نیوزی لینڈ نے ملک میں گائے کی ڈکاروں اور ریح پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیاہے۔یہ خبر جولائی 2022 کی ہے صدیوں پرانی نہیں۔ اس کے لیے وہ گائے کے گلے میں میٹر لگائیں گے۔ انکا کہنا ہے کہ گائے جو گیس خارج کرتی ہے اس میں میتھین گیس ہوتی ہے جو ماحول کو خراب کرتی ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ گائے مالکان سے ٹیکس لیے جائیں۔2025 کو یہ ٹیکس لاگو ہوجائے گا۔ 50 لاکھ کی آبادی والے نیوزی لینڈ میں کوئی 63 لاکھ کے قریب لائیو اسٹاک موجود ہے۔ ڈیری پروڈکٹس کی ایکسپورٹ میں نیو زی لینڈ اول نمبر پر ہے،پھر جرمنی پھر امریکا آتے ہیں۔کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ جس اوزون کی لیئر کو خطرہ اب ہوا ہے اس میں اصل کردار صدیوں سے مویشیوں کی ڈکاروں کا ہے یا ان کیمیکلز کا جو انہوں نے اپنی ایکسپورٹ کے لیے بنائے اور پھیلائے ہیں۔ امریکا میں تحقیق کی گئی کہ وہ کتنے قسم کے کیمیکلز استعمال کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کی کل تعداد کوئی 80000 ہے۔ ہر سال کوئی 2000 کیمیکلز نئے متعارف ہوتے ہیں ، اس کے بعد ای ایف اے کے مقامی سائنس دانوں نے تحقیق کی اور بتایا کہ اس میں سے 260 کیمیکلز ماحولیات اور انسانوں کے لیے سخت مضر ہیں جن پر امریکا نے فوری پابندی لگا دی ۔ باقی پر کام جاری ہے ۔ ان کےمطابق کئی صدیاں لگیں گی ان سب کو چیک کرنے میں۔
صاف ستھری فضا تمام جانداروں کی نشونما اور انسانی سرگرمیوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی دیو ہیکل صنعتی سرگرمیوں، بے پناہ ضیاع اور ماحول دشمن منافع کی اندھی ہوس نے آج دنیا کے تقریباً ہر ملک کی فضا برباد کر کے رکھ دی ہے۔ سرمایہ داروں کی بے لگام سرگرمیوں نے فضا کو وہ زہر قاتل بنا دیا ہے جو ہر جاندار اپنے پھیپڑوں میں کھینچنے پر مجبور ہے۔ اس کی وجہ سے پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا کے تمام خطوں میں بیماریوں کی شرح مستقل بڑھتی جا رہی ہے جس میں سرطان ،فالج، دمہ سمیت کئی امراض سر فہرست ہیں۔کچھ دہائیوں سے دنیا بھر میں موسموں کے اطوار مستقل تبدیل ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری کا دورہ پاکستان پر اس بات کا اقرار خود اہم ثبوت ہےکہ یہ ساری تباہی ان ممالک کی وجہ سے ہے جوقدرتی ماحول تباہ کر رہے ہیں ۔سیکریٹری کے الفاظ تھے کے قدرت سے جنگ کرو گے تو وہ جواب دے گی۔شدید گرم علاقوں میں سردی پڑ رہی ہے اورٹھنڈے ممالک میں لوگ گرمی سے بے حال ہورہے ہیں۔ میکسیکو، برازیل اور آسٹریلیا میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات آگ سے خاکستر ہوگئے۔یہ موسمیاتی تبدیلیاں لاکھوں افراد، جانوروں اور نباتات کو متاثر کررہی ہیں۔ قطبی ریچھ گرمی سے بے حال ہورہے ہیں، گلیشیر پگھل رہے ہیں، جانوروں اور پودوں کی انواع معدوم ہورہی ہیں، سمندر زہریلے ہورہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگ ہجرت کررہے ہیں۔ ماحولیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ابھی ہورہا ہے وہ ایک ایسی دیوہیکل ماحولیاتی تبدیلی کا محض ایک ٹریلر ہے جس کی مکمل شکل بہت خوفناک ہوگی۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگردُنیا کی تباہی کے عوامل کا ذکر کیا جائے تو جنگوں کا نمبر اول نہیں ہوگا بلکہ ایک نظریہ کا نام سر فہرست ہوگا ۔ اس نظریے کا نام ہے “ترقی”ہے۔ جی ہاں !آپ کو حیرت ہو رہی ہوگی کہ کیا اس نظریے نے دنیا کو جس تباہی سے دوچارکیا ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ سولہویں صدی عیسوی سے مغرب میں پیش کیے جانے والے ترقی کے نظریے نے دنیا کی تباہی بشمول انسانوں کی تباہی کا جو سفر شروع کیا وہ اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ اس کو میری خام خیالی کہیں ، مگر میں اپنے دلائل بعد میں دوںگا مگر یہ بتاتا چلوں کہ یہ میرے خیالات نہیں ہیں بلکہ مغربی مفکرین کے ہی پیش کردہ افکار ہیں۔فریڈ میڈ گاف اور بلامی فوسٹر نے 2011 میں ایک مختصر جامع کتاب لکھی ۔
What every environmentalist needs to know about capitalism
فریڈ صاحب مکمل ڈاکٹر ہیں ، پروفیسر ہیں ورمانٹ یونیورسٹی میں ،کئی کتب کے مصنف ہیں۔پلانٹ اور سوائل سائنس ان کا شعبہ ہے۔
ان کی کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔اس 160صفحہ کی کتاب میں بہت کچھ دلائل کے ساتھ درج ہے۔جولوگ مطالعہ کریں گے بات سمجھ جائیں گے۔ یہ ایک کتاب نہیں ہے ، سیکڑوں کتب ، تحقیقاتی مقالے موجو دہیں ۔ یہ تو مختصر اور آسان تھی اس لیے حوالہ دیا۔
چین کی مثال دوں جہاں ماوزے تنگ نے ترقی کے نظریے کو اپنانے کے لیے تیز سفر شروع کیا ۔ ماوزے تنگ نے زراعی پیداوار بڑھانے کی خاطر 1958 میں اپنے ملک سے چڑیوں کو ختم کرنے کی مہم چلائی ، ’’اسمیش اسپیرو‘‘ ۔ بتایا جاتا ہے کہ کوئی 60 کروڑ چڑیائیں مار دی گئیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ کھیتوں میں جو بیج بوئے جاتے ہیں وہ چگ لیتی ہیں اس لیے فصل کم ہوتی ہے تو فصل بڑھانی ہے تیز ترقی کے لیے تو چڑیا مار دو۔انعامی اسکیمیں رکھ کر چڑیائیں ماری گئیں، پوری قوم نے اپنے لیڈر کے وژن کا ساتھ دیا۔اس کے اگلے ہی سال کیا ہوا جب چڑیا مر گئیں تو ان کی فصلوں پر ٹڈی دل نے حملہ کر دیا۔ پہلے تو وہ بیج کوروتے تھے اب کھڑی فصلیں ٹڈی دل کھا گئے ۔ یوں چین میں ایسا قحط پڑا کہ ساڑھے چار کروڑ لوگ قحط سالی سے مارے گئے ۔ ماوزے تنگ کوسمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا دوا کرے ، ترقی کرنا چاہ رہا تھا،مگر حال یہ ہوا کہ ملک میں کھانے کوکچھ نہیں بچا۔ ایک اور وضاحت ، اس نے صرف چڑیا نہیں بلکہ چوہوں، مچھروں، مکھیوں کے لیے بھی مہم چلائی تھی، بعد میں کھٹمل بھی شامل کرلیے گئے تھے ۔ چڑیا کی وجہ تو اوپر بتا دی، چوہوں کی وجہ طاعون ، مچھر کی وجہ ملیریا اور مکھیوں کی وجہ پیٹ کی بیماریاں تھیں۔اب چڑیوں کی نسل کشی سے پتا چلا کہ نظام قدرت ایسا تھا کہ چڑیا ٹڈیوں کو بھی کھا جاتی تھیں اور ان کی موجودگی ٹڈیوں کو حملہ آور ہونے سے بچاتی ۔ اب ہوا یہ کہ ماوزے تنگ کو روس سے معاہدہ کرکے چڑیا امپورٹ کرانی پڑ گئی۔یہی حال بھار ت میں بھی ہوا ، اسکا نتیجہ کسانوں کی اجتماعی خودکشیوں کی بھیانک شکل میں آج بھی پورے بھارت میں چھایا ہوا ہے۔ترقی کی ایسی قیمت جو پوری دنیا خود انسانوں کی تباہی کے بدلے ہو،کیسے خوبصورت اندز میں سرایت کر گئی ہے کہ اسکے خلاف بات کرنے یا سمجھانے لگو تو پہلے لوگ یہ کہتے ہیں کہ “آپ بھی تو استعمال کرتے ہو”۔ یوں سامنے والا شرمندہ سا ہوجاتا ہے ، بغیر اس بات کو ڈسکس کیے بغیر کہ پہلے یہ توبتاؤکہ “ترقی “، انسانوں اور اس پوری دنیا کے لیے اچھی ہے یا بد ترین ؟ اسکے بعد یہ بتاؤ کہ بدترین چیز کے ساتھ یا ایسی چیز جو بہت بری ہو ، زہر کی مانند ہو آپ اسکے ساتھ کیسا سلوک کروگے ؟ اسکو قرآن کی مثال سے سمجھائیں کہ شرع اسلامی میں سور یعنی خنزیر کھانا کس صورت میں جائز ہے ؟کیا اس کا بروسٹ، بریانی، تکہ ، قورمہ بنا کر اسکو پوری طرح بنا کر کھایا جائے گایا صرف اتنا کہ حالت موت سے بچا جا سکے وہ بھی انتہائی کراہیت کے ساتھ۔ سود کی حرمت میں اللہ نے صاف فرما دیا کہ یہ حالت جنگ ہے ، بات بہت بڑی ہے اور کافی ہے مگر پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ “ماں سے ستر دفعہ زنا کرنے جیسا ہے”۔ حالت جنگ کے بعد یہ کیوں فرمایا گیا ؟ اس لیے کہ کراہیت برقرار رہے ، اس کو انجوائے نہیں کیا جائے ۔مسلمانوں پر بھی نظریہ “ترقی” مسلط کیا گیا ہے، ان سے ان کی اپنی روایتی تہذیبی تاریخی ورثے کو چھین کر مغرب نے اپنا نظریہ ترقی مسلط کیا ہے تاکہ وہ دنیا پر اپنے طریقے سے راج کر سکیں۔
بہرحال نیوزی لینڈ، دنیا کی تباہی کی خبر سے بات آگے نکل گئی ، جو بتانی ضروری تھی۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ وائرل نہیں ہوئی ابھی مگر وضاحت ضروری ہے۔ جاوید غامدی کے اہم شاگرد و داماد حسن الیاس امریکا سے کچھ ماہ قبل کراچی آئے۔ یہاں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن عمیر محمود نے کئی احباب کو بلا کر ان کے ساتھ ایک مکالمہ کی نشست رکھی ۔ نشست کی وڈیوز اس ہفتے اپلوڈ ہوئی ۔ ایک وڈیو کلپ میں حسن الیاس نے غامدی فکر کا دفا ع اور اس کو حق بیان کرتے ہوئے ، اجماع امت کے غلط ہونے کے بارے میں جواب دیتے ہوئے اپنا تجربہ بیان کیا۔ ساتھ ہی ناظرین کو ایک اوپن چیلنج دے دیا کہ کوئی وراثت کے حوالے سے قرآن میں ایک حکم کو سمجھا دے۔ قرآن کی آیت کو بریف کرتے ہوئے انہوں نے سوا ل بنایا کہ ، عورت کے رخصت ہونے پر زندہ ماں باپ کو ایک بٹا چھ حصہ ملے گا ، اگر مرحومہ کی اولاد نہیں ہو صرف شوہر ہو تو ایک بٹا چار ملے گا۔اگر بیٹیا ں ہو تو کل ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔اس مثال کو انہوں نے مرحومہ کے ترکہ کو 12 روپے مثال دے کر بیان کیا اور بتایا کہ 12روپے اس تقسیم سے پورے نہیں ہوتے کم پڑجاتے ہیں۔
چونکہ اجماع امت پر کھلی ضرب لگائی گئی ہے ، اس لیے اس سوال کا جواب ضروری تھا ، چنانچہ ڈاکٹر -م کی زبانی جواب پیش ہے ۔
المورد کے متاثرین کا ایک عام گر صحافیانہ فنکاری ہے۔ چنانچہ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ اصل دلیل پر با ت کرنے کے بجائے جذباتی قسم کا عنوان دے کر پروپیگنڈا تکنیک اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً غامدی صاحب کے خانہ ساز قانونِ وراثت کو “قرآن کا قانون” اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو انسانی مداخلت” قرار دینے والے ایک جذباتی شذرہ لکھنے والے ڈاکٹر صاحب نے صحافیانہ فنکاری کی روایت برقرار رکھتے ہوئے آج اس پر مزید ردا چڑھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ “عول” کا اصول مانیں تو قرآن کے حساب میں غلطی ماننی پڑے گی۔ یہ وہی تکنیک ہے جو پرویز، اسلم جیراج پوری اور دیگر منکرینِ حدیث نے کئی دہائیاں قبل اختیار کی تھی۔کچھ نہیں تو پرویز کا مضمون “یتیم پوتے کی وراثت” ہی پڑھ لیجیے۔ مجال ہے کہ عول کے مسئلے پر ہمارے ان جذباتی ڈاکٹر صاحب یا ان کے مقتدا کے پاس پرویز کے اس مضمون سے آگے کی کوئی دلیل “ہو۔ چونکہ ایسی بے بنیاد باتوں پر علمائے کرام پہلے ہی مفصل تنقید کرچکے ہیں، اس لیے ان پر مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے، لیکن جذباتی نوجوانوں کو اصل حقیقت دکھانے کےلیے چند مختصر نکات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ پہلے تو اس اصولی حقیقت کو سمجھیے کہ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ورثا کے حصے یوں مقرر کیے جائیں کہ لازماً ہی پورا ترکہ ان میں تقسیم ہوجائے اور باقی کچھ نہ بچے، نہ ہی یہ ضروری ہے کہ تمام ورثا ایسے ہوں کہ ان میں حصص کی تقسیم کے بعد ہی ترکہ ختم ہوجائے۔ عین ممکن ہے کہ کبھی ترکہ باقی ہو اور مزید وارث نہ ہوں، تو ایسی صورت میں موجود ورثا کے حصص میں متناسب اضافہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ عین ممکن ہوتا ہے کہ کبھی ورثا زیادہ ہوں تو ان کے حصص میں متناسب کمی کی جائے۔
پہلی صورت کو “ردّ” کہتے ہیں اور دوسری صورت کو “عول”۔ مثلاً میت نے پیچھے صرف ماں چھوڑی تو ماں کا مقررہ حصہ یا تو چھٹا حصہ ہے (جب میت کی اولاد ہو) یا تیسرا حصہ ہے (جب میت بے اولاد ہو)۔ اب اس ماں کو تیسرا حصہ دے چکنے کے بعد باقی کا کیا کریں؟ یہ حصہ بھی ماں کو لوٹا دیا جاتا ہے اور اسے رد کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا مقررہ حصہ 33 فیصد تھا لیکن وہ 100 فیصد کردیا گیا۔ اسی طرح اگر کسی عورت کے وارث کے طور پر شوہر اور دو بہنیں ہوں تو شوہر کو نصف اور بہنوں کو دو تہائی حصہ دینا ہوتا ہے لیکن ان کا مجموعہ اکائی سے بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے سب کے حصص میں متناسب کمی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شوہر کو 6 میں سے 3 حصے دینے کے بجائے 7 میں سے 3 حصے دیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب پہلی صورت میں 33 فی صد سے 100 فی صد کردیا اور یہ “قرآن کی غلطی” نہیں تھی تو دوسری صورت میں شوہر کے 50 فی صد کو 43 فی صد کردیا تو یہ “قرآن کی غلطی” کیسے ہوگئی؟ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو؟
2۔ اس کے بعد دوسری اصولی حقیقت یہ نوٹ کیجیے کہ قانون جب بھی اصول دیتا ہے وہ عمومی حالات کےلیے ہوتا ہے اور ہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ کچھ borderline cases ہوں جو ان عام اصولوں کے بجائے استثنائی ضوابط پر قائم ہوتے ہیں۔ مثلاً عام حالات کےلیے یہی اصول ہے کہ جس کا جو مقررہ حصہ ہے، وہ اسے دے دیا جائے لیکن بعض حالات میں ان حصص میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور کمی بھی ہوسکتی ہے اور ایسے استثنات سے اصول غلط ثابت نہیں ہوتا بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق استثنا سے تو اصول کی صداقت ہی ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ جب یہ مسئلہ صحابۂ کرام کے سامنے اٹھا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عول کا طریقہ اپنایا اور دیگر صحابہ نے تائید کی۔ بعض صغار صحابہ، جیسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، نے اگر اس سے مختلف راے قائم بھی کی تو ان میں کسی نے یہ بھونڈا نعرہ بلند نہیں کیا کہ عول کا طریقہ مان لیں تو یہ تو قرآن کی غلطی”ہوجائے گی!
