سوشل میڈیا پر آڈیو لیکس اور کراچی کے اسٹریٹ کرائم کا شور

300

اس ہفتہ ٹوئٹر ٹرینڈز کی لسٹ میں مریم جیت گئی،این آر او نامنظور، سائفر ایک حقیقت ہے، آڈیولیکس، سائفر کس نے چھپایا، سازش کا ڈرامہ لیک ہوگیا، پی ایم آفس لیکس،اشتہاری اسحق ڈار کو گرفتار کرو، شریف خاندان سیکیورٹی رسک، مریم نواز، بنانا ریپبلک زینت بنے رہے۔ پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ مستقل نئی کروٹیں لے رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک کتاب The Age of Surveillance کے حوالے سے کچھ مختصر لکھا تھا۔ اس ہفتے ہونے والی ’’آڈیو لیکس ‘‘ سمیت کئی اقدامات نے وہ سب سچ کر دکھایا۔ یہ آڈیو لیکس کون کر رہا ہے؟ کیسے کر رہا ہے؟ کون بیچ رہا ہے؟ کیسے بیچ رہا ہے؟ یہ اکائونٹس کی ہیکنگ کیا ہے؟ ڈارک ویب کیا ہے ؟ ان پر ہم پہلے بھی بات کرتے رہے ہیں۔

اس کو یوں سمجھ لیں کہ ڈارک ویب ہر قسم کی حدود و قیود، قوانین کی پابندی سے آزاد ایک الگ غیر حقیقی دنیا ہے، جہاں سب کچھ بکتا ہے، یہاں کی کرنسی بھی الگ ہوتی ہے۔ بہرحال اس وقت یہی سوال گردش میں ہے کہ یہ آڈیوز کس نے، کیسے لیک کریں؟ مزید کس کس کی آڈیوز لیک ہونی ہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ عین ممکن ہے، بلکہ غالب گمان ہے کہ دوران گفتگو کسی کے اسمارٹ فون کی ایپلی کیشن کے ذریعے یہ گفتگو ہیک کی گئی ہو، ڈیوائس اگر کوئی ہوتی تو پھر تو روزانہ ہی کسی نہ کسی کی آڈیو آ رہی ہوتی۔ ایک ہیکر نے تو باقاعدہ جمعے کا دن دیا ہے کہ ساری آڈیوز لیک کرے گا۔ اب وہ کیا ہیں؟ کس کس کی ہیں؟ یہ سسپنس اہم ہے۔

ن لیگ کی جانب سے اسحاق ڈار کو بطور وزیر خزانہ مقرر کرنا خاصا موضوع بنا رہا۔ پاکستان کے بدحال معاشی حالات میں 74رکنی کابینہ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ ہو چکی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اتحادیوں کو بھی خوش رکھنا ہے۔چنانچہ اس صورت حال میں عمران خان کے بیانیے کو مزید تقویت ملی۔ نئے وزیر خزانہ کی آمد پر پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا عندیہ اور ڈالر کی قدر میں کمی کو خوب اچھالا گیا، مگر عوام کو اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ملا۔ اسی طرح مریم نواز اور ان کے شوہرصفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت بھی ہوگئی۔

احتساب عدالت 2018 میں الیکشن سے قبل اس کیس میں نواز شریف، مریم اور صفدر کو سزائیں سنا چکی تھی۔ شہباز گل جو حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں‘ ان سے بھی برداشت نہ ہوسکا، انتہائی ادب و احترام سے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ’’مبارک پاکستان آج باجی مریم بھی بری ہو گئیں۔ تمام چوری حلال ہو گئی۔ ڈار صاحب بھی جلدی بری ہو جائیں گے۔ لگتا ہے نواز شریف صاحب بھی جلدی ہی بری ہو جائیں گے۔ جس رفتار سے شریف خاندان کو این آر او ٹو ملا‘ نیب کے وکیل تو مریم کے وکیل لگ رہے تھے۔ آج کے اس فیصلے سے پاکستان 30 سال پیچھے چلا گیا۔ پاکستان میں احتساب کے عمل کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کرپٹ پر کرپشن کے اصل کیس بنائے جاتے ہیں اور جو کرپٹ نہیں اس پر نقلی کیس بنائے جاتے ہیں تا کہ سب ایک جیسے کرپٹ لگیں اور وقت پڑنے پر کرپٹ کے ساتھ سیاسی سودے بازی میں NRO دیا جائے۔بس یہی 75 سال سے ہو رہا ہے۔‘‘

