شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی اجلاس کیا منظر بدلے گا؟

211

شنگھائی تعاون تنظیم کے بائیسویں دو روزہ سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کی جانب سے طویل المدتی اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے جامع ایکشن پلان سمیت کُل 40 دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔ اس تنظیم کی بنیاد1996ء میں پانچ ممالک روس، چین، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان نے شنگھائی میں رکھی۔ یہ مغربی اداروں کے مقابلے میں ایک سیاسی، اقتصادی اور سلامتی تنظیم ہے۔ یہ تمام ممالک ”شنگھائی فائیو‘‘ کے اراکین تھے، سوائے ازبکستان کے، جو اس میں2001ء میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کے نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں باقاعدہ ممبر8 ہیں، جب کہ 4 ممالک افغانستان، ایران، بیلارُس اور منگولیا مبصر کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آرمینیا، اذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، قطر، سعودی عرب، سری لنکا اور ترکی تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنر ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی گریٹ گیم کو ناکام بنانے کے پس منظر میں یہ تنظیم خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ شنگھائی اجلاس سے قبل روس کی خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ”شنگھائی تعاون تنظیم مغربی تنظیموں کا متبادل پیش کرتی ہے“۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے، اس میں ہمارے سیارے کی نصف آبادی شامل ہے۔“ اس تنظیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن بدقسمتی سے جس تیزی کے ساتھ اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی اس طرف بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اجلاس خطے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا، جس کے مستقبل کی عالمی سیاست میں اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی اہمیت اور پس مںظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہبازشریف نے ترکیہ، ایران، کرغیزستان، تاجکستان، چین اور روس کے صدر سے ملاقاتیں کی ہیں، جو پاکستان کے پس منظر میں بہت اہم ہیں، خاص طور پر جہاں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات کئی فوری نوعیت کے معاملات بجلی، گیس اور پیٹرول کی خریداری کے لیے اہم ہے وہاں مستقبل میں امریکا سے دوری اور امریکی غلامی کا طوق اتارنے کا راستہ بھی یہیں سے نکل سکتا ہے۔
جنگِ عظیم دوئم کے خاتمے کے بعد دو قطبی دنیا وجود میں آئی تو پاکستان اپنے قیام کے بعد بتدریج امریکی کیمپ کا حصہ بن گیا۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویزمشرف تک ہر فوجی آمر امریکا کا پسندیدہ رہا، اور یہ پسندیدگی صرف فوجی حکمرانوں تک محدود نہ رہی بلکہ جمہوری حکمران بھی کسی نہ کسی طور امریکی آشیرباد سے ہی حکمران بنے۔ نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان سب کے سب امریکی آشیرباد کے منتظر رہے، حتیٰ کہ عمران خان نے تو اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد اس کو امریکی سازش قرار دیا اور اس کے بعد امریکی عہدیداروں سے خفیہ ملاقاتیں کرکے اپنی پوزیشن کی وضاحت بھی کی۔ پاکستان کی تمام تر پالیسی سازی کا جھکائو بھی امریکا مرکز اور اسی کے زیر اثر رہا، یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے اور امریکی بحری بیڑے کا دھوکا بھی پاکستان کی حکومت اور پالیسی سازی کو امریکی اثر سے نہ نکال سکا۔ پاکستان امریکا کا ایک غلام نما دوست ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے میں پاکستان کا کردار، افغانستان کے معاملات میں پاکستان کے ذریعے کنٹرول، طالبان کی حکومت کے خاتمے کی ”اعلیٰ ترین خدمات“ بھی پاکستان کو تاحال امریکا کا دوست نہ بنا سکیں۔ امریکی خواہشات کی بناء پر پالیسی سازی پاکستان کا وتیرہ بن گئی جس کا ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ یعنی ”قومی مفاد وہی ہے جو امریکی مفاد ہے“ کی پالیسی نے دوستوں کو دشمن بنادیا۔ ایک طرف خود مغرب میں یہ بحث پروان چڑھ رہی ہے کہ مغرب اب شاید دنیا میں قیادت کے منصب پر زیادہ دیر فائز نہ رہ سکے۔ اب اس کی جگہ چین لے رہا ہے، لیکن اس ساری جدوجہد میں چین اکیلا نہیں بلکہ چین کے ساتھ روس بھی اس مہم کا حصہ ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ امریکا دنیا کا قائد تھا اور تقریباً پورا یورپ اس کا لٹل پارٹنر۔ عالمی منظرنامے پر چین دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی بھی ہے کہ چین پاکستان کا نہ صرف ہمسایہ بلکہ دیرینہ دوست بھی ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا میں ایک طرف امریکا اور برطانیہ ہیں تو دوسری جانب چین و روس.. گوکہ چین ہمارا دوست ملک ہے لیکن روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی کشیدگی یا سردمہری کا عرصہ چار دہائیوں پر محیط ہے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے میں پاکستان کا کردار ابھی تک روس کے سامنے ہے۔ شاید حالات کے جبر یا پھر بار بار امریکا کی جانب سے شکوک و شبہات کے بعد پاکستان کے پاس اب یہ اچھا موقع ہے کہ کسی ایک کیمپ کا مستقل حصہ بننے کے بجائے دنیا سے معاملات اپنے عوام کی ضروریات کے مطابق استوار کیے جائیں۔ سی پیک کے بعد سے روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بحال ہونے شروع ہوئے، اور ان میں اب بتدریج سردمہری کے بجائے گرم جوشی نظر آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک جانب بھارت کا امریکا سے جوہری معاہدہ ہے جو خطے میں بھارت کو امریکا کا پولیس مین بنانے کے لیے ہے، اور دوسری جانب روس و چین اس خطے میں کسی ایسے دوست کی تلاش میں ہیں جو اس خطے میں بھارت کے اثر کو کم کرسکے۔ اس خطے میں پاکستان کے سوا کوئی نہیں جو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو روک سکے۔ بہت سی اجتماعی خطائوں اور کمزوریوں کے باوجود پاکستان ہی اس خطے میں بھارت کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
روس نے یوکرین پر حملے کے بعد سے امریکا اور اُس کے اتحادیوں کو بتدریج سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس سارے کام میں اسے چین کی مکمل خاموش حمایت حاصل ہے۔ مغربی میڈیا اس پورے گیم پلان کا ماسٹر مائنڈ چین کو قرار دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ روس پورے یورپ کی توانائی کی تقریباً 60 فی صد ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ یورپی یونین نے روس کے معاشی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو اس کے جواب میں روس نے توانائی خاص طور پر یورپ کو گیس کی سپلائی بند کرنے پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ اس کی پہلی کڑی جرمنی کو گیس سپلائی کرنے والی پائپ لائن ’’نورڈ اسٹریم 1‘‘ کی مرمت کے نام پر بندش ہے۔ روس میں موجود گیس و تیل اور اس کی روزانہ پیداوار روس کی اپنی ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہے، لہٰذا اس گیس کو ٹھکانے لگانے کے لیے مغربی میڈیا کے مطابق روس روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 10 ملین ڈالر کی گیس روزانہ جلا رہا ہے۔ ادھر سردی کی آمد کے ساتھ ہی روس بتدریج یورپ کو گیس کی سپلائی بند کردے گا، جس سے نہ صرف وہاں بدترین معاشی بحران کا خدشہ ہے بلکہ شاید گھروں میں بھی گیس کی لوڈشیڈنگ کی ضرورت پڑجائے۔ اس پورے بدلتے تناظر میں پاکستان کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو استوار کرے جیسا کہ ماضی میں روس کے ذریعے پاکستان نے اسٹیل کی پیداوار میں کسی حد تک خودکفالت پیدا کی تھی۔ چین کا سی پیک اور روس کی گیس پاکستان کی ڈوبتی معیشت کے لیے عمل انگیز ثابت ہوسکتی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی ملاقات، اور روس کی پاکستان کو گیس سپلائی کی پیشکش ایک بہت بڑی اور اہم ترین پیش رفت ہے۔ اس ملاقات میں توانائی کے علاوہ ریلوے کے شعبے میں کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ ماضی میں کئی مواقع پر امریکی دبائو کی وجہ سے سی پیک کے معاملات پر چین سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی اور بتدریج سی پیک پر کام سست روی کا شکار ہوا، لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتِ حال اُس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتی جب تک امریکا سے دوری اختیار نہیں کی جاتی۔ عمران خان کا دورئہ روس سے لے کر آج تک چین اور روس کے معاملے میں جو بھی پیش رفت ہوئی اسے عملی سانچے میں ڈھلنا چاہیے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر پالیسیوں کی سمت درست رہی اور کسی بیرونی دبائو کو قبول نہ کیا گیا تو امید ہے کہ چین و روس پاکستان پر اعتماد کریں گے، جس کے بعد پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو نہ صرف ایک نئی زندگی ملے گی بلکہ امریکا پر مکمل بھروسا کرنے کے بجائے پاکستان آزاد خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کرکے عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کیمپ کا مستقل حصہ بننے کے بجائے پوری دنیا سے معاملات اپنی ترجیحات کے مطابق طے کرے۔ یہی مستقبل میں پاکستان کی بقا، ترقی اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ یہ ابھرتا عسکری بلاک پاکستان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اسے روس کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ریاستوں کے قریب لا رہا ہے۔ یہ ممالک کاروبار اور معیشت کو بہتر کرنے میں خاصی مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ جاننا اور سمجھنا چاہیے کہ امریکی زوال اٹل ہے، منظر ضرور بدلے گا۔ تاریخ میں کئی ریاستیں بنتی اور ختم ہوتی رہی ہیں، اور ان ریاستوں  کے عروج و زوال کی داستانیں آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کا منظرنامہ کب تبدیل ہوتا ہے؟ امریکی ڈالر کو زوال کب آتا ہے؟

حصہ