’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر آپ کو ہو کیا گیا ہے؟ بجائے اس کے کہ معاذ کو اچھی سی مونٹیسوری میں ڈالیں آپ مدرسوں کا وزٹ کررہے ہیں۔‘‘ شہلا نے جھلاّ کر اَنس سے کہا۔
جواباً وہ مسکرا کر خاموش ہوگیا اور لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرنے لگا۔
مگر شہلا نے بھی آج تہیہ کرلیا تھا کہ اس سے پوچھ کر رہے گی کہ وہ کیوں ایسا کررہا ہے؟ اور انس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ آج بھی چپ ہی رہے گا۔
’’میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے۔‘‘ اس نے چائے کی پیالی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ضروری ہے بتانا…؟‘‘ اس نے مختصراً پوچھا۔
’’بالکل ضروری ہے۔ معاذ صرف آپ کا بیٹا نہیں ہے، ہم دونوں کا ہے، اور اس پر میرا بھی اُتنا ہی حق ہے جتنا آپ کا۔‘‘
شہلا کے اس انداز پر انس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی، وہ بولا’’ماشاء اللہ دلیل میں تو وزن ہے، کہاں سے لائیں اتنی عقل؟‘‘
’’کیا مطلب؟ میں بے وقوف ہوں، مجھے کسی بات کی عقل ہی نہیں ہے!‘‘ وہ منہ پھلا کر بولی۔
’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘‘
’’لیکن آپ کی بات کا مطلب تو یہی ہے نا۔‘‘
’’یہ تو اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔‘‘ انس چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کپ اس کی طرف بڑھا کر دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہونے ہی لگا تھا کہ شہلا ٹھٹکی۔
’’یہ آپ نے مجھے کن باتوں میں الجھا دیا…! میں نے کچھ پوچھا تھا آپ سے۔‘‘
’’اچھا… کیا پوچھا تھا؟‘‘ انس نے حیرت سے پوچھا۔
شہلا تپ ہی گئی ’’انس… انس! یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے، آپ مجھے بتائیں آخر کیا مسئلہ ہے، آپ کیوں معاذ کو مونٹیسوری کے بجائے مدرسے میں ڈالنا چاہ رہے ہیں؟‘‘
’’میں جیسا کررہا ہوں مجھے کرنے دو، تم نہیں سمجھو گی۔‘‘ انس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’تو آپ سمجھادیں ۔‘‘
انس نے کچھ لمحے سوچا، پھر بولا ’’تم کو پتا ہے شہلا میں نے کون سی یونیورسٹی سے پڑھا ہے؟‘‘
’’جی معلوم ہے۔‘‘ اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’میری یونیورسٹی میں 100 بڑے لوگوں کی فہرست لگی ہوئی تھی، جس میں سرِفہرست ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔‘‘
’’جی…!‘‘
’’اچھا یہ تو تم کو معلوم ہے نا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُمی تھے، مطلب پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔‘‘
’’جی جانتی ہوں۔‘‘
’’پھر ان کا نام کسی یونیورسٹی میں سو بڑے لوگوں کی فہرست میں سب سے اوپر کیوں ہے؟‘‘ انس نے پوچھا، تو شہلا سے کوئی جواب بن نہیں پایا۔
’’میں بتاتا ہوں۔ دیکھو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن کریم کا علم تھا، اور قرآن کریم میں ہر موضوع پر احکام موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بیڈ روم سے لے کر ملک چلانے تک کے… اور پھر قائداعظم محمد علی جناح نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک کلمے کی بنیاد پر پاکستان بنایا۔‘‘
’’مگر ان سب باتوں کا معاذ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘‘ وہ زچ ہوکر بولی۔
’’دیکھا، میں نے کہا تھا نا کہ تم نہیں سمجھو گی۔ اگر آج ہم اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم میں قرآن کریم کا علم دیں، مطلب صرف قرآن عربی میں ہی نہ پڑھائیں بلکہ اس کو سمجھائیں بھی، تو نہ صرف یہ کہ ان کی عملی زندگی میں کام آئے گا، بلکہ ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان لاالٰہ الااللہ کے نعرے پر کیوں حاصل کیا گیا تھا۔‘‘
’’لیکن یہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے۔ اتنی مشکل اور بڑی بڑی باتیں کیسے سمجھ سکتا ہے!‘‘ شہلا نے ہلکا سا احتجاج کیا۔
’’بچے بہت جلدی ہر بات سیکھتے ہیں، ابھی سے ہم بچوں کی ذہن سازی کریں گے تو وہ اپنے دین سے محبت کریں گے، صرف پیسے کمانے کے لیے نہیں پڑھیں گے، اور جب دین سے محبت ہوگی تو اپنے ملک سے بھی محبت ہوگی کیوں کہ یہ وطن حاصل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ بس اسی لیے میں اپنے دوستوں کو بھی قائل کررہا ہوں اور ایسا مدرسہ تلاش کررہا ہوں جو ٹاپ کلاس اسکول جیسا ماحول دے سکے، جہاں مار سے نہیں بلکہ پیار سے دین سمجھایا جائے۔ جیسے اسکولوں میں پیار سے تعلیم دی جاتی ہے ویسے ہی مدرسے میں بھی ہو، بلکہ دین اور دنیا دونوں ہی ہوں۔‘‘
’’اور آپ کو ایسا مدرسہ مل جائے گا…؟‘‘ شہلا نے طنزیہ پوچھا۔
’’اِن شاء اللہ، ورنہ میں خود ایسا مدرسہ بناؤں گا تاکہ بچوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا سکوں کہ یہ ملک لاالٰہ الااللہ کی بنیاد پر بنا ہے اور اس میں اسلامی نظام ہی لانا ہے۔ بس تم اتنا بتادو کہ میرا ساتھ دوگی نا؟‘‘ انس نے بہت مان سے پوچھا تو شہلا انکار نہ کرسکی۔