سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بہترین نثر نگار تھے‘ فراست رضوی

232

اردو نثر کی تاریخ فورڈ کالج کلکتہ سے جڑی ہوئی ہے کہ جو انگریز ہندوستان میں آفیسرز نامزد ہوتے تھے ان کے لیے لازم تھا کہ وہ ہندی اور اردو زبان سیکھیں۔ یہ کالج اردو نثر کے لیے مشہور تھا۔ ’’باغ و بہار‘‘ وہ کتاب ہے جس کو ہم اردو نثر کا آئینہ کہہ سکتے ہیں جب کہ خطوطِ غالب کو ہما ردو نثر کا اہم کردار قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے مکالمے کو مراسلہ بنا کر پیش کیا۔ سیدابواعلیٰ مودودی ؒکی نثر علمی نثر تھی ایک ایسی نثر جس میں Objective ہو‘ جس میں سادگی ہو غرض یہ کہ مودودی صاحب کی نثر میں ان کی تمام شخصیت جلوہ گر ہوتی تھی۔ وہ چھوٹے خوب صورت جملوں سے سہل ممتنع میں نثر نگاری کرتے تھے۔ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ان کی پہلی نثر تحریر تھی اس وقت مودودی صاحب کی عمر 24 سال تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے تصورِ جہاد پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے اس کے علاوہ مودودی صاحب نے 60 ہزار خطوط بھی لکھے ہیں جن کے دس مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اسلام کا تصورِ ریاست تو مودودی صاحب کا سب سے اہم موضوع تھا جس کے باعث انہیں حکومت پاکستان نے متعدد بار گرفتار کیا مگر وہ اپنے مؤقف سے نہیں ہٹے۔ مودودی صاحب ایک مجدد تھے ایسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے میانوالی کی جیل میں تفہیم القرآن کی پہلی جلد تحریر کی تھی۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر‘ محقق‘ ماہر تعلیم اور نقادِ سخن فراست رضوی نے طارق جمیل کی قائم کردہ بزمِ مکالمہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ مذاکرے میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔ یہ پروگرام رباط العلوم لائبریری بہادرآباد کراچی میں منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ’’سید ابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت نثر نگار۔‘‘ اس موضوع پر فراست رضوی نے مزید کہا کہ مودودی صاحب نے بہترین نثر نگاری کی انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت قربانیاں دیں ان کی نثر میں سادگی‘ قطعیت اور گہرائی ہوتی ہے‘ لفاظی بالکل نہیں ہوتی ہے‘ وہ ٹھیٹ اردو لکھتے تھے جس کی اپنی بیوٹی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر منطقی اور مذہبی مزاج رکھتے تھے انہوں نے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا‘ وہ اپنی آخری سانس تک ترجمان القرآن کے ایڈیٹر رہے ان کے اسلوب میں زبان کی سلاست‘ روانی اور منطقی استدلال ہوتا ہے ان کی نثر میں سادگی اور حسنِ بیان موجود ہے۔ ان کی نثر ایک عام آدمی کی نثر ہے پڑھے لکھے نوجوان طبقے سے مخاطب ہوتے تھے کیوں کہ نوجوان قو م کا سرمایہ ہیں‘ وہ ایک بڑا ویژن رکھتے تھے انہوں نے ثابت کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘ وہ سیکولرازم کے سخت خلاف تھے انہوں نے اس دور میں نثر میں بھی نام کمایا جب مدرسوں کی فقہی نثر اپنے عروج پر تھی۔ مودودی صاحب نے 12 سال کی عمر سے نثر نگاری شروع کی تھی وہ مشکل الفاظ سے پرہیز کرتے تھے‘ وہ احیائے اسلام کی تحریکوں کے مبلغ تھے جب کہ اس وقت عوام الناس کی اکثریت اشتراکیت سے متاثر تھی‘ ان کی نثر میں روانی تھی‘ وہ بطور مترجم بھی مشہور ہیں لیکن ان کے تراجم میں آسان پسندی نہیں ہے‘ وہ کثیر التصانیف نثر نگار تھے انہوں نے 73 کتابوں پر تبصرے لکھے اور 30 کتابوں کے دیباچے تحریر کیے۔ 2011ء میں مودودی صاحب پر پہلا پی ایچ ڈی ہوا ان کی مذہبی فکر کی ترویج و اشاعت ان کی تبصرہ نگاری‘ مکتوب نگاری اور اسلوب نگاری سے زیادہ ہے ان کی نثری خدمات پر سیر حاصل کام کی ضرورت ہے۔ اس موقع پرڈاکٹر عنبرین طارق‘ عطا محمد تبسم‘ شکیل خان‘ نظر فاطمی‘ وسیم فاروقی‘ رضی الدین‘ فرحت اللہ قریشی‘ نعیم سمیر‘ شاہد اقبال‘ نفیس خان‘ ملکہ افرو زاور ریحانی روحی نے فراست رضوی سے حضرت مودودیؒ کے بارے میں سوالات کیے جن کے جوابات کے نتیجے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مولانا مودودیؒ ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے۔ پروگرام کی نظامت طارق جمیل نے کی اور اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ وقت کی قدر کیجیے‘ گیا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔ آج کل کی تقریبات میں جو وقت دیا جاتا ہے وہ تقریب اپنے مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوتی جو کہ ہم نے طے شدہ وقت پر اپنی تقریب کا آغاز کیا ہے۔ اردو زبان ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہے جب کہ پاکستان میں رابطے کی زبان ہے تاہم عدالت کے فیصلے کے باوجود اردو کو سرکاری زبان نہیں بنایا جاسکا ہم لوگ انگریزی میں اردو لکھ کر اردو کو قتل کر رہے ہیں۔ اردو رسم الخط موجو دہے اس کا سافٹ ویئر بھی موجود تھے ہمیں چاہیے کہ ہم اردو سافٹ ویئر استعمال کریں اور اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔

حصہ