آئین کے تحفظ میں عدلیہ کاکردار

260

قرآن کی روشنی میں انصاف کی فراہمی کے مشن کے ساتھ وومن اسلامک لائرز فورم 2009 میں اپنے قیام سے مسلسل جدو جہد کر رہا ہے۔ ول فورم خواتین وکلاء میں قانون کے بنیادی ماخذ قرآن و سنت کے اسلامی نظریے کوپھیلا رہا ہے۔ملیر بار ،کراچی و سندھ بارمیں خواتین وکلاء کے لیےقرآن فہمی کلاسز، ورکشاپس، آگہی لیکچرز اور لٹریچر کی تقسیم کا تواتر سے اہتمام کیا جاتا ہے ۔خاندان کوخصوصی ہدف رکھ کر بھی سرگرمیاں و موضوعات ترتیب دیئے جاتےہیں۔پیشہ ور وکیل ہونے کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انصاف سے محروم طبقات کے لیے جوینائل نابالغوں کی ، خواتین جیل اور دیگر جیلوں میں قید کمزور طبقات کے ملزمان کی قانونی معاونت ، رہنمائی اور تربیت کے امور میں بھی معاونت کی جاتی ہے تاکہ وہ لوگ باعزت حلال روزگار کے ساتھ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔اس کے لیے کمپیوٹر کی تعلیم، تربیتی ورکشاپس سے لیکر وکالت ناموں تک میں حصہ ملایا جاتا ہے ۔ول فورم کا شعبہ ریسرچ بھی ہے جو قانون سازی و دیگر امور پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ معلومات جمع کرتا ہے ، تحقیقی مقالے اور سفارشات مرتب کرتا ہے ۔ حالیہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے سلسلے میں مکمل قانونی امور میں رہنمائی و مشاورت بھی کی گئی۔مقامی حکومتوں کے اختیارات پر ایک آئینی ترمیمی بل 2022 ،تیار کیا گیا جو کہ آئین کے آرٹیکل140 الف اور آرٹیکل160 سے متعلق تھا۔ان کوششوں کےعلاوہ “آئین پاکستان کے تحفظ “اور اس میں عدلیہ کے ساتھ وکلاء کے کردارپر گذشتہ دس سال سے ،مستقل توجہات، سفارشات مرتب کر کے آگہی کے ساتھ ساتھ متعلقہ حکام تک بھیجی جا تی ہیں۔
امسال بھی سٹی کورٹ جناح آڈیٹوریم میں آئین کے تحفظ اور عدلیہ کے کردار کے موضوع پر دسواں سالانہ کنونشن 15 اکتوبر کومنعقد کیا گیا۔کنونشن میں شہر بھر کے مرد و خواتین وکلاء کی بڑی تعداد شریک تھی۔کنونشن کے موضوع پر بات کرنے کے لیے عدلیہ ، وکلاء، سیاسی رہنماوں ، انتظامیہ سمیت سب کو دعوت دی گئی تھی۔کنونشن کے مہمان خصوصی اسلام آباد سے تشریف لانے والے ، جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان تھے۔ ان کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی، سندھ اور کراچی بار کونسل صدورکے علاوہ سینئر وکلا ء بھی بطور مہمان شریک تھے۔
چیئر پرسن ول فورم ایڈووکیٹ طلعت یاسمین نے سینیٹر مشتاق احمد سمیت تمام مہمانان کی آمد پر شکریہ ادا کیا اور کنونشن کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام اور اداروں میں پھیلی بے چینی کے حل کو تلاش کرنا ہے۔ بطور وکیل بینچ اور بار کے تعلق سے بات کرنا اور حل نکالنا وقت کی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان کی پامالی ، اسکے خلاف قانون سازی ، صوبائی خود مختاری کا معاملہ اور خودساختہ تشریحات نے ایسے مسائل پیدا کیے ہیں جوعوام کے بنیادی حقوق کا حصول مشکل کر رہی ہے۔معاشرے میں پھیلی بدامنی کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی ،نوجوانوں کا مسلسل استحصال ہورہا ہےان کی صلاحیتوں کو پاکستان کی بقا کےلیےاستعمال کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے،خواتین کی بڑی تعداد کو شدید معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔آرٹیکل 239 کے تحت ترامیم کرنے کے لا محدود اختیارات اور کسی عدالت میں اعتراض نہ اٹھانے کا اختیار قرارداد مقاصد سے ٹکراتاہے۔ ہم آئین پاکستان کے آرٹیکل 227کا نفاذ چاہتے ہیں جس کےمطابق کوئی قانون اللہ کے احکامات کے خلاف نہیں بنایا جائے گا اور بنے ہوئے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا جائے گا ۔عدلیہ نے چوکیداری کے بجائے کہاں چور دروازے کھولے ہیں ، اس کابھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔معزز جج صاحبان سے ہماری یہ گزارش ہے کہ اپنے فیصلوں میں قران وسنت کو اولین ترجیح دیں تاکہ لادینیت و بے راہ روی کے راستےمسدود ہوں۔