پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال
(چھٹی قسط)
س: 1977ء تک پاکستان کی سیاست نظریاتی سیاست تھی،سیاسی جماعتیں نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتی تھیں،لیکن جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد ہماری سیاست غیر نظریاتی ہوتی چلی گئی اور اب وہ یا تولسانی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر آپریٹ کررہی ہے،یا پھر وہ سرمائے کی بنیاد پر کام کررہی ہے یا پھر وہ اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہمیں نظر آتی ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کو دوبارہ نظریاتی سیاست میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میرے خیال میں آپ کے بنیادی مفروضے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ اسلامی ریاست کی داعی تھی، پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الااللہ کی تعبیر اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد اور خصوصاًقائد ملت کی شہادت کے بعد ہماری سیاست عصبیتوں اور طبقاتی نظام کی علم برداروںکی سیاست ہو گئی، اس میں ایوب خان نے فوج کو بھی ملوث کر دیا چنانچہ بعد میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا تسلسل تھا۔ جنرل ضیاء الحق بھی بظاہر ـ ’’اسلامیت ‘‘ـ کی ڈھال سے اپنا دفاع کرتے رہے۔لیکن وہ اور ان کے رفقاء دس سال تک قرآن و سنت کے نظام کے قیام کو ترجیح اول ثابت نہیں کر سکے۔ ان کی اسلامیت بھی مسلم لیگی اسلامیت سے آگے نہیں بڑھی، اس لیے انھیںنظریاتی کہنا یا ان کے پروردہ سیاسی کرداروں کو نظریاتی کہنا حقیقت واقعہ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔یہ سب معمولی فرق کے ساتھ اقتدار پر قابض رہنے والے افراد تھے۔
س: آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نظریاتی پارٹی اور سیاست تھی ہی نہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: جی، حتیٰ کہ وہ پارٹی بھی جسے کچھ عرصہ بظاہرغیر قانونی قرار دیا یعنی ممنوع قرار دیا گیا۔ سوشلسٹ فکرکے حامل جو مختلف ناموں سے آئے اُن کا نظریہ بھی کوئی نظریہ نہیں تھا، بلکہ وہ بھی سارے کے سارے مفاد پرست سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے افراد تھے جو ذاتی اقتدار کی جدو جہد میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی نظریاتی سیاست کرنے والا اگر کہتا ہے کہ سوشلزم مسائل کا حل ہے جب کہ وہ خود مالک ہوساٹھ ہزار ایکڑ کا تو کیا یہ نظریاتی سیاست ہے؟ اس میں نظریہ ہے کہیں پر؟ جو دائیں اور بائیںکا تصور برطانیہ یا امریکہ میں پایا جاتا ہے، ہمارے ہاں اس کا وجود ہے ہی نہیں سرے سے۔ بلکہ ہمارے ہاں سیاست موروثی مفاد پرستوں کی رہی ہے، بس نام بدل کر آجاتے ہیں، اس لیے یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ اس کا دور ختم ہوگیا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو نظریہ اسلام نے دیا ہے اور جو نظریہ دیگر افراد کا ہے، یہ دو نظریات روزِِ اوّل سے ہیں اور رہیں گے۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ پاکستان کے تناظر میں اسلامی جماعت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت جو اسلام کی علَم بردار ہو۔ اسلامی نظریۂ حیات کا نفاذ ہر شعبے میں چاہتی ہو۔ وہ جماعت جو کھلم کھلا مسلک کی علَم بردار ہو اُسے مسلکی جماعت کہنا ہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں، یا آپ جمعیت علمائے پاکستان ہیں یا جماعت اہل حدیث کے نمائندہ ہیں یا نفاذِ فقہ جعفریہ کے نمائندہ ہیں، تو ان ناموں کے ساتھ کیا یہ جماعتیں اسلام کی علَم بردار جماعتیںکہلائی جا سکتی ہیں جب کہ سرکاری طور پر وہ مسلکی جماعتیں ہوں؟ یہ تقسیم ہی غلط ہے۔ اگر کہا جائے اسلامی، تو اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ جماعت مسلکی نہ ہو اور اسلام کی ہو۔ لیکن چونکہ ہم نے ان تمام اصطلاحات کو گڈمڈ کیا ہوا ہے، اور بعض اصطلاحات ہماری مستعار ہیں۔ مغربی ابلاغ عامہ کسی کو فنڈامنٹلسٹ، بنیاد پرست،کسی کو رائٹسٹ یا لیفٹسٹ کہتے ہیں، ہم اسی کو صحافت میں عام کردیتے ہیں، اس پر حاشیے لکھتے ہیں، کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پر اس پر گفتگو کی جاتی ہے، حالانکہ ہمارے یہاں ان اصطلاحات کا استعمال کیا جانا قطعاً مناسب نہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ فلاں فلاں ہے۔ بشمول مسلکی جماعتوں کے کس نے فوج اور بیوروکریسی سے رشتہ نہیں جوڑا؟ مجھے بتائیے کون سی جماعت ہے جو خود کو حقیقتاً نظریاتی ثابت کرسکتی ہے؟ہاں جب تک اسلام ایک مکمل نظام مانا جاتا رہے گا اُس وقت تک جو اس کے علَم بردار ہیں وہ اسلامی جماعت کہلائیں گے، اور وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ باقی افراد اپنا کوئی بھی نام رکھ لیں وہ بنیادی طور پر ایک مسلک کی بنیاد پر، ایک عصبیت کی بنیاد پر، ایک علاقائیت کی بنیاد پر، لسانیت کی بنیاد پر اپنا وجود رکھتے ہیں، ان کو ہم نظریاتی نہ کہہ سکتے ہیں، نہ کہنا چاہیے۔
س: پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ نہ اسلامی بن سکا، نہ جمہوری بن سکا، نہ سیکولر بن سکا، نہ لبرل بن سکا۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ جو ہماری فوجی اور سول اشرافیہ ہے اُس کا دراصل کوئی نظریۂ حیات ہی نہیں ہے، اور وہ معاشرے کو نظریاتی اعتبار سے چوں چوں کا مربہ بنا کر رکھنا چاہتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:آپ کی دوسری بات کچھ حد تک درست معلوم ہوتی ہے، لیکن پہلی بات سے مجھے اختلاف ہے۔ پاکستان بننے سے قبل اور پاکستان بننے کے بعد اس بات کا اعلان کردیا گیا تھا کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے امریکی شہریوں سے 1948ء میں خطاب کرتے وقت یہ بات کہی تھی کہ
Pakistan is the Premier Islamic State نہ صرف یہ بلکہ ایک سو کے لگ بھگ خطابات، بیانات ا ور پیغامات میں قائد نے یہ بات دوہرائی کہ”Now you have to stand guard over the development and maintenance of Islamic democracy, Islamic social justice and the equality of mankind in your own native soil.”
