دہر میں اسم محمدﷺ سے اجالا کردے

279

خدائے بزرگ و برتر کی رحمتوں کے طفیل ذکرِ محمدؐ کی ایک پُرنور محفل حریم ادب کراچی اور آرٹس کونسل کراچی کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ در وبام نکہتِ گل سے مہکائے، عقیدت سے جبیں کو جھکائے، محبتوں کے گلدستے سجائے بڑی تعداد میں خواتین نبی آخر الزماںؐ کے ذکر سے معطر محفل میں موجود تھیں۔ پروگرام کی میزبانی کے فرائض ثریا ملک انجام دے رہی تھیں۔ تقریب کا آغاز وجد آفریں تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔
اس کے بعد تحریم حمزہ نے اپنی خوبصورت آواز میں حمدِ باری تعالیٰ پیش کی۔ مسفرہ غوث نے اپنی دلنشین آواز میں خوبصورت نعتیہ کلام پیش کیا۔
تقریب کی مہمان خصوصی نگرانِ اعلیٰ حریم ادب اسماء سفیر تھیں۔ عشرت زاہد نے استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے حریم ادب کے اغراض و مقاصد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حریمِ ادب کراچی کا بنیادی مقصد معاشرے کے مثبت اہلِ قلم کو مربوط و متحرک کرنا اور ادب میں مثالی اقدار اور تہذیب کو متعارف کروانا ہے، ادبی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے، ادبی نشستوں اور ادبی کنونشن کا انعقاد، تربیتی ورکشاپس، لیکچرز اور سالانہ مجلے کی اشاعت کروانا ہے۔ انہوں نے سیکریٹری جنرل حریمِ ادب غزالہ عزیز کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اللہ سے امید کرتے ہیں کہ جب محبوبِ خدا محمد مصطفیؐ کی مدحت سرائی کریں گے تو اجر تو ملے گا ہی، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انؐ کی حیاتِ طیبہ پر عمل کرنے اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش بھی کریں۔
مشاعرے کی نظامت کے فرائض اسریٰ غوری اور نو جوان شاعرہ سمیرا غزل نے انجام دیے۔ نعتیہ مشاعرہ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی زیر صدارت تھا۔
سمیرا غزل نے کہا: ’’انوار و تجلیات بھری یہ محفل اس عظیم داعی ِاعظمؐ کی عقیدت کی یاد ہے جس نے کوہِ فاران کی چوٹیوں سے ابھر کر، مکے کی بے آب و گیاہ وادیوں سے نکل کر طاغوتی قوتوں کو مسخر کیا۔ جس نے یورپ کے قلب میں نعرۂ تکبیر بلند کروایا اور اسپین کے ساحل پر اپنی کشتیاں جلائیں۔
اسریٰ غوری نے صدرِ محفل کی اجازت سے مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا، اورسب سے پہلے شاعرہ اور ادیبہ سمیرا غزل صاحبہ سے اپنا کلام پیش کرنے کی درخواست کی۔
ہے عطا جو شاعری کی
مل رہی ہے یاوری بھی
نعت جب ان کی کہوں گی
ہو گی پھر قسمت گری بھی
اس کے بعد مشہور شاعرہ اور بچوں کی ادیبہ طاہرہ فاروقی نے اپنے مخصوص مترنم لہجے میں خوبصورت نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس کے بعد ادیبہ فریال صاحبہ نے نعت، اور شاہدہ خورشید نے اپنا کلام پیش کیا۔
میڈیکل کی طالب علم اور شاعرہ نور العلمٰی نے اپنے خوبصورت کلام سے جذبات کو گرمایا۔ اس کے بعد ضیا الدین یونیورسٹی کی پروفیسر حنا عنبرین طارق کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنے خوبصورت کلام پر ڈھیروں داد وصول کی۔ پروفیسر حنا کے بعد زینت کوثر لاکھانی نے اپنے کلام کی سماعت کا شرف بخشا۔
ثریا ملک نے حریم ادب کا تعارف اور سرگرمیوں کی تفصیل پیش کی۔ مہمانِ خصوصی نگرانِ اعلیٰ حریمِ ادب اسماء سفیر نے کہا کہ آج ہم چراغاں کرکے اور جھنڈے لگاکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حضور اکرمؐ سے محبت کا حق ادا کردیا، جبکہ جس دور میں نبیؐ مبعوث ہوئے تو لوگوں نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے اپنے عمل تبدیل کیے، اور عمل تبدیل ہوئے تو معاشرہ تبدیل ہوا، اور معاشرہ تبدیل ہوا تو انقلاب برپا ہوا۔ حضورؐ سے محبت ان کی پیروی کا تقاضا کرتی ہے۔آج معاشرے کی ابتری کا عالم یہ ہے کہ آئے دن کوئی نیا فتنہ سر اٹھا لیتا ہے۔ ملک میں ٹرانس جینڈر بل منظور ہونے جارہا ہے۔ ایسے قانون کو پاس نہ ہونے دیں جس کی وجہ سے ہمیں اللہ اور نبیؐ کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
اسماء سفیرکے خطاب کے بعد اردو ادبیات کی استاد ڈاکٹر نزہت عباسی نے سیرتِ طیبہؐ کو خوبصورت منظوم انداز میں پیش کیا اور خوب داد وصول کی۔ ان کے بعد شاعرہ اور مصنفہ آمنہ عالم تشریف لائیں اور اپنا خوبصورت کلام نذرِ سامعین کیا۔
حاضرینِ محفل پُرکیف نعتیہ مشاعرے کے دوران گاہے بہ گاہے درود و سلام کے نذرانے بھی پیش کرتے جارہے تھے۔ ان کے بعد شاعرہ اور افسانہ نگار فاطمہ حسن نے اپنا کلام پیش کیا۔ انہوں نے اپنے پہلے عمرے کی جذباتی کیفیات کو اپنی شاعری میں سمو کر سرورِ کونینؐ کے دربار میں اپنی حاضری کا احوال بتایا:
سب ہی راہیں یہاں کی معتبر ہیں
سمیٹوں خاک میں کس کس گلی
شاعرہ نسیم نازش نے اپنی مترنم آواز میں اپنی عقیدت کا نذرانہ بارگاہِ رسالت ؐ میں اشعار کی صورت میں پیش کیا۔ آخر میں صدرِ مشاعرہ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے اپنا کلام پیش کیا:
دشتِ احساس میں جگنو چمکے
نامِ احمد جو لیا صلی اللہ
ہے تقاضہِ محبت و وفا
رسمِ تسلیم و رضا صلی اللہ
اس کے ساتھ ہی انوار و تجلیات سے سجی محفل اختتام پذیر ہوئی۔ سیکریٹری جنرل غزالہ عزیز نے اختتامی دعا کروائی اور حاضرین اس پاکیزہ محفل کی یادیں لیے رخصت ہوئے۔

حصہ