دل ہی تو ہے

260

\رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ’’انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی پیدا ہو جائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ جسم کا یہ حصہ دل ہے۔‘‘
بے شک یہ حدیث ترجمانی کرتی ہے دل کی۔ دل میں اچھے جذبات کو بھی جگہ دی جا سکتی ہے اور برے جذبات بھی اس میں پنپ سکتے ہیں، خیر کی شعاعیں بھی ان میں سے پھوٹ سکتی ہیں اور شر کی بھی۔ اگر اسے خیر کا مسکن بنا لیا جائے تو پورے جسم پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طبی لحاظ سے بھی اور طبعی‘ نفسیاتی و روحانی پہلو سے بھی۔ تاہم اسی دل میں غلط، گردے، تکلیف دہ جذبات کو جگہ دے دی جائے تو اس لوتھڑے میں خرابی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے جس پر قابو نہ پایا جائے تو یہ وبا کی صورت پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
ہر فرد کو یہ تجربہ ہوتا ہے کہ دل پر ناخوش گوار باتیں یا فعل اچھا اثر نہیں چھوڑتیں۔ اکثر محاورات اس ضمن میں زبان زد عام ہیں دل مٹھی میں آجانا ، دل اچھل کر حلق میں پہنچ جانا، دل سیاہ ہو جانا، دل پر چوٹ لگنا، دل پارہ پارہ ہونا، دل چیرا جانا، دل ٹکڑے ہو جانا، دل کانپ جانا ،دل ہل جانا۔ یقیناً ان محاورات میں ادبی چاشنی بھی موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ قلب کی شعوری کیفیت کو بھی بیان کر رہے ہیں۔
دل صرف تمام جسم کو خون ہی پمپ نہیں کرتا، آکسیجن کی ہی ترسیل نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر پنپنے والی سوچ اور جذبات کو بھی خون کے ساتھ گردش کرتا ہے۔ آپ کسی کو تکلیف پہنچاتے ہیں یا گناہ کرتے ہیں تو دل پر سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے تو دل گھٹ کر رہ جاتا ہے اور زخم زخم ہو جاتا ہے۔
ہر انسان کو اس لوتھڑے کا خیال رکھنا چاہیے۔ طبی صت کا بھی اور روحانی صحت کا بھی۔ یوں بھی روحانی طور پر صحت مند دل ہی اپنا افعال درست طریقے سے انجام دے سکتا ہے ورنہ بیماریوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو روحانی کمزوری کے سبب دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پھر، دل تو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں اچھے اور برے رویے کو۔ ابنارمل افراد نارمل لوگوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں تو اسی دل کے سبب۔لہٰذا اچھا سوچیے، اچھا بولیے، دوسروں کے ساتھ اچھا کیجیے۔ اپنے دل میں دوسرں کے متعلق غلط جذبات کو نہ پنپنے دیجیے کہ یہ خود آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اللہ کے ذکر دلوں کی تقویت کا بہترین علاج ہے خواہ یہ ذکر شکر کی شکل میں ہو یا صبر کی۔ غصے پر قابو پانے کے وقت ہو یا درگزر کرتے وقت‘ دوسروں کی نعمتوں پر خوش ہونے کی شکل میں ہو یا اپنی آزمائش پر پورا اترنے کی صورت میں۔ لہٰذا اپنے دلوں کو نیک اعمال سے تقویت دیجیے تاکہ دوسروں کے دلوں کی تقویت کا سبب بن جائیں۔

حصہ