(Feb 21,1948)
یہ بات عملاً 1956ء کے دستور میں آئی، لیکن وہ اس سے بہت پہلے یہ اعلان کرچکے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی اسٹیٹ ہے۔ اور جو بانیِ پاکستان کا اعلان ہے وہ بعد کے اعلانات سے زیادہ مستند ہے،پھرہمارا دستور یہ بات صاف طور پر کہہ دیتا ہے کہ ہم اسلامی بھی ہیں اور جمہوری بھی ہیں، اور میں دستور کا احترام کرتا ہوں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان میں نہ اسلام ہے نہ جمہوریت ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے دستور کا لازمی حصہ ہیں، اور جو بھی دستور کا احترام کرتا ہے اُس کو چاہیے کہ وہ اسے مانے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ اس پر عمل درآمد نہ کررہے ہوں جس کی اصلاح ہوسکتی ہے۔کسی ملک میں جو دستوری حیثیت سے اسلامی ملک ہو، محض ’’مسلم ملک‘‘ نہ ہو،کسی کا یہ مطالبہ کرنا کہ یہاں سیکولر ریاست ہو، دستور کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ملکی قانون میں ایسے باغیانہ بیانات پر واضح ہدایات ہونی چاہئیں۔
اس کے باوجود اسلام آزادی رائے کاحق دیتا ہے اور ایک شخص ملکی دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اگر ملک کی 97فی صد آبادی ملک میں اسلامی نظام چاہتی ہو اور محض 3فی صد غیر مسلم یا سیکولر یا لبرل حضرات کی خواہش لا دینی نظام کی ہو تو اور ایسے لوگ تھوڑی بہت عقل بھی رکھتے ہوں تو وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ ان کا مطالبہ نام نہاد سیکولر جمہوریت کے کس اصول کی پیروی میں درست ہو سکتا ہے۔اگر ان کے لیے محض عددی اکثریت حق اور ناحق کا فیصلہ کرتی ہے تو 97فی صد کے مقابلہ میں 3فی صد کا کسی خواہش کا رکھنا کیا کبھی درست ہو سکتاہے؟
س: : ادب کے دائرے میں مختلف نقطۂ نظر کے لوگ موجود ہیں، کچھ لوگ ادب برائے ادب کے قائل ہیں اور کچھ لوگ ادب برائے زندگی کے۔ آپ انسانی معاشرے میں ادب کے حقیقی کردار اور اہمیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میری نگاہ میں ادب انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ادب کا مطلب ہے زندگی کو مؤدب کرنا، آدابِِ زندگی کو اختیار کرنا، زندگی کو ادب کے ساتھ گزارنا، زندگی میں ایک نظم کا پایا جانا، خوبصورتی کا پایا جانا، توازن کا پایا جانا۔ اور جب یہ چیزیں ہم تحریروں میں منتقل کرتے ہیں تو یہ تحریر ادب بن جاتی ہیں۔ اگر ایک نظم ہے جس کا اصول یہ ہے کہ اس کے اشعار نو ہوں یا گیارہ ہوں، اور میں اس نظم کے اشعار ایک سو پانچ کردوں تویہ نظم تو نہیں کہلائے گی۔ ادب کا مطالبہ یہ ہے کہ خود شعر و ادب کے اندر کچھ توازن ہوں، اس میں اوزان ہو، اس میں کوئی طریقہ ہو، اور زندگی کا مطلب بھی یہی ہے۔ زندگی کو مؤدب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ایک توازن ہو، بھلائی ہو۔ اور اس لحاظ سے وہ ادب جسے ہم نثر یا نظم کہتے ہیں، زندگی کا لازمی حصہ ہےیر ہے۔ یہ نہ نظم ہے، نہ نثر ہے، یہ دونوں کو ہدایت دینے والا منبع ہے، اس کی روشنی میں آپ شعر اور نثر ایجاد کریں گے۔ اس کے پڑھنے کے بعد آپ میں ایک تحریک پیدا ہوگی۔ یہ ادب کی اعلیٰ ترین مثال ہے جس میں فکر ہو، توازن ہو، ندرت ہو، تخلیق ہو، اور ہر وہ چیز جو آپ سوچ سکتے ہیں۔ اس لیے جو ادب پیدا ہوا ہے قرآن کریم کی روشنی میں، وہ ادب مقصدی ہے، زندگی کے متعلق ہے، اس کے اندر وہ تصورات ہیں جو اسلام دیتا ہے۔ محبت ہے، امن ہے، صلح ہے، بھلائی ہے، فلاح ہے۔ یہ وہ ادب نہیں ہے جس میں مار دھاڑ، خون خرابہ، قتل وغارت پائی جائے، جو ایک زمانے میں نام نہاد ترقی پسند ادب کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ ادب چاہتا ہے جس میں انسان کو انسانی اقدار، اخلاقی اقدار پر عمل کرنے کا درس ملے۔ ادب لازمی طور پر زندگی کا ایک بہت اہم شعبہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس پر توجہ بھی ہونی چاہیے، اس میں تعمیر بھی ہونی چاہیے۔ اقبال کا ہر شعر اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ شعر کے اندر اُن مضامین کو جو قرآن کریم میں ہیں، پیش کیا جاسکتا ہے۔