عدل و انصاف انکی منصب کی بنیادی ذمہ داری ہے اسی کےذریعےآئین پاکستان کی حفاظت ہوگی اور ریاستی ادارے مضبوط ہونگے۔ آئین پاکستان ہمیں وہ چھتری فراہم کرتی ہے جس کے اندر رہ کر قرآن و سنت کے خلاف کوئی چیز نہیں لائی جا سکتی۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے کنونشن کے تمام مقررین کی گفتگو کی توثیق کی اور ول فورم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ آئین ہی ہمارے حال، ماضی اور مستقبل کا آئینہ دار ہے، اس کو مستقل موضوع بحث بنانا وکلاء، سول سوسائٹی، علماء، اساتذہ سب کی ذمہ داری ہے۔دستور کے تحفظ کا پہلاطریقہ یہ ہے کہ کسی طالع آزما، سے اس کو بچانے ، اس کو معطل یا منسوخ کرنے کے لیے ہم دیوار بن جائیں اور ساتھ ساتھ اس کے تقاضوں کو پورا کریں۔ انہوں نے کنونشن کے عنوان کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے بغیر پاکستان کمزور ہے، جب ہمارے پاس دستور نہ تھا تب ہم نے آدھا ملک گنوادیا۔اگر عوام کو ان کے بنیادی حقوق ملتے تو عوام کو دستور کے ساتھ محبت ہوتی۔دستور اسلامی شناخت کی بات کرتا ہے، دسیوں آرٹیکلز واضح طور پہ بتاتے ہیں کہ سپریم لا قرآن و سنت ہے۔1973 کے دستور میں سود سے فوری طور پہ چھٹکارا پانے کالکھا ہے مگر یہ فوری طور کا مطلب سو سال ہے یا دو سو سال یہ کون بتائے گا؟میں سوال کرتا ہوں مخالف سیاسی جماعتوں کے اراکین جوایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھتے تو غیر شرعی بل کو کے لیے کیسے ایک زبان ہو جاتے ہیں؟اس سب کے پیچھے کون ہے؟انہوں نے کہاکہ یہ آزادی ایک ڈھکوسلہ بن گئی ہے ، ہم بالکل غلام کی مانند ہیں۔ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکن حل ڈھونڈ رہے ہیں، اس لیے سیاسی جماعتیں امید رکھنے کے قابل نہیں ۔ عوام کو توقع وکلا سے ہے،جو محروم طبقات کودستور میں موجود حقوق دلا سکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پارلیمنٹ نے ٹرانس جینڈر ایکٹ ، فیملی لاز ، پیرنٹ پروٹیکشن کے نام پر ایسے خطرناک قوانین پاس کیے ہیں جو خاندان کے لیے بم کی مانند ہیں ۔انہوں نے کہاکہ 64فی صد گیس صوبہ سندھ بناتا ہے مگر اس کے استعمال اور تقسیم کاحق اس کے پاس نہیں ، قدرتی معدنیات کے اوپر صوبوں کو ان کاحق نہیں دیاجارہاجبکہ یہ حقوق صوبے کو آئین دیتا ہے۔سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ ہمارے ججوں کی مراعات اقوام متحدہ کے افسران کی مراعات سے بھی بڑھ کر ہیں،کچھ عدالتیں صرف سیاستدانوں کے لیے بنائیں تاکہ عوام کا وقت بچے، ان میں جج وہ بیٹھیں جن کو میڈیا پہ آنے کا شوق ہو۔17.4ارب جو کہ بجٹ کا 50%ہے، پاکستان کی رولنگ ایلیٹ کی مراعات میں جاتاہے، یوں ہمارے غریب مالداروں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ اس ظلم کے نظام کے ساتھ کوئی معاشرت نہیں چل سکتی ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ظلم سے بغاوت کریں اور ظلم کی زنجیروں کو توڑیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن، ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ظلم کے نظام کے ساتھ کوئی معاشرہ نہیں چل سکتا، انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر مسئلے میں قرآن و سنت کو رہنما نہ بنائیں تو ہم مسلمان نہیں ہو سکتے۔اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھیں تو ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں سلامی فلاحی ریاست بناسکتے ہیں۔مغربی تہذیب کے سیلاب نے ماڈرن ازم، الٹرا ماڈرن ازم اور سیکیولر ازم کو پھیلایا،اقبا ل نے اجماع اجتہاد وحی اور کے تناظر میں اسلامی ریاست کاتصور پیش کیا۔آئین پاکستان کے تحفظ میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اقتدار اعلیٰ کی تعریف کو تحفظ دیا ہے، جو سب لبرلزکو تکلیف دیتی ہے۔
کنونشن میں سندھ بار کے صدر بیرسٹر شہاب سرکی نے کہاکہ آئین کے برخلاف اور نظریہ ضرورت کے تحت جانے کے انجام سے ہم دوچار ہیں جو غلطیاں ماضی سے جاری ہیں۔اداروں کو سنبھلنے کے لیے اب انقلاب کی ضرورت ہے ،ہم تو شہید بھی دے چکے مگر ا ن کے کاموں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔نئے وکلا ء سے امید ہے کہ وہ کچھ بہتری لا سکیں۔
کنونشن میں ڈی آئی جی وومن جیل خانہ جات شیبا شاہ بھی شریک تھیں، انہوں نے بتایا کہ ول فورم سمیت دیگر اداروں کی مدد سے وہ خواتین اور بچوں کے لیے جیلوںمیں کئی طریقوں سے مدد کی جا رہی ہے۔کوئی ایسی خاتون یا بچہ جیل نہیں کاٹ رہا جس کے پاس وکیل نہ ہو۔کوئی ایسا بچہ یا خاتون نہیں جو کسی جرمانے کی عدم ادائی کی وجہ سے قید میں ہو۔ ججز بھی ضمانتیں اور جرمانوں میں ہماری خصوصی سفارش پر مخصوص کیسز میں رقم کی کمی کر دیتے ہیں۔ قیدیوں اور انکے رویوں میں بہتری لانے کے لیے پوری ترجیح میں کام جاری رکھا ہوا ہے۔
سینئر ایڈووکیٹ نعیم قریشی نے ول فورم کی جانب سے اس موضوع کی اہمیت ، اسکو زندہ رکھنے اور اس پر تواتر سے بات کرنے کو سراہا۔نظام انصاف کےحقائق بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ نظام عدل میں بیرونی مداخلت کا بڑھنا تشویش ناک ہے ، ریٹائرڈ ججز کو اپائنٹ کرنا ، سینیارٹی کو لپیٹ کرنوجوان اے ڈی جیز کے مستقبل پر سوال پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اگر آئین کوایسے کر کے اپنی مرضی سے تمام چیزیں کریں گے تو نظام لپیٹ دیا جائے گا۔
کراچی بار کے صدر ایڈووکیٹ اشفاق گیلال نےموضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا تحفظ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔کراچی بارکی آئین کی حفاظت کے لیے بڑی قربانیاں ہیں، ہمارے پاس شہداء کی طویل فہرست ہے۔اصل ذمہ داری ہماری اعلیٰ عدلیہ کی ہے ،جس نے سمجھوتا کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو آئین کی پامالی تک آیا۔
ایڈووکیٹ ضیاء اعوان نے آئین کی اہم شقوں پر عمل نہ ہونے کے عمل پر بات کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 25 اے کے مطابق ملک کے تمام بچوں کو اسکول بھیجا جائےگا ،مگر وہ اسکول کہاں ہیں؟سماج کے کمزور افراد کے لیے آئین خصوصی اقدامات کرنے کی ہدایت دیتا ہے،مگر ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔عدلیہ اور بار کو آزاد کرنا ہوگا،ہائی کورٹ میں نئے کیسز نہ لگنے کی غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے۔ججز اور وکلاء کا احتساب نہیں ہوگا تو عدلیہ کا کوئی کردار نہیں نظر آئیگا۔ مسلم معاشرے میں جج کا کردار ضرور سامنے لانا چاہیے۔
ملیر بار کی نائب صدر ایڈووکیٹ عروج اخلاص نے کہاکہ ہمارا آئین نمایاں مقام رکھتا ہے، اس کےتحفظ میں وکلاء و ججز نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔آئین پر عمل درآمد کرانا بھی عدلیہ کے کاموں میں سے ہے۔ عدلیہ کے لیے آئین بھی ایک اہم ستون ہے ،مگر بدقسمتی سے نظام انصاف میں تاخیر نے بہت مسائل پیدا کیے ہیں۔فیملی کورٹ میں خواتین ججز کا تقرر ہونا چاہیے ، ججز کی تعداد میں کمی کو میرٹ پر پورا کرنے کی ضرورت ہے ، جس سے عوام مستفید اور آئین کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔صدر اسلامک لائر فورم ایڈووکیٹ عبد الصمد خٹک نے کہاکہ وی آئی پیز کے لیے الگ اور عام آدمی کے لیے الگ طرز عمل ہوگا تو عدلیہ پر سوال اٹھیں گے۔سینئر وکیل سید شاہد ایڈووکیٹ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ آئین کا تحفظ میرٹ کو مد نظر رکھ کرقانون پر عمل درآمد کرنے سے اور درست لوگوں کو ووٹ دینے سے ہوسکےگا۔
قبل ازیں عائشہ شوکت ایڈووکیٹ نے ول فورم کے کاموں اور سالانہ کارکردگی پر مبنی تفصیلی پریزینٹیشن پیش کی، جسے شرکاء نے بے حد سراہا۔معزز مہمانان میں ول فورم کی جانب سے یادگاری شیلڈ اور تحفہ بھی پیش کیا گیا۔کنونشن کے اختتام پر آئین کے تحفظ ،قرآن و سنت کی بالادستی اور غیر شرعی قوانین کے خاتمے سے متعلق ایک قرارداد پیش کی گئی جسے تمام شرکاء نے منظور کیا۔ قومی ترانے اور دعا پر وومن اسلامک لائرز فورم کے دسویں سالانہ کنونشن کا اختتام اس عزم کے ساتھ ہوا کہ بطور مسلمان وکیل اور پاکستانی ہمیں شعوری کوشش کرتے ہوئے قرآن و سنت کو ہی اپنا اصل امام بنانا ہے۔
nn

حصہ