اس کی ایک اور مثال بھی ہے کہ اگر کسی عورت کی موت کی صورت میں ورثا صرف اس کے والدین اور شوہر ہوں (میت کی اولاد بھی نہ ہو اور بھائی بہن بھی نہ ہوں)، تو اگر عام قاعدے پر جائیں تو پہلے شوہر کو نصف اور ماں کو ایک تہائی دیا جائے گا (کہ یہ دونوں ذوی الفروض ہیں ، یعنی ان دونوں کے مقررہ حصے ہیں) اور پھر باقی میت کے والد کو ملے (کہ وہ عاصب ہے اور عاصب کو باقی ملتا ہے) لیکن ایسا کیا جائے تو میت کے شوہر کو 12 میں سے 6 حصے ، اور میت کی ماں کو 12 میں سے 4 مل جائیں گے ، جبکہ میت کے والد کےلیے 12 میں سے 2 بچ جائیں گے، حالانکہ قرآن کا عام اصول یہ ہے کہ ایک ہی سطح کے مرد و عورت میں مرد کو عورت سے دوگنا ملتا ہے۔ یہاں تو ماں کو باپ سے دوگنا ملا! سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہی راے تھی لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو راے اختیار کی، اور جسے صحابہ نے بالعموم قبول کیا، وہ یہ تھی کہ پہلے شوہر کو اس کا حصہ (12 میں سے 6) دیا جائے؛ پھر باقی میں تہائی ماں کو اور باقی (یعنی باقی کا دو تہائی) باپ کو ملے۔ یوں ماں کو باقی 6 میں سے 2 اور باپ کو 4 مل جائیں گے۔ یہ قرآن کریم کے لفظ کی بھی رعایت ہے (و ورثہ ابواہ) اور اصول کی بھی(للذکر مثل حظ الاثیین اور فلامہ الثلث)۔ تاہم غور کی بات یہ ہے کہ فریقین میں کسی نے اسے “قرآن کی غلطی” جیسی صحافیانہ سرخی نہیں دی۔ اسی نوعیت کا مسئلہ اس وقت بھی پیدا ہوتا ہے جب مرد کی موت کی صورت میں بیوی اور والدین اس کے وارث ہوں۔ ان دو مسائل کو “عمریّتان” کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا اصول سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا تھا۔
3۔ یہ جو ابھی اصول بتایا گیا کہ اصول عام حالات کےلیے ہوتے ہیں اور استثنائی صورتوں سے اصول غلط ثابت نہیں ہوتا، اس کی ایک دلچسپ مثال میراث کی آیات میں ہی موجود ہے۔ عام اصول،جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا، یہ ہے کہ ایک سطح پر موجود مرد و عورت میں مرد کو عورت سے دوگنا حصہ ملے (للذکر مثل حظ الانثیین)۔ یہ اصول قرآن کریم نے میاں بیوی، ماں باپ، بیٹے بیٹی اور بھائی بہن کےلیے بیان کیا ہے لیکن ماں شریک بھائی اور بہن ہوں تو ان کو تہائی حصے میں شریک قرار دیا گیا ہے (فھم شرکآء فی الثلث) اور اس وجہ سے فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ تہائی حصے میں وہ برابر کے حق دار ہوں گے۔
4۔ عول کا اصول خلافِ قرآن بھی نہیں ہے۔ دیکھیے نا کہ قرآن نے اکیلی بیٹی کا حصہ آدھا مقرر کیا اور للذکر مثل حظ الانثیین کا اصول دے کر یہ بھی بتادیا کہ اکیلے بیٹے کو سارا ترکہ ملے گا ۔ تاہم اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو تو کیا کیا جاتا ہے؟ بیٹی کا حصہ 50 فی صد سے کم ہوکر 33 فی صد ہوجاتا ہے اور بیٹے کا حصہ 100 فی صد سے کم ہو کر 66 فی صد ہوجاتا ہے۔ یہی تو عول ہے!
5۔ عول کا اصول خلافِ قرآن کیا، خلافِ عقل بھی ہر گز نہیں ہے۔ ذرا ان صحافیانہ فنکاری کے گر آزمانے والے جذباتی دانشوروں سے پوچھ لیجیے کہ اگر زید کے ذمے عمرو کے 20 لاکھ، بکر کے 30 لاکھ اور علی کے 50 لاکھ کا قرضہ ہو، لیکن زید کا کل اثاثہ 80 لاکھ ہو،تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا؟ کیا عمرو کو 20لاکھ اور بکر کو 30 لاکھ دے کر علی سے کہا جائے کہ یار ، بس 30 لاکھ ہی باقی بچے ہیں، یہی لے لو؟ یا عمرو، بکر اور علی تینوں کے حصص میں متناسب کمی یوں کی جائے کہ عمرو کو 20 لاکھ کے بجاے 16 لاکھ، بکر کو 30 لاکھ کے 24 لاکھ اور علی کو 50 لاکھ کے بجاے 40 لاکھ دیے جائیں؟