س: بڑا ادب کیا ہوتا ہے اور بڑا ادیب کیسے پیدا ہوتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:جیسے میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم آفاقی اور الہامی ادب کی ایک اعلیٰ ترین شکل ہے کسی بھی ادبی معیار کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جیسا ادب کوئی پیدا نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کی بنا پر جو ادب پیدا ہوگا، جو اس پر غور کرکے اُن موضوعات کو جن موضوعات کو قرآن نے اختیار کیا ہے، پیش کرے گا اس ادب میں وہ جھلک پائی جائے گی۔ چنانچہ جب اقبال یہ بات کہتے ہیں کہ یہ جو بتانِ وہم و گماں ہیں ان سے ماورا کوئی ہستی ہونی چا ہیے وہ جو سب سے عظیم ہے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ۔ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پوری کائنات میں جو دمادم آواز آرہی ہے وہ کس چیز کی آرہی ہے؟ وہ تخلیق کی آرہی ہے۔ اور یہ خالق کون ہے؟ رب کریم ہے۔ تو وہ ان سارے مضامین کو جو قرآن کریم نے پیش کیے ہیں، جذب کرنے کے بعد اپنے اندازِ بیان کے ساتھ لوگوں کو منتقل کررہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے کلام میں جو اثر انگیزی ہے وہ کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ اقبال نے اُنہیں بھی متاثر کیا ہے جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہتے ہیں۔ بہت سے شاعر وہ مقام حاصل نہیں کرسکتے تھے اگر اقبال کو نہ پڑھتے۔ اقبال کی چھاپ ان پر بھی پائی جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اس میں ایک تخلیقی انداز پایا جاتا ہے، اس میں ایک ندرت پائی جاتی ہے، تخلیق پائی جاتی ہے۔ اور یہ ان کے قرآن کریم سے قریب ہونے کا فیض ہے۔
س: کچھ لوگ اسلامی ادب کے عنوان کو ادب کو محدود کرنا کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ادب، ادب ہوتا ہے، کوئی اسلامی اور غیر اسلامی ادب نہیں ہوتا، اور یہ اصطلاح ردعمل کی وجہ سے پید اہوئی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:اسلامی ادب کو ادب نہ کہنا نہ صرف تعصب ہے بلکہ حقائق کا انکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ جوحفیظ جالندھری سے ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کا مطالبہ کیا کرتے تھے، اگر وہ حفیظ سے شاہنامہ اسلام سنتے تو اس کی شعریت اور تاثیر کو اس نظم سے زیادہ نقطہ کمال پر پاتے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ انکار کرتے ہیں تو یہ ان کا اپنی آنکھوں کا استعمال نہ کرنا ہے، کان کا استعمال نہ کرنا ہے، قلب کا استعمال نہ کرنا ہے، دماغ کا استعمال نہ کرنا ہے، اور اس کے لیے وہی مورد الزام ٹھیرائے جاسکتے ہیں، حفیظ جالندھری کو نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ میرے خیال میں حفیظ کا ’’شاہنامہ اسلا م‘‘ اسلامی ادب کی ایک اعلیٰ مثال ہے، علامہ اقبال کا کلام اس کی اعلیٰ مثال ہے،اردو ادب میں ہر شعبے میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔فرحت اللہ بیگ سے لے کر نعیم صدیقی تک، ایسے ایسے بے شمار ادیب ہیں جن کی تخلیقات اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتی ہیں، حتیٰ کہ بعض غیر مسلم ادیب مثلاًکنہیا لال کپور کے طنز و مزاح میں کوئی غیر اسلامی عناصر نظر نہیں آتے۔ (جاری ہے)