حضرت امام حسینؓ نے حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل کھینچ دی‘ انہوں نے یزیدیت کے خلاف اپنی جان پیش کر دی اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے ایک منظر نامہ رقم کیا جس میں کہا گیا کہ حق و صداقت کے لیے جان دینا بھی عین اسلام ہے۔ انہوں نے ظلم و ستم کا مقابلہ کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں ایک نئی تحریک اجاگر کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یزید کا نام لیوا کوئی نہیں جب کہ ہر شخص کی زبان پر حضرت امام حسینؓ کے قصیدے جاری ہیں۔ آج ہم بھی حضرت امام حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے پاکستان امریکن کلچر سینٹر کراچی میں مجلس مسالمہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رثائی ادب سے اردو ادب کی ترقی میں اضافہ ہوا ہے‘ دنیائے ادب میں کربلا ایک اہم استعارہ ہے‘ کربلا نے فنونِ مرثیہ گوئی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج کے مشاعرے میں ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا تمام سامعین نے ہر شاعر کو بھرپور داد دی یہ ایک یادگار پروگرام ہے جس کا کریڈٹ چاروں تنظیموں کے سر ہے۔ مبشر میر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ مشاعرے ہماری مشرقی اقدار کا حصہ ہیں ہم کئی اصنافِ سخن میں مشاعرے ترتیب دیتے ہیں آج ہم نے مجلس مسالمہ کا اہتمام کیا۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کربلا نے دینِ اسلام زندہ کیا ہے ہم سب حسینی راستے پر چل کر دین و دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ مشاعرے میں شاداب احسانی‘ فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ عقیل عباس جعفری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ پروین حیدر‘ حامد علی سید‘ مبشر میر‘ کشور عدیل جعفری‘ کامران نفیس‘ سحر تاب رومانی‘ کمال امروہوی‘ ضیا حیدر زیدی‘ شبیر نازش‘ رئیس زیدی‘ دلشادی زیدی‘ سرتاب ایس اے صدیقی اور ذکر حسین نے سلام پیش کیے اس موقع پر منوج چوہان نے بھی حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا۔