ڈینگی سے بچنا ناممکن ہے‘ ہم کیا کریں؟ ڈاکٹر میرے گھر میں دو افراد کو ڈینگی ہو چکا ہے‘ ایک میری والدہ کو دوسرا بیٹی کو۔ ہم نے گھر کو چاروں طرف سے جالیوں سے ڈھانک دیا ہے لیکن کیا کریں گھر میں بچے بار بار آتے ہیں‘ دروازہ کھلتا ہے‘ مچھر اندر آجاتے ہیں۔ گھر میں ہم ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہیں۔ گھر میں کہیں پانی کا برتن کھلا نہیں چھوڑتے‘ باتھ روم کا لوٹا‘ بالٹی وغیرہ کا پانی تبدیل کرتے ہیں۔ جو باتھ روم یا واش بیسن کم استعمال ہوتا ہے‘ اُس کے اندر فنائل وغیرہ ڈالتے ہیں۔ بارش سے پہلے چھت کی اچھی طرح صفائی کی۔ چڑیوں کے پانی پینے کے لیے رکھے گئے برتن کا پانی روز تبدیل کرتے ہیں۔ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ ڈینگی مچھر کی پرورش صاف پانی میں ہوتی ہے اس لیے تمام ممکنہ احتیاط کرتے ہیں۔ پانی والی بیل بوتل میں ہے اس میں بھی مچھر مار اسپرے کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے گھر میں ساری احتیاط کر لیں‘ پڑوس کے کئی گھروں میں چھت پر فالتو اشیا اور کباڑ پڑا ہے جس میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے اس جگہ مچھر کی پیدائش ہو سکتی ہے۔ میں نے پڑوسی کی توجہ دلائی لیکن میں سارے محلے والوں کی چھت تو صاف نہیں کرسکتا۔
دوسروں کے گھر پرورش پا کر مچھر اڑتے ہوئے ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور دو گھر والوں کو شدید بیمار کر دیا۔ ہمارے بزرگ پہلے سے ہی کمزور ہیں انہیں مزید ڈینگی ہو گیا۔میں تو تنگ آگیا ہوں کہاں جائوں کیا کروں؟ بچے اسکول جاتے ہیں اسکول کے قریب پانی جمع ہے‘ مچھر وہاںسے آجاتے ہیں۔
ڈینگی جیسی خطرناک بیماری کا خیال ہر وقت ذہن پر طاری رہتا ہے‘ یہ احساسات معاشرے میں اکثر افراد کے ذہنوں میں ہیں۔
اس کو سمجھنے کے لیے میں نے اپنے سینئر استاد کی وہ اہم بات بتاتا ہوں جس سے مسئلے کے حل کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
جب میں نے 1992ء میں اوجھا اسپتال برائے ٹی بی میں میڈیکل آفیسر کے طور پر کام شروع کیا تو ٹی بی کا ڈر اور خوف تھا۔ ٹی بی لگنے والی بیماری ہے۔ اوجھا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عاشق حسین صاحب نے کہا ’’بیٹا! میں بیس سال سے ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ اسپتال میں اور او پی ڈی میں کام کر رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھر میں ٹی بی میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور عملہ میں ایک فیصد سے بھی کم کو ٹی بی کی بیماری لگتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹی بی کے جراثیم تو تقریباً کام کرنے والے عملے کے تمام افراد کے جسم میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ بلکہ عملے کے علاوہ ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ رہنے والوں کو بھی کیونکہ اگر سینے کی ٹی بی کا مریض کھانستا یا چھینکتا ہے تو تقریباً دس بیس لاکھ جراثیم سانس سے باہر آتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ چھینک اور کھانسنے کی رفتار 150 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے جو پورے کمرے میں پھیل جاتے ہیں‘ ائرکنڈیشنڈ‘ بس میں‘ جہاز میں مسافر ہوں تو سب کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے بہت سے افراد جو ٹی بی کے مریضوں کے ساتھ کام کرتے ہیں‘ ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ سفر کرتے ہیں ان کے جسم میں ٹی بی کے جراثیم داخل ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی ٹی بی کے جراثیم داخل ہوتے ہیں ان کی لڑائی جسم کے Defence سے ہوتی ہے وہ ان جراثیم کو قابو کرکے ان کے گرد دیوار بنا دیتے ہیں اور جسم میں پھیلنے نہیں دیتے۔ یہ دیوار پروٹین کی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتایا کہ آپ اچھی غذا‘ انڈا‘ گوشت لیں‘ اپنی صحت کو اچھا رکھنے کی کوشش کریں۔ ذہنی صحت کی خرابی جسم کو کمزور کرتی ہے اس لیے ذہنی پریشانی سے بچیں۔ سگریٹ نوشی سے بچیں۔ دفاعی نظام مضبوط ہوگا تو ٹی بی کے جراثیم نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
دفاعی نظام مضبوط کرنے کا فائدہ:
مثال دی کہ سمجھیں یہ وائرس‘ جراثیم پھیلنے والی بیماریاں‘ دہشت گرد ہیں۔ اگر آپ کے ملک کے دفاع کا نظام مضبوط ہوگا تو دہشت گرد ملک میں گھس بھی جائیں پھر بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے کیوں کہ دفاعی نظام مضبوط ہے۔ ملک کے دفاع کے لیے لڑنے والے مل کر ان دہشت گردوں کو قابو کر لیں گے۔ ان کا اسلحہ چھین لیں گے‘ ان کے بم کو ناکارہ بنا دیں گے۔اب ڈینگی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ڈینگی وائرس مچھر کے کاٹنے سے جسم میں داخل ہوتا ہے مچھر سے کیسے بچیں یہ سب جانتے ہیں اور اپنی صلاحیت کے مطابق پانی کو جمع نہ ہونے دینا‘ پانی جمع ہو تو اس میں فنائل ڈالنا‘ جالیاں لگانا‘ گھروں میں جراثیم کش دوا کا اسپرے وغیرہ۔ لیکن ڈینگی پھر بھی معاشرے میں موجود ہے۔ پارک‘ مسجد‘ بازار… گھر سے تو نکلنا ہے اس لیے اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ کام کرنے ہیں:
-1 ڈینگی کو پیدا ہونے والے پانی کے ذخیرہ کے خلاف کام۔ یہ حکومت کا کام ہے لیکن گھر میں اور آفس میں ہم کر سکتے ہیں۔
-2 گھر‘ آفس‘ مسجد میں جالیاں لگانا۔
-3 پھر بھی امکان ہے کہ ڈینگی مچھر کاٹ لے اس کے لیے اپنے جسم کو اتنا مضبوط بنانا ہے کہ ہمارا دفاعی نظام ڈینگی وائرس کو یا تو 100 فیصد قابو کر لے یا مار مار کر اتنا کمزور کر دے کہ اگر ڈینگی بخار ہو بھی تو وہ اتنی کم شدت کا ہو کہ جسم کو نقصان نہ پہنچ سکے۔
-4 اگر ڈینگی ہو بھی جائے تو آرام کرنا‘ پانی زیادہ پینا‘ قوت بخش غذا کا استعمال اور معالج کی نگرانی میں علاج کرانا۔
ڈینگی وائرس جسم میں جیسے ہی داخل ہوتا ہے جسم کے دفاعی نظام کے سپاہی اس سے مقابلہ کرتے ہیں۔ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ہم جسم کی وائرس کے خلاف لڑنے والی فورس کو مضبوط کریں۔
ڈینگی وائرس کا مقابلہ کرنے والی فورس کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ غذائی اجزا یہ ہیں:
-1 زنک(Zinc)‘ -2 وٹامن D-3‘ -3 آئرن‘ -4 وٹامن بی۔
-1 زنک (Zinc)
زنک جسم کے مدافعتی نظام (Immune System) کو مضبوط بناتا ہے‘ زنک اگر جسم کو ملتا رہے تو بیماری کی دفاعی صلاحیت اور وائرس سے لڑنے کی صلاحیت دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انٹرنیشنل سروے کے مطابق زنک کی کمی کی وجہ سے جسم کی دفاعی صلاحیت کم ہوتی ہے‘ وہ بچے جن میں زنک کی کمی ہو ڈینگی کا شکار باآسانی ہو جاتے ہیں۔
