مسجد اور بازار

391

’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ ایک متاثر کن اصطلاح اور تصور ہے۔ اتنا متاثر کن کہ آنکھیں ہی نہیں دل و دماغ بھی اس کی تابانی سے خیرہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ آزاد منڈی کی معیشت بہر حال نبیادی طور پر سبزی منڈی کی معیشت ہے کیونکہ اس کا تعلق انسان کے پیٹ سے ہے۔ اس پیٹ سے جو انسان کے پورے وجود کا احاطہ کر چکا ہے۔
آزادی منڈی کی معیشت تو خیر بڑی چیز ہے، اس کے مقابلے پر صرف ’’معیشت‘‘ کے تصور کی کوئی اہمیت نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود معیشت کا تصور بھی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مرکزی اور بنیادی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ معاشروں اور ریاست کو مضبوط اور توانا درکھنا ہے تو معیشت کو مضبوط رکھنا ہو گا۔ کیونکہ معیشت کمزور ہو گی تو معاشرہ، ملک اور ریاست بھی کمزور ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں سوویت یونین کے انہدام کی ایک تازہ ترین اور ناقابلِ تردید قسم کی مثال بھی دستیاب ہو گئی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بارے میں کئی توجیہات موجود ہیں لیکن اہم ترین توجیہ یہی سمجھی جاتی ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر سوویت یونین کے وسائل کے سوتے خشک ہو گئے اور اس کی معیشت بیٹھ گئی جس کا نتیجہ ریاست کے حصے بخروں کی صورت میں سامنے آیا۔ اس تناظر میں دفاع اور سلامتی کے وسیع تصور میں معیشت کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آزادی منڈی کی معیشت اور معیشت کے سوٹڈ بوٹڈ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل نظر آنے والے ان تصورات کی مذکورہ اہمیت کا مفہوم کیا ہے؟

اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بقا اور استحکام کسی مذہبی عقیدے یا اخلاقی تصور کے بجائے دولت کی پیدائش اور اس کی فراوانی سے منسلک ہو گیا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم حضرت عیسیٰ سے منسوب قول کے حوالے سے سامنے آتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کا قول ہے کہ انسان صرف روٹی کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا ۔ آزاد منڈی کی معیشت اور معیشت کے عمومی تصور کی روشنی میں حضرت عیسیٰ کے اس قول کو الٹ دینے کی ضرورت ہے، یعنی انسان صرف روٹی کے سہارے زندہ رہ سکتا ہے۔ ایڈم اسمتھ نے معاشیات کو دولت کا علم قرار دیا ہے اور اس کا یہ خیال غلط نہیں لیکن ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد مبارک یاد رکھنا چاہیے جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ مسجد بہترین جگہ اور بازار بدترین مقام ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں دیکھا جائے تو معیشت کی بنیادی اہمیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور معاشرے اور ریاست کی بقا اور استحکام ایک بدترین مقام اور اس مقام کی بدلتی ہوئی صورتِ حال سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس حدیث پاک کی روشنی میں موجودہ بین الاقوامی اور مقامی نظام کی کس کس چیز کی جڑیں کٹ کر رہ جاتی ہیں اور اس کے بعد ایک نیا نظام کن خدوخال کے ساتھ ابھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسجد اور بازار میں تضاد کا رشتہ ہے؟

اس سوال کا جواب بیک وقت نفی میں بھی ہے اور اثبات میں بھی۔ نفی میں اس لیے کہ اصولی طور پر مسجد اور بازار میں تضاد کا رشتہ نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان درجہ بندی کا فرق ہے۔ مسجد مرکز ہے اور اس مرکز کے گردزندگی کا ایک وسیع دائرہ ہے جو مسجد کے محیط کی حیثیت رکھتا ہے اس دائرے کا ایک جزوبازار بھی ہے اور بازار اگر بدتر مقام ہے تو بہترین مقام کی نسبت سے ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ایک خوبصورت ترین ہرے کے سامنے معمولی خدوخال کا حامل چہرہ کم صورت نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مرکز اور محیط کے درمیان ایک مضبوط تعلق استوار ہے اور بازار کے تمام راستے مسجد کی طرف جاتے ہیں اور انہیں جانا ہی چاہیے۔ ہمارے مذہب میں تجارت اور طیب رزق کے حصول کی بڑی تاکید ہے اور ایماندار تاجروں کے مرتبے بلند بنائے گئے ہیں۔ تاہم مذکورہ سوال کا جواب اثبات میں اس لیے ہے کہ مسجد او بازار اردو متوازی حقائق نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان کم و بیش وہی نسبت ہے جو خدا اور انسان کے درمیان ہے۔ خدا نہیں تو انسان بھی نہیں مسجد نہیں تو بازار بھی نہیں اور اگر بازار کا ربط مسجد سے ٹوٹ چکا ہے تو پھر مسجد اور بازار کے درمیان مرکز اور محیط کا نہیں تضاد کا رشتہ ہے۔ تاہم اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو ہے۔

