہ ہوتی ہے لیکن آج میں نے آپ کو ایک اور بات کے لیے بلایا ہے۔‘‘ میڈم ٹیبل پہ تھوڑا سا آگے جھکتے ہوئے سنجیدگی سے بولیں۔
’’جی کہیے۔‘‘ میڈم کی سنجیدگی پر ماہم کچھ پریشان ہوگئی۔
’’مسز عباد! آپ کے گھر میں کوئی مسئلہ چل رہا ہے؟‘‘
’’نہیں تو…‘‘ میڈم کے سوال پہ وہ الجھی۔
’’دراصل شمائلہ کچھ وقت سے بہت ڈسٹرب رہنے لگی ہے۔ ہر دل عزیز اسٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے اس کی ڈسٹربنس تمام ٹیچرز نے نوٹ کی ہے اور پوچھا بھی ہے، لیکن وہ کچھ نہیں بتارہی ہے۔ ہم نے سوچا یہ بات آپ لوگوں کے نوٹس میں لائی جائے۔ یقیناً آپ کو اس کی الجھن کا پتا ہوگا اور آپ اس کا کوئی حل نکال لیں گی۔‘‘
میڈم کی بات پر وہ فکرمند ہوگئی۔ وہ شمائلہ کے کسی سوچ میں گم چہرے کو اس کی حساسیت سمجھتی تھی، لیکن یہاں تو بات ہی کچھ اور تھی۔
اسکول سے واپس آنے کے بعد ماہم بے چین سی پورے گھر میں پھر رہی تھی۔ بچوں کے آنے کے بعد وہ مسلسل شمائلہ سے بات کرنے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی جو اسے شام کو حمزہ کے باہر دوستوں میں جانے کے بعد، اور عباد کے آفس سے آنے سے آدھا گھنٹہ قبل مل گیا۔ وہ اپنی اور شمائلہ کی الجھن کا سرا ڈھونڈنے اس کے کمرے کے دروازے کو بنا آواز کیے کھول کر اندر داخل ہوئی، جہاں کے منظر نے اس کی بے چینی مزید بڑھا دیا۔ اس کا سر چکرانے لگا۔
’’شمائلہ یہ کیا ہے؟‘‘ وہ جو خود کو سب کی نظروں سے چھپا کر اپنے سامنے بکھرے دس، بیس، پچاس اور سو کے بہت سارے نوٹوں کی گنتی میں مصروف تھی ماں کو اچانک سے دیکھ کر بوکھلا کے کھڑی ہوگئی تو گود میں پڑے ڈھیروں نوٹ نیچے گرتے چلے گئے۔
’’یہ اتنے سارے پیسے تمہارے پاس کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ ماہم کا دل اسے جھنجھوڑ کر پوچھنے کو چاہ رہا تھا۔
’’امی… وہ… وہ…!‘‘ شمائلہ کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔
’’کیا وہ وہ لگا رکھی ہے، سچ سچ بتاؤ تمہارے پاس یہ پیسے کہاں سے آئے؟‘‘ آخر اس سے صبر نہ ہوسکا۔ آگے بڑھ کر اس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑتے مشکوک لہجے میں بولی۔ ماں کے اتنے سخت ردعمل پہ شمائلہ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا، جس پر ماہم مزید شک میں مبتلا ہوگئی۔ ’’کسی کے چوری کیے ہیں؟‘‘ آخر شک زبان پر آگیا۔
’’نہیں نہیں ماما! میں نے یہ پیسے چوری نہیں کیے ہیں۔‘‘ اس الزام پہ وہ تڑپ اٹھی۔ ’’آپ اور پاپا مجھے روزانہ جو جیب خرچ دیتے ہیں اس میں سے یہ جمع کیے ہیں۔ مجھے ان پیسوں سے ایک چیز لینی تھی۔‘‘ اس نے جھجھکتے ہوئے آدھا سچ بتایا۔ ماہم کچھ مطمئن ہوئی۔
’’بیٹا! آپ کو پیسے جیب خرچ کے لیے دیے جاتے ہیں، جمع کرنے کے لیے نہیں۔ آپ کو جو بھی چیز لینی تھی آپ مجھے یا اپنے پاپا کو بتا دیتیں، آپ کو وہ چیز مل جاتی۔‘‘
