بہادر ٹیپو

177

ٹیپو کی امی بہت فخر کے ساتھ زاہد کی ایمانداری کا قصہ ٹیپو کو سنا رہی تھیں۔ ٹیپو کی عمر 6 برس کی تھی، وہ بہت انہماک کے ساتھ زاہد کی ایمانداری کا قصہ سن رہا تھا۔ ٹیپو کی امی نے کہا، بہادری یہی نہیں ہوتی کہ ہم کسی دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں بلکہ سب سے زیادہ بہادر انسان وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ سچ بولتا ہے اور کسی سے مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتا خواہ اس کو سچ بولنے کی کتنی ہی بڑی سزا ملے۔ انھوں نے کہا کہ ایک مرتبہ زاہد کے ابا سے ان کا کوئی جاننے والا ملنے آیا۔ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سن کر زاہد نے گھر کا دروازہ کھولا تو اس نے دیکھا کہ اس کے والد صاحب کے کوئی جاننے والے دروازے پر کھڑے ہیں۔ سلام دعا کے بعد آنے والے صاحب، جنھوں نے اپنا نام مکرم بتا یا تھا، زاہد سے کہنے لگے کہ اپنے والد صاحب سے کہو کہ مجھے ان سے ضروری کام ہے۔ زاہد نے آکر مکرم صاحب کا پیغام اپنے والد صاحب تک پہنچایا تو اس کے والد نے کہا کہ ان سے کہنا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔ زاہد کو جھوٹ بولنا پسند نہیں تھا اس لئے اسے اپنے والد کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔ وہ بہت مرے دل کے ساتھ مکرم صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ والد صاحب نے کہا ہے کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ مکرم صاحب یہ سن کر مسکرائے، زاہد کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کچھ کہے بغیر واپسی کےلیے مڑ گئے۔ جب زاہد کے والد کو یہ بات پتا چلی کہ زاہد نے مکرم صاحب سے کیا کہا تھا تو وہ زاہد پر بہت خفا ہوئے جس پر زاہد نے کہا کہ آپ کو پتا ہے اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر وہ بہت پشیمان ہوئے اور دل ہی دل میں خوش بھی ہوئے کہ زاہد خود بھی گناہ گار ہونے سے بچ گیا اور مجھے بھی ایک اچھی نصیحت کر گیا۔
اپنی امی سے اپنے دوست زاہد کا یہ واقعہ سن کر ٹیپو بہت خوش ہوا اور اس نے اپنے دل میں یہ عہد کر لیا کہ وہ بھی زاہد کی طرح کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولا کرے گا۔ آج ہفتے کا آخری دن اس اعتبار سے تھا کہ اگلے دن اس کے اسکول کی معمول کے مطابق دو دن کی چھٹیاں تھیں۔ اسی دوران اس کی امی نے اسے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ آج اس کے ماموں اسے اپنے گھر لے جانے کےلیے آئیں گے۔ ماموں کے گھر اس کا ایک ماموں زاد بھائی محمود تھا جو اس کا ہم عمر تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے بھائی بھی تھے اور بہت ہی گہرے دوست بھی۔
سارا دن کھیلنے کے بعد ٹیپو اور محمود جب سونے کے لیے لیٹے تو ٹیپو کو بہت زور کی پیاس لگی۔ اس نے محمود کی جانب دیکھا تو وہ تقریباً سو چکا تھا۔ اس نے سوچا کسی کو سونے کے دوران پانی کے لیے کہنا مناسب بات نہیں بہتر ہے کہ خود جا کر پانی پیا جائے۔ چناچہ وہ پانی کے کولر تک پہنچا لیکن وہاں کوئی گلاس نہ پاکر سامنے بنے کیبنٹ کو کھولا۔ اسے پتہ تھا کہ یہاں دھلے ہوئے گلاس بھی رکھ دیئے جاتے ہیں۔ کم روشنی کی وجہ سے اسے گلاس نہ دکھائی دیا اور دوسری بری بات یہ ہوئی کہ قیمتی ڈنر سیٹ کی ایک پلیٹ گر کر ٹوٹ گئی۔ اس نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن اس نے محسوس کیا کہ گھر والے گہری نیند کی وجہ سے پلیٹ ٹوٹنے کی آواز پر بیدار نہیں ہوئے تھے۔ ٹیپو کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے جلدی جلدی پلیٹ کی کرچیاں سمیٹیں اور کچن میں رکھے ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔ پیاس ویاس تو وہ بھول ہی چکا تھا۔ چپ کرکے اپنے بستر پر واپس آیا۔ پریشانی کی وجہ سے اسے بہت دیر میں نیند آئی۔ بیدار ہونے پر بھی وہ یہی سوچتا ہوا بیدار ہوا کہ اگر گھر والوں کو پلیٹ ٹوٹ جانے کا معلوم ہو گیا تو کیا ہوگا۔
گھر والوں کو بھی شاید پلیٹ ٹوٹنے کا فوری علم نہ ہو پاتا لیکن جھاڑو دیتے ہوئے اس کی مامی کو فرش پر کچھ باریک باریک کرچیاں نظر آئیں تو وہ بہت حیران ہوئیں کہ آخر یہ کر چیاں ہیں کس برتن کی۔ اسی حیرانی اور سوچ کے ساتھ جب کچرا اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالنا چاہا تو انھیں ڈسٹ بن میں ٹوٹی ہوئی پلیٹ کے ٹکڑے بھی دکھائی دیئے۔ ڈنر سیٹ کیونکہ بہت قیمتی تھا اس لئے وہ غصے میں آ گئیں۔ انھوں نے محمود کو بلایا اور بہت غصے میں پوچھا کہ کیا یہ پلیٹ تم نے توڑی ہے۔ محمود نے رونے جیسا منہ بنا کر کہا کہ اس نے تو یہ پلیٹ نہیں توڑی۔ پھر کس نے توڑی ہے، سچ سچ بتاؤ ورنہ میں تمہارے ابو سے شکایت کرتی ہوں اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ وہ کتنے غصے والے ہیں۔ یہ سن کر محمود زور زور سے رونے لگا اور یہی کہتا رہا کہ یہ پلیٹ اس نے نہیں توڑی۔ ٹیپو یہ ساری گفتگو سن رہا تھا اور ڈر اور خوف کے مارے اس کا دل جیسے کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا تھا۔ اس نے سوچا کہ اب اس کے ماموں جب زاہد کی پٹائی کریں گے تو زاہد کو کتنی تکلیف ہو گی جبکہ وہ بے قصور ہے۔ اچانک اس کو اپنے آپ سے کیا یہ عہد یاد آیا کہ “اب میں کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولا کرونگا”۔ اس کا بدن پٹائی سے ہونے والے تصور سے بے شک بری طرح لرز رہا تھا لیکن اس نے مامی کے سامنے سچ سچ کہنے کا عزم کر لیا تھا۔ جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ماموں جان نے محمود کی پٹائی کرنے کے لیے اپنی بیلٹ اپنی کمر سے کھول لی ہے اور محمود بری طرح رو رو کر کہہ رہا ہے کہ اس نے پلیٹ نہیں توڑی۔ اس سے پہلے کہ اس کے ماموں محمود کی پٹائی کرتے وہ کپکپاتی ٹانگوں سے دوڑتا ہوا اپنے ماموں اور محمود کے درمیان آ کھڑا ہوا اور لرزتے ہونٹوں سے کہنے لگا کہ ماموں آپ محمود کو نہ ماریں یہ واقعی بے قصور ہے کیونکہ پلیٹ میری اپنی غلطی سے ٹوٹی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے رات کا سارا واقعہ ماموں مامی کو سنا دیا۔ ماموں، مامی اور محمود سمیت گھر کے سارے در و دیوار میں جیسے سنناٹا سا چھا گیا۔ ٹیپو کی مامی نے جلدی سے بڑھ کر ٹیپو کو گلے سے لگا لیا اور ماموں بھی سارا غصہ بھول بھال کر ٹیپو کو پیار کرنے لگے۔ واہ واہ ٹیپو، تم نے تو سچ بول کر کمال ہی کر دیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ ہم محمود کی بجائے تم کو بھی مار سکتے تھے۔ ایسے ہزاروں ڈنر سیٹ تمہاری سچائی پر قربان۔ محمود بھی دوڑ کر ٹیپو کے گلے میں جھول گیا اور اس نے اس کی جان بچانے کا شکریہ ادا کیا۔ ٹیپو کے ماموں اور مامی نے فخریہ انداز میں کہا کہ واقعی تم ایک سچے اور بہادر بیٹے ہو۔ ٹیپو بھی دل ہی دل میں خوش تھا کہ وہ اپنے پہلے ہی امتحان میں کامیاب ہو گیا تھا۔

حصہ