بلا عنوان

294

کینیڈا سے آنے والی فلائٹ کے مسافر اپنے سامان کے ساتھ آتے ہوئے نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ ائرپورٹ پر کئی جذباتی ملاقاتیں نظر آئیں، کیوں کہ کورونا نے جدائی کے عرصے کو طویل کردیا تھا۔ کہیں ماں اور بیٹا بڑے جذبات سے ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے، اور کہیں چھوٹا بچہ دوڑتا ہوا اپنے باپ کے گلے میں جا لٹکا تھا۔ ہم بھی منتظر تھے کہ کب اپنے پیاروں کا دیدار ہو، بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں، بھائی اور بھابھی اپنے تین بچوں کے ہمراہ چار سال کے بعد کینیڈا سے کراچی آرہے تھے۔ مصافحہ اور معانقہ کے بعد رسمی بات چیت رہی۔
بھابھی نے نو سالہ بیٹے سے کہا ’’حاشر گاڑی میں آگے سیٹ پر بیٹھ جائو۔‘‘
حاشر نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا اور جلدی سے کار کا دروازہ کھول کر آگے سیٹ پر بیٹھ گیا۔ حاشر کی حیرت کی وجہ ہماری سمجھ میں تب آئی جب بھابھی نے بتایا کہ ’’وہاں بارہ سال سے کم عمر بچے آگے سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتے اور حاشر کو بہت شوق ہے آگے بیٹھ کر سفر کرنے کا۔‘‘ میں ’’اوہ! اچھا…‘‘ کہہ کر خاموش ہوگئی۔
کھڑکی سے باہر کا منظر تھا، ایک آدمی اپنے چار پانچ بچوں کو اسکول بیگ کے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھاکر راہ چلتے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا خطرات سے کھیلتا ہوا اسکول چھوڑنے جاتا ہے تاکہ اس کے بچے وقت پر اسکول پہنچ جائیں۔ اسکول وین کا حال تو بیان سے باہر ہے جہاں ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو برے طریقے سے وین میں بھرا ہوا دیکھتے ہیں، کیوں کہ دور ہے مہنگائی کا۔
گھر پہنچے تو بجلی غائب تھی، جنریٹر چل رہا تھا، پانی کے لیے ٹینکر آیا ہوا تھا۔ یہ دونوں ہی کام دیارِ غیر سے آئے ہوئے بچوں کے لیے انجانے تھے، جب کہ ہماری قوم کی زندگی گیس، بجلی، پانی کی فکر میں ہی بسر ہورہی ہے۔ طوفانی بارشوں نے ڈیم کو اوورفلو تو کردیا ہے مگر کراچی کے نلکے پیاسے لب و بام کی طرح پانی کو ترستے ہی رہے ہیں۔ دیارِ غیر سے آنے والے بچوں اور یہاں کے ہائی اسٹینڈرڈ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی اردو میں کوئی فرق نہیں تھا۔ کینیڈین بچے سب سے اُردو میں بات کررہے تھے مگر جواب انہیں انگلش میں مل رہا تھا، لیکن یہاں کے انگلش میڈیم بچے کبھی کبھی اردو میں بھی بات کر ہی رہے تھے۔ پھر یہ احساس ہوا کہ انگریزی بولنے والے ملک سے آنے والے بچوں کی اُردو یہاں کے بچوں کی اردو سے بہتر ہے، کیوں کہ کینیڈا میں ان کے گھر میں اردو کا راج ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں مادری اور قومی زبان کوہی اہمیت دی ہے۔
اگلے دن بچوں کو گھمانے نکلے۔ سڑک پر گاڑی چھوٹے بڑے گڑھوں میں سے گزرتی بچتی چلی جا رہی تھی جن کے ہم کراچی والے عادی ہوچکے ہیں، لیکن حالیہ بارشوں نے ان گڑھوں کے طول و عرض میں اضافہ کردیا ہے۔ ٹوٹی سڑکوں پر بہتے گٹر ناسور بن گئے ہیں۔ گاڑیوں کے مکینک خوش ہیں کہ ان کے کام میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہڈیوں کے ڈاکٹروں کو اب فرصت ہی نہیں، کیوں کہ مریضوں کی لائن مزید لمبی ہوگئی ہے۔ ٹائر کمپنیاں مطمئن ہیں کہ ان کی پروڈکشن اب رکتی ہی نہیں۔ ان سڑکوں کی وجہ سے نہ جانے کتنوں کے روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔
بھائی کی فیملی سڑک کے ہر نشیب و فراز پر ’’آہ… اوہ‘‘ جیسی آوازوں کے ساتھ جھٹکے سے آگے پیچھے ہوکر لطف اندوز ہورہی تھی۔ پھر اچانک گاڑی رک گئی۔ حاشر نے سامنے سڑک پر دیکھ کر کمنٹری شروع کردی اور جوش سے کہا ’’واؤ! روڈ بلاک کردیا گیا ہے، ایک بڑی گاڑی روڈ پر ترچھی کھڑی کردی گئی ہے… اب دیکھیں یہاں کوئی ایڈونچر ہونے والا ہے‘‘۔ اتنے میں سائرن بجاتی، کسی بڑے آدمی کو پروٹوکول دیتی ہوئی کچھ گاڑیاں زن سے گزر گئیں۔ سڑک پر گزرتے ہوئے وہ بچے کیا کیا کچھ نوٹ کرتے رہے۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، بہتے گٹر، دکانوں سے بھرے فٹ پاتھ، کوڑا کرکٹ، جان کو چپک جانے والے فقیر، بے ترتیب پارک کی ہوئی گاڑیاں، بھاگ بھاگ کر روڈ کراس کرنا، بسوں میں لٹکنا اور نہ جانے کیا کچھ۔
گھر پہنچ کر حاشر نے زوردار آواز میں اعلان کیا “I Love This Country” اُس کے منہ سے یہ جملہ سن کر میں تو نہال ہوگئی، اس کے ساتھ اس نے کہا ’’مجھے پاکستان بہت پسند آیا، یہاں کے لوگ آزاد ہیں، بالکل آزاد ہیں، یہاں کے لوگ کسی بھی رول کو فالو کرنے سے آزاد ہیں، صرف ایک رول کو فالو کرتے ہیں وہ یہ کہ کسی رول کو فالو نہیں کرنا ہے۔ ہمیں وہاں گھر کے اندر بھی اور باہر بھی بہت سارے رولز کی پابندی کرنی ہوتی ہے، ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتے اور…‘‘ اس کی آواز بلند ہوتی گئی کہ پاکستانی آزاد ہیں، مگر میرے بھائی کی نم آنکھیں بتا رہی تھیں کہ کون کتنا آزاد ہے۔ میں نے بھی حاشر کے ساتھ آواز ملا کر زور سے کہا:
“We love this country. We love Pakistan!”

حصہ