’’مجھے وہ چیز آپ سب سے چھپا کر لینی تھی۔‘‘ شمائلہ نے سر جھکاتے شرمندگی سے اعتراف کیا۔
’’ہم سب سے چھپا کر! ایسا کیا لینا تھا؟‘‘ بیٹی کی بات نے اسے حیران کردیا، کیوں کہ وہ بہت فرماں بردار اور ماں سے ہر بات شیئر کرنے والی بچی تھی، پھر اس کے بھی علم میں لائے بغیر چھپ کر کوئی چیز لینا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ شمائلہ بے بسی اور شرمندگی سے ہونٹ کاٹنے لگی۔ اس کی حالت پہ ماہم کو ترس اور پیار آنے لگا۔ اسے بیڈ پر خود کے ساتھ بٹھاتے ہوئے پیار سے بولی:
’’میری پیاری بیٹی کو ایسا کیا لینا ہے؟‘‘ ماں کے اتنے نرم اور مہربان انداز پہ اسے کچھ حوصلہ ملا ’’موبائل…‘‘
’’موبائل…؟‘‘ماں باپ سے چھپ کر لینے والی چیز کا نام سن کر اس کے اردگرد گویا دھماکہ ہوا۔ آج کل کی نسل کے موبائل کے ذریعے کھیلے جانے والے کھیل اور ان کے انجام اس کے چاروں طرف گونجنے لگے۔ اس کی دس سالہ بیٹی کا ذہن تو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ چھوٹا اور معصوم تھا اور اس نے دونوں بچوں کو موبائل کی دنیا سے کوسوں دور بھی رکھا ہوا تھا، پھر اس کی معصوم بیٹی کیسے اس راہ کی مسافر بننے جارہی تھی! اس سے کہاں پہ کوتاہی ہوگئی تھی! ماہم کے ماتھے پہ پسینہ چمکنے لگا۔ اس نے خود کو بہ مشکل سنبھالا۔
’’بھلا میری بیٹی کو موبائل کیوں لینا ہے؟ آپ کی عمر ابھی موبائل والی تو نہیں ہوئی ہے۔‘‘
’’میں یہ موبائل پاپا کے لیے لینا چاہتی ہوں۔‘‘ ماں کی حالت سے بے خبر وہ بولی۔ سادہ الفاظ میں بات کرنے والی بیٹی کی آج کوئی بات اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
’’پاپا کو گفٹ دینا ہے؟‘‘
شمائلہ نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’ماما! مجھے پاپا موبائل پہ دوستوں کے ساتھ باتیں اور ہنسی مذاق کرتے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ وہ ہم سب سے بھی ایسے ہی باتیں اور ہنسی مذاق کریں، مگر پتا نہیں کیوں وہ نہیں کرتے۔‘‘ وہ اداس ہوگئی۔
’’میں ان پیسوں سے موبائل لے کر پاپا سے دوستی کرنا چاہتی ہوں تاکہ ان کی دوست بن کر ان کی محبت، پیار اور توجہ حاصل کرسکوں۔‘‘ شمائلہ نے سادہ الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے ماں کو دیکھا۔ اس کی چمکتی آنکھوں میں باپ کی محبت کے لیے شوق اور حسرت دیکھ کر ماہم نے نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ اسے خود میں سمیٹ لیا۔
جب کہ داخلی دروازہ کھلا چھوڑ دینے کے سبب آفس سے واپس آیا عباد جو اس سنگین لاپروائی پہ غصے میں ماہم کو ڈھونڈتا شمائلہ کے کمرے کے دروازے پر ان کی باتیں سننے کے لیے رک گیا تھا بیٹی کے شوق اور خواہش پر اس کا سر شرمندگی سے جھک گیا اور چپ چاپ خاموش قدموں سے اپنے کمرے میں آکر ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑا موبائل بیڈ پر زور سے پٹخ دیا۔

حصہ