مسجد مرکز ہے اور بازار اس مرکز کے محیط کا ایک حصہ۔ تاہم اس کے باوجود بازار بہر حال ’’خریدو فروخت کا مرکز ہے۔ ایسا مرکز جہاں اشیاء و خدمات کی قدر کا تعین پیسے سے ہوتا ہے اور پیسے کے بغیر اس مرکز میں انسان کا گزر بے معنی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک طرح کی آلودگی (Impurity)بازار کے خمیر کا حصہ ہے اور اس آلودگی کے بغیر بازار وجود ہی میں نہیں آسکتا۔ واضح رہے کہ یہ بازار کی سادہ ترین شکل کی صورتِ حال ہے۔ دوسری جانب مسجد میں نہ کچھ خریدا جاتا ہے، نہ فروخت کیا جاتا ہے اور نہ وہاں ایسا ہو سکتا ہے۔ گویا مسجد اخلاص (Purity) کی علامت ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسجد اور بازار میں مابعد الطبیعیاتی قدر (Metaphisical value) کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے اور اسی تناظر میں ان کی کمتری اور برتری کا تعین ہوا ہے۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے اور اسی تناظر میں ان کی کمتری اور برتری کا تعین ہوا ہے۔ جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے تو اس میں بازار سے بازاری ذہنیت، بازاری زبان اور اس جیسی کئی تراکیب اور تصورات پیدا ہوتے ہیں اور یقیناً ان کا مسجد اور بازار کے باہمی تعلق سے گہرا ربط ہے۔

اسلامی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک طویل عرصے تک قرآن کی تعلیم اور مذہبی علوم کی تدریس و ترسیل کسی قسم کے معاوضے کے بغیر ہوتی رہی ہے۔ یہ محض ثواب دارین کے حصول کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس رویے کی پشت پر اخلاص کا تصور اور ان تمام معاملات کی مابعد الطبیعیاتی قدر کا شدید اور گہرا شعور کام کررہا تھا۔ یہ روایت صر ف اسلام اور اسلامی تاریخ سے مخصوص نہیں، ہندوئوں کے یہاں بھی رشی، منی اور برہمن مذہبی علوم کی ترسیل کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے۔ اس کے عوض معاشرہ رضا کارانہ طور پر اور خودکو خوش قسمت سمجھتے ہوئے ان افراد کی کفالت کرتا تھا بلکہ بعض افراد تو اس کفالت سے بھی صاف انکار کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ سقراط کے زمانے کے یونان میں بھی یہ تصورات موجود تھے۔ سقراط کو اپنے معاصرین پر جو سوفسٹ کہلاتے تھے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ معاوضہ لے کر فلسفہ پڑھاتے تھے اور سقراط کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ معاوضہ لینے والے اپنے شاگردوں میں ’’دانش کی محبت‘‘ کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
اس گفتگو کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ یہ دلیل غلط ہے کہ معیشت کو معاشرتی استحکام کے سلسلے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، صورتِ حال احوال سو فیصد یہی ہے۔ لیکن مذہب اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ صورتِ حال ایک بہت بڑے فساد (Abnormality)کی عکاس ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے کسی بھی صحت مند معاشرے کی بقا اور استحکام کا انحصار بازار پر نہیں ہو سکتا۔ اس بازار پر، معیشت جس کی توسیع شدہ شکل ہے۔ تو صاحبان و صاحبات! مسئلہ صرف یہی نہیں ہے کہ ہمیں اپنی معیشت کو سود سے پاک کرنا ہے بلکہ مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ہمیں معیشت کو اس مقام کی طرف دھکیلنا ہے جو اس کا اصل مقام ہے۔ غور کیجیے تو یہ مسئلہ سود کے خاتمے سے زیادہ بڑا ہے۔ کیا اسلامی انقلاب کے طالب اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے ان حقائق کا ادراک رکھتے ہیں؟

حصہ