اسد عمر نے بھی اپنی ٹوئیٹ سے اسی جانب متوجہ کیا کہ ’’روز مہنگائی بڑھ رہی ہے اور روز امپورٹڈ حکومت کے لیڈروں کے مقدمے خارج ہو رہے ہیں۔ یہ ہیں وہ اصل مقاصد جن کے لیے سازش کر کے عمران خان کو ہٹایا گیا۔‘‘ مگر دوسری جانب اہم بات یہ تھی کہ عمران خان کی آڈیو لیک پر تحریک انصاف نے اس کو ’’سائفر ایک حقیقت‘‘ کے عنوان سے دفاعی کے بجائے جارحانہ انداز اپنایا۔ عمران خان نے تو کہاکہ یہ آڈیو لیک کرکے بہت اچھا عمل کیا گیا ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ کی طرح آڈیو لیک کے تمام مندرجات کی اپنے انداز سے وضاحت کی اور عوام میں اس کو اپنے مظلوم ہونے کے طور پر ہی پیش کیا۔

یہی نہیں اس ہفتے عمران خان کے حق میں آواز بلند کرنے والے ایک اورکرنٹ افیئر اینکر عمران ریاض خان کا یوٹیوب چینل ہیک کر لیا گیا‘ جسے کچھ دیر بعد بحال کر دیا گیا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر پاک برطانیہ کرکٹ سیریز بھی اہم موضوع رہی۔ پاکستان نے 5 میں سے 3 میچ جیت کر اپنی کارکردگی نمایاں رکھی۔ کسانوں کا احتجاج بھی سوشل میڈیا پر کچھ جگہ لے سکا چونکہ ان کسانوں کی کوئی سوشل میڈیا ٹیم نہیں اس لیے حکومت کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے لیے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی معاونت کے لیے اتری۔ کسانوں کے مطالبات میں زرعی مشینری اور ٹیوب ویل کے لیے زمینوں پرپانی و دیگر کاموں کے لیے استعمال ہونے والے ڈیزل کی قیمتیں ان کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔

سیلاب نے الگ نقصانات پہنچائے۔ یہی نہیں بجلی اور کھاد کی قیمتیں بھی کسانوں کے لیے بدترین ہوتی جا رہی ہیں۔ کسان سبسیڈی کے مطالبے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، زرعی ملک میں اگر زراعت کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک کیا گیا تو جو تباہی اس کے نتیجے میں آئے گی وہ امسال کے سیلاب سے زیادہ بدتر ہوگی۔ اس میں عمران حکومت ہو یا ن لیگ‘ ایک ہی جیسا معاملہ رکھا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سی سی ٹی وی وڈیوز کی بھرمار یہی پیغام دیتی نظر آئی کہ کراچی میںبڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ ان میں ایک وڈیو تو بہت اہم تھی جس میں خود پولیس موبائل سے بندہ اتر کر واردات کرتا ہے‘ یہ ویڈیو سندھ پولیس کی ہے جنہوں نے کراچی کے علاقے اللہ والا ٹائون سے گھر کے باہر کار چوری کی ہے۔جن کا کام عوام کی جان ومال کا تحفظ کرنا تھا ،وہی لٹیرے بنے ہوئے ہیں اس ملک پر اللہ کا عذاب ہے نیچے طبقہ سے لے کر ایوان بالا تک سب کے سب کرپٹ ہیں۔عوام کو اب فیصلہ کرنا ہو گا۔

پولیس کی جانب سے ایک جانب یہ کہاگیاکہ یہ تعداد دیگر شہروں سے کم ہے،مگر عوام نے یہ بیانیہ مسترد کردیا کہ پولیس کا یہ کام ہی نہیں کہ جرائم کی تعداد کا موازنے کرے بلکہ اپنے علاقوں میں جرائم ختم کرے۔کراچی میں دو صحافیوں سے کام کے دوران سہراب گوٹھ پر کیمرے چھیننے کی واردات ہوئی۔ متعلقہ صحافی تنویر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے وڈیو بیان دیا جو اتنا وائرل ہوگیا کہ۔حافظ نعیم نے ٹوئیٹ کی کہ ’‘ایک مڈل کلاس نوجوان صحافی اپنی محنت سے تنکا تنکا آشیانہ بنائے اورکرمنلز کے ہاتھوں سب کچھ لٹا دے۔ شرم ناک ہے یہ سندھ حکومت اورپولیس کے لیے لیکن حالات کنٹرول کرنے کے بجائے پولیس افسران اور حکومت کے ترجمان کہتے ہیں کہ کراچی والے شوربہت کرتے ہیں۔

اب کراچی والوں کو واقعی شور کرنا پڑے گا۔عمیر سولنگی نے ٹوئیٹ کیا کہ ’‘کراچی کے یہ حالات ہیں کہ ڈی ایس پی کو لوٹ لیا گیا، جب پولیس افسران خود محفوظ نہیں تو وہ عوام کو کیا تحفظ فراہم کریں گے؟ کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم سندھ پولیس کی ناکامی ہے۔ کراچی کے شہری تمام تر ٹیکس ادا کرنے کے باوجود چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر ہیں۔‘‘ اسی طرح کراچی میں ہونے والے ایک نوجوان کی لرزہ خیز قتل کی واردات پر فرید سرور ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ’’ڈاکو بھی غیر مقامی، پولیس بھی غیر مقامی لیکن تڑپتے لاشے مقامی لوگوں کے، کراچی میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے مقامی پولیس ضروری ہے خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔

فیض اللہ خان ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ عفان احمد کو ایک دو دن میں عمرہ ادا کرنے جانا تھا گزشتہ شب کراچی کی اہم ترین شاہراہِ فیصل پہ ڈکیتی کے دوران قتل کردیا گیا، ظاہر اس قتل کا بھی کوئی نوٹس نہیں ہوگا کیونکہ مرنے والا جرنیل کا بیٹا تھا‘ جج کا نہ سیاست دان و بیوروکریٹ کا۔‘‘ کراچی میں صدر کے علاقے میں چینی دندان سازوں کے قتل نے بھی نیا رخ دکھایا ہے گوکہ یہ پاکستانی شناختی کارڈ رکھتے تھے لیکن واقعہ ڈکیتی کا نہیں تھا۔ پولیس نے مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انٹیلی جنس اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ یہ کارروائی کالعدم تنظیم سندھودیش پیپلز آرمی نے کی ہے۔ سوشل میڈیا پر جرائم کی خبروںکے تناظر میں  خیبر پختونخوا میں بھی نامعلوم افراد کی جانب سے بھتے کی کالز سے کاروباری افراد پریشان نظر آئے۔ نامعلوم نمبروں سے واٹس ایپ پر پیغامات اور کالز کر کے پیسوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،ڈرانے کے لیے ان کی فیکٹری کے باہر گرنیڈ بھی پھینکے گئے ہیں۔

پڑوس میں بھارت میں ایک بار پھر اس ہفتہ مسلمانوں کے خلاف نیا معاملہ اٹھایا گیا۔ دہشت گردی کا لیبل لگا کر بھارت نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پرپانچ سال کی پابندی عائد کر دی۔ وزارت داخلہ نے پابندی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ پی ایف آئی اور اس سے ملحقہ ادارے ’’آئینی سیٹ اَپ کو نظر انداز کرتے ہوئے دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت، ٹارگٹ بہیمانہ قتل سمیت سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے۔‘‘ PFI کے اب کالعدم طلبا ونگ، کیمپس فرنٹ آف انڈیا (CFI) نے حکومتی کارروائی کو سیاسی انتقام اور پروپیگنڈہ قرار دیا۔ اس نے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی۔ یہ ایک غیر سرکاری تنظیم بطور این جی او بھارت میں غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے کام کرتی تھی۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے بعد تنظیم سے منسلک جائیدادوں کو ضبط کیا جائے گا اور اس کے بینک اکائونٹس کو منجمد کیا جائے گا۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا 2007 میں جنوبی ہندوستان میں تین مسلم تنظیموں کے انضمام کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا۔پاپولر فرنٹ جنوبی بھارت کیرالہ اور کرناٹک میں بڑی موجودگی رکھتی ہے، یہ تنظیم اس وقت انڈیا کی 20 ریاستوں میں متحرک ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے کلیدی کارکنوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔اطہر وقار لکھتے ہیں کہ ،”یہ کیسا آزاد کا سیکولر ہندوستان ہے جہاں آر ایس ایس خالصتاً انتہا پسندانہ مذہبی سیاست بھی کھلم کھلا کر سکتی ہے جب کہ انتہائی مارجنلائز ہندی مسلمان اپنے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے کم از کم سطح پر بھی سیکولر سیاست بھی نہیں کر سکتا؟ہندوستانی مسلمان کو ڈی پولیٹسائز کرنے کا پروسس پی ایف آئی پر پابندی عائد کرنے سے مکمل ہو گیا ہے۔ اب وہاں بائیس کروڑ برائلر مرغیاں زندہ ہیں۔

اگر جماعت اسلامی ہند اور دیگر کانگریسی ذہینت رکھنے والی مسلم جماعتیں پی ایف آئی پر پابندی عائد کر دینے پر احتجاج نہیں کرتیں تو انہیں اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ ‘‘ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، امیر جماعت اسلامی ہند نے اس عمل کی مخالفت کی ہے جبکہ اپوزیشن نے آر ایس ایس پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔متنازع ٹرانس جینڈر ایکٹ اس ہفتہ قومی میڈیا پر چھا گیا، جو کام چار سال میں قانون منظور ہونے پر نہیںہوا، بہرحال مخالفت کے نتیجے میں ہوگیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے عوام کو ساتھ شامل کرنے کی بھرپور سوشل میڈیا مہم چلائی، حکومت نے بات کو سمجھا بھی اور ترمیم کی پوری گنجائش پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ترمیم کس حد تک اس معاملے کو فائدہ پہنچائے گی۔

حصہ