زنک کی کمی موجودہ معاشرہ میں کھانے کے رجحانات کی تبدیل ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہمارے گھروں میں پہلے دال گوشت‘ مٹر قیمہ‘ گوار کی پھلی‘ مونگ مسور کی دال‘ دال کی کھچڑی‘ چنے کی دال کی قبولی (چاول اور چنے کی دال کی ڈش)‘ بائولی ہنڈیا (جس میں ساری دالیں ملا کر پکائی جاتی ہیں)‘ شامی کباب جس میں چنے کی دال اور گوشت دونوں ہوتے ہیں۔ یہ غذائیں زنک کو بڑھاتی ہیں۔ زنک دالوں‘ پھلیاں والی سبزیوں‘ لال اور سفید لوبیا‘ پالک وغیرہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے بزرگوں کے کھانے کے اسٹائل کو اپنا لیں تو زنک کی کمی سے با آسانی بچ جائیں گے۔ مثلاً صرف گوشت کے کباب کے مقابلے میں شامی کباب جس میں چنے کی دال ہوتی ہے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ میری والدہ اور دیگر بزرگ خواتین گھر میں اکثر خربوزے کے بیج‘ تربوز کے بیج‘ کدو کے بیج گھر میں صاف کرتیں اور انہیں کھاتے رہتیں۔ ہمیں بھی کھلاتیں۔ مٹھائی میں بیسن کے لڈو‘ تل کے لڈو استعمال کیے جاتے۔ تل میں زنک زیادہ ہوتا ہے۔ بیج کدو‘ تربوز‘ خربوزہ‘ کھیرے کے ہوں یا بادام وغیرہ سب میں زنک بہت زیادہ ہوتا ہے۔اگر بیجوں کا استعمال زیادہ کریں تو زنک جسم میں موجود ہوگا۔ وائرس کا حملہ ہوا تو زنک وائرس کا مقابلہ کرے گا۔ ختم کر دے گا یا وائرس کو مار مار کر کمزور کر دے گا۔
زنک کا استعمال روز مرزہ زندگی میں کریں۔ اگر ڈینگی بخار کا شبہ ہو تو غذا کے علاوہ گولیاں یا شربت بھی لے سکتے ہیں۔ (اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔)
وٹامن D-3:
یہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے اور وائرس کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ صبح کی دھوپ وٹامن D-3 کا سب سے اچھا ذریعہ ہے۔ انڈا‘ کلیجی‘ دودھ‘ وٹامن ڈی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگر ڈینگی کا بخار محسوس ہو تو وٹامن ڈی کا کیپسول ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔
وٹامن بی 12:
یہ جسم میں Platelets کو بڑھاتی ہے۔ خون کے دیگر Cells کو صحت مند رکھتی ہے۔ اگر جسم میں وٹا من بی کی کمی ہو تو Platelets کم ہو جاتے ہیں۔ یہ غذائیں استعمال کریں انڈا‘ دودھ‘ دہی‘ گوشت۔
آئرن:
آئرن یا فولاد Platelets کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ اس لیے گوشت‘ انڈا‘ سبزیاں‘ کیلے و دیگر پھل‘ ہرا دھنیا‘ لوبیا وغیرہ میں آئرن ہوتا ہے اسے استعمال کریں۔
وٹامن سی:
وٹامن سی بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن سی رس والے پھلوں‘ مرچ‘ ٹماٹر وغیرہ میں زیادہ ہوتا ہے۔اہم بات ڈینگی بخارکے حملے کا اثر کمزوروں پر زیادہ ہوتا ہے اس لیے اپنے جسم کو مضبوط بنائیں۔
حاملہ خواتین اور ڈینگی بخار:
حاملہ خواتین کی بہت زیادہ حفاظت کریں۔ دوران حمل خاص طور پر آخری چند ماہ میں ڈینگی کا بخار ہو جائے تو کم وزن کا بچہ‘ قبل از وقت پیدائش یا بچے کی زندگی کا متاثر ہونا ہو سکتا ہے۔حاملہ خواتین کو آخری مہینوں میں زنک وغیرہ زیادہ دیں۔ ہم نے سینئر خاتون انوری بیگم صاحبہ سے بات کی انہوں نے بتایا کہ پہلے حمل کے آخری مہینوں میں چاروں مغز‘ کھیرا‘ خربوزہ‘ کدو‘ تربوز کے بیج وغیرہ اور بادام کو ملا کر مزیدار ڈش تیار کی جاتی تھی۔ یہ تمام چیزیں زنک بڑھاتی ہیں۔ جسم کا مدافعتی نظام مضبوط کرتی ہیں۔ یہ چیزیں استعمال کرنے والی حاