حل صرف صالح اور دیانت دار قیادت

306

دنیا کی نظروں میں قوموں کے عروج وزوال کا انحصار مادی عوامل و عناصر پر ہے، لیکن قرآن نے اس چیزکو انسانوں کے’’اعمال واخلاق‘‘ کے ساتھ جوڑا ہے۔
آج وطنِ عزیز کے متعلق گفتگو ہو تو افسردگی اور قنوطیت کی فضا دیکھنے میں آتی ہے۔ مذمت، تبرے بازی اور برائیوں کی نہ ختم ہونے والی داستان ہوتی ہے، اور اکثر لوگ غیظ وغضب کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس بہترین قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں، ہم بہترین خطے میں آباد ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم دنیا میں بے وزن ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ ’’لیڈر‘‘جو قوم کی ’’رہنمائی‘‘ کررہے ہیں، کیا اُن کے ہاتھوں پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے؟ ان کے زیر سایہ ہم عروج کی طرف بڑھ رہے ہیں یا تیزی سے پستی کی جانب جا رہے ہیں؟
وطنِ عزیز میں قومی نمائندے ووٹوں کے ذریعے چُنے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو ووٹ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ ووٹ کو محض سیاسی ہار جیت اور کھیل سمجھنا بڑی غلطی ہے۔
ووٹ کی اہمیت: کسی مجلس کی رکنیت کے لیے جو شخص امیدوار ہوتا ہے وہ دراصل اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت دار بھی ہے۔ جو شخص اہل ہی نہ ہو اُس کا کامیاب ہونا ملک و ملت کے لیے خرابی کا سبب بن جاتا ہے اور اس کو ووٹ سے کامیاب بنانے والے شریکِ جرم ہوتے ہیں۔
ووٹ ایک شہادت ہے۔ جھوٹی شہادت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
ووٹ ایک تعاون ہے۔ قرآن و حدیث میں نیکی اور پرہیزگاری میں تعاون کا حکم ہے، اورگناہ اور زیادتی میں تعاون کرنے سے روکا گیا ہے۔ ووٹ ایک سفارش ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اِس میں اُس کو بھی حصہ ملتا ہے، اور جو بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں اس کا بھی حصہ ہے۔‘‘
اپنے ووٹ کے ذریعے نااہل اور ظالم وفاسق کو خلقِ خدا پر مسلط کرنا بدترین سفارش اورظالموں کی مدد ہے۔ پیسے لے کر ووٹ دینا بدترین رشوت ہے۔ سچی شہادت کو چھپانا ازروئے قرآن حرام ہے(البقرہ)۔ اگر کسی حلقے میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنوں میں قابل اور دیانت دار نہ ہو تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے نسبتاً بہتر فردکو ووٹ دینا لازمی ہے۔ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا امیدوار اپنے پانچ سالہ دور میں جو نیک یا بدعمل کرے گا ہم اس کے شریک سمجھے جائیں گے۔ ارشادِ نبویؐ ہے ’’جب امانت بربادکردی جائے تو قیامت کا انتظارکرو۔‘‘ پوچھا گیا اس کی بربادی کیسے ہوتی ہے؟ فرمایا ’’جب ذمہ داری کسی نااہل کو دے دی جائے۔‘‘
حاصلِ کلام یہ کہ نیک، صالح اور قابل فرد کو ووٹ دینا موجب ثوابِ عظیم ہے، جب کہ نااہل اور فاسق و ظالم کو ووٹ دینا نہ ختم ہونے والے وبال کا باعث ہے۔
دین سے دوری: امام ابن عقیل فرماتے ہیں ’’میں نے لوگوں کے احوال کو دیکھا تو بڑا ہی عجیب معاملہ پایا، وہ گھروں کے اجڑنے پر روتے ہیں، پیاروں کی موت پرآہیں بھرتے ہیں، معاشی تنگ دستی پر حسرتیں کرتے ہیں… حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت گر رہی ہے، دین فرقوں میں بٹ چکاہے، سنتیں مٹ رہی ہیں اور بدعات کا غلبہ ہے، گناہوں کی کثرت ہے لیکن اپنے دین پر رونے والا ان میں سے کوئی نہیں، اپنی عمر برباد کرنے پرکسی کو افسوس نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دین ان کی نظروں میں ہلکا ہوگیا ہے اور دنیا ان کی فکروں کا محور بن چکی ہے۔ (الآداب الشریعہ)
خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے۔ دین ہماری نظروں میں ہلکا ہوا تو ہم مالکِ ارض وسما کے حضور بے وزن ہوکر رہ گئے۔ ہماری دعائیں اور التجائیں سب ناقابلِ التفات ٹھیریں اور ہم روزبہ روز نہ ختم ہونے والے مسائل میں گھرتے چلے گئے۔ ہمارا میڈیا زہر اُگل رہا ہے، نظامِ تعلیم برباد ہوچکا ہے، احکامِ الٰہی پامال ہورہے ہیں، ہم سودی نظام میں بری طرح گھرچکے ہیں، نوجوان نسل تیزی سے دین بے زاری کی راہ پرگامزن ہے اور ہم صرف مہنگائی کے جن کو قابو میں لانا چاہتے ہیں۔ ہماری قوم بار بار اُنہی لوگوں کو ووٹ دیتی ہے جو ہماری نسلوں کو دین سے نفرت سکھا رہے ہیں، جو ڈالر کے عوض دین بیچ رہے ہیں۔ یہاں کوئی ادنیٰ انسان چوری کرتا ہے تو اس پر قانون کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے اور مترفین اپنی عیاشیوں کے لیے ملکی وسائل ہضم کرتے، ڈالر خریدتے اور خزانے خالی کرتے ہیں لیکن اس پر بھی لوگ آنکھیں بندکرکے بار بار انہی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیتے ہیں کہ کیا کریں اورکوئی لیڈر ہی موجود نہیں۔
ہم خلوصِ دل سے قوم کو دعوت دیتے ہیں کہ اب کی بار جماعت اسلامی پر اعتماد کریں، اپنا قیمتی ووٹ جماعت اسلامی کو دے کر اسے خدمت کا موقع دیں۔ آزمائے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے بجائے اُن لوگوں کو سامنے لائیں جو طویل عرصے سے، تسلسل کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود اور دین کی سربلندی میں مصروف ہیں، جن کے دامن کرپشن کے ہر داغ سے پاک ہیں۔
جماعت اسلامی نے ہر سطح پر حکومتی ایوانوں میں کسی بھی دوسری جماعت کی نسبت سب سے بڑھ کر عوامی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ غیر اسلامی قانون سازی کے خلاف آواز اٹھانے میں ہمیشہ پہل کی۔ اہلِ وطن نے مشکل کی ہرگھڑی میں جماعت اسلامی کو خدمت کے لیے پیش پیش پایا۔ زلزلہ و سیلاب ہو یا کسی وبا کا زور… مظلوم طبقے ہوں یا قحط کے مارے لوگ… جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن نے ہمیشہ محدود وسائل کے باوجود دکھی انسانیت کی پورے خلوص کے ساتھ خدم کی۔ اس کے کسی رکن کے دامن پر غبن اور خیانت کا کوئی دھبہ ثابت نہیں کیا جاسکا۔ پھر ہماری جماعت ہی کو ملک کی سب سے بڑھ کر جمہوری پارٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہاں غریب سے غریب فرد بھی بہترین کارکردگی کی بنا پر نمایاں مقام حاصل کرسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد صرف الیکشن کے دنوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ سال کے بارہ مہینے اور ہفتے کے سات دن بفضل ربی ہم دعوت و اصلاح اور فلاحِ انسانیت کے لیے مصروفِ کار ہیں۔ بہت سے لوگ دینِ اسلام کی پابندیوں سے دامن بچانے کے لیے ہمیں ووٹ دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اسلامی نظام کی برکات سے بے خبر ہیں۔ ان کی مثال اُس شخص جیسی ہے جو سونے کی کان تک صرف اس لیے پہنچنا نہیں چاہتاکہ ہزاروں قدم دھوپ میں چلنا پڑے گا۔
فاسد قیادت کے ہاتھوں فلاحی ریاست کی تعمیر ناممکن ہے۔ لہٰذا دجالی میڈیا اورگمراہ کن لیڈروں کے بیانات پر اعتماد نہ کریں، ان کی دولت اور ظاہری شان و شوکت کو قطعی اہمیت نہ دیں۔ ہمارے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ اُن امیدواروں کو ووٹ دیں جو امانت دار، صالح اور باصلاحیت ہوں۔

حصہ