پسند کی شادی جرم نہیں

656

’’کیسی باتیں کر رہی ہو بہن! ابھی مہینہ بھر پہلے ہی تو اتنی دھوم دھام سے شادی ہوئی تھی‘ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ طوبیٰ کو طلاق ہوگئی۔‘‘
سمیرا کی باتیں سن کر میرا تو سر چکرا گیا۔ ہمارے علاقے کے کونسلر متین صاحب کی لاکھوں میں ایک خوب صورت، ہونہار بیٹی طوبیٰ جس کی شادی انہوں نے اپنے جگری دوست کے بیٹے سے بڑے چاؤ سے کی تھی۔ اتنی جلدی طلاق لے کر والدین کے گھر واپس پہنچ گئی۔ دل کو بہت رنج ہوا اتنی اچھی لڑکی کا ایسا نصیب… پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکا تو اپنی یونیورسٹی کی ایک کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتا تھا پر اس کے والدین نہ مانے اور یہ سوچ کر کہ ’’شادی کے بعد خود بخود عشق کا بھوت اتر جائے گا‘‘ زبردستی طوبیٰ سے شادی کروا دی۔ شادی تو اس نے والدین کے دباؤ میں کر لی پر نئی نویلی دلہن کو اپنے دو سالہ رومانس کا قصہ پہلے ہی روز سنا ڈالا۔ طوبیٰ بے چاری صبر کا گھونٹ بھر کر خاموش ہوگئی۔
ایک ماہ گزر گیا ندیم کی سردمہری برقرار رہی۔ طوبیٰ نے اپنی ازدواجی زندگی کی تلخیاں سب سے چھپا کر رکھیں… اور سب کے سامنے اپنے مجازی خدا کو شرمندہ نہ کیا۔ لیکن ایسی باتیں زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہ سکتیں۔ آخر کار طوبیٰ کے والدین تک بھی پہنچ ہی گئیں۔ انہوں نے اتنے بڑے دھوکے پر خلع کا مقدمہ کر دیا… اور یوں اس کا گھر اجڑگیا۔
ابھی اس افسوس ناک واقعے کو گزرے چند روز ہی ہوئے تھے کہ میری کام والی رشیدہ روتی پیٹتی میرے گھر پہنچی۔ رشیدہ سندھ کے کسی گوٹھ سے چند سال قبل محنت مزدوری کرنے اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ کراچی آئی تھی۔ اس کا شوہر نکما تھا اور نشے کا عادی تھا‘ بیوی بچے کام کرتے اور وہ گھر پر پڑا نشہ کرتا۔ اب اس نے دو لاکھ کے عوض اپنی سترہ سالہ بیٹی کا رشتہ ایک ادھیڑ عمر اپاہج دکان دار سے طے کر دیا‘ جو خود پوتے پوتیوں والا تھا۔ جب کہ رشیدہ کی بیٹی اپنے ہم عمر پھوپھی زاد کو پسند کرتی تھی۔
رشیدہ نے احتجاج کیا تو اس کے نشی ٔ شوہر نے اسے طلاق کی دھمکی دی اور دو دن کے اندر نکاح کروا دیا۔
اس کی معصوم بیٹی ماں سے چمٹ چمٹ کر روتی رہی اورسنگ دل باپ کو دہائی دیتی رہی پر باپ کی غیرت نشے کے دھوئیں کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو چکی تھی۔
رابعہ کو اپنی آنکھوں میں سجے معصوم خوابوں کو دفنانا پڑا… اور وہ زندگی کے نئے سفر کے لیے تپتے صحراؤں کی سمت گامزن ہوگئی۔
کچھ خوش نصیب اگر اپنی پسند کا ہم سفر حاصل کرنے کے لیے سماج کے ٹھیکیداروں سے جیت بھی جائیں تو انہیں اس جرم کی سزا زندگی بھر دی جاتی ہے۔ میرے والدین کی شادی بھی اسی نوعیت کی تھی۔
امی جان ہمارے بابا کی برادری سے نہی تھیں۔ وہ میری چھوٹی پھوپھو کی گہری سہیلی تھیں‘ بابا جان انہیں پسند کرتے تھے‘ انہوں نے دادی سے ان کے گھر رشتے کی بات کرنے کو کہا۔ دادی اپنی برادری سے باہر کی بہو لانا نہیں چاہتی تھیں حالانکہ وہ میری امی جان کو بچپن سے جانتی تھیں اور ان کی خوبیوں کی معترف بھی تھیں۔ بابا جان نے انہیں منانے کے لیے بہت جتن کے پر وہ نہ مانیں۔ آخر کار داداجان کے سمجھانے بجھانے پر وہ بادل ناخواستہ راضی ہوئیں۔ پر انہیں کھلے دل سے کبھی گھر کی بڑی بہو تسلیم نہ کیا اور نہ ہی انہیں ان کا جائز رتبہ اور مقام دیا۔
میری دونوں چچیاں خاندان سے آئی تھیں۔ دادی جان نے ہمیشہ انہیں عزیز رکھا۔ گھر یلو معاملات ہوں‘ لین دیں یا عزیز و اقارب سے میل ملاقات تمام مشورے اپنی پسند سے لائی چھوٹی بہوئوں سے ہی کرتیں۔
دادی جان کی اس روش کی وجہ سے برادری والے بھی امی جان کو اہمیت نہ دیتے۔ دادی کے اس سرد رویئے کا اثر ہم دونوں بہن بھائیوں پر بہت گہرا ہوا۔ ہم ذہین اور قابل ہونے کے باوجود خود اعتمادی سے محروم رہے ’’باہر والی بہو کی اولاد‘‘ ہونے کے جرم میں ہم سے سب کھچے کھچے رہتے۔ ہمارے بابا جان بہت اچھے تھے لیکن وہ بحث تکرار سے گھر کا ماحول خراب کرنا نہیںچاہتے تھے اس لیے وہ گھریلو معاملات سے دور ہی رہے۔
یہ کہانی ایک رشیدہ اور طوبیٰ اور میری امی جان کی نہیں ایسی بہت سی کہانیاں ہمارے اردگرد معاشرے میں موجود ہیں۔
نکاح کے پاکیزہ بندھن کے لیے سب سے اہم بات جس کا حکم رب نے دیا ہے وہ زوجین کی رضا مندی ہے۔ اسلام نے اس نکاح کو پسندیدہ قرار دیا ہے جس میں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا عنصر شامل ہو۔ اس کے بغیر اسلام میں نکاح کا تصور ہی نہیں ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہم نے شادی بیاہ کو بھی کاروبار بنا لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ والدین اولاد کے ولی ہیں اور اُن پر سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ پر اس حق کی بابت آخرت کے روز وہ جواب دہ بھی ہیں۔ اگر ہم اپنے منصب اور رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بچوں کا نکاح زبردستی کروائیں گے تو یہ بات قرآن اور سنت کے بر خلاف ٹھیرے گی اور اللہ پاک کی ناراضی کا باعث بنے گی۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی نبیؐ کے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ میرے والد نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا ہے۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ ’’تمہیں اختیار ہے کہ اسے اپناؤ یا رد کر دو۔‘‘
زبردستی کے نکاح ہمارے معاشرے میں شرح طلاق میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کو اسلام نے نکاح میں اپنی رضامندی کا مکمل اختیار دیا ہے۔ اس حق کو وہ اپنے ولی کی موجودگی میں استعمال کرتے ہوئے ازدواجی زندگی کا آغاز کریں تو اس صورت میں ہم جھگڑوں اور طلاق کی روک تھام کر سکتے ہیں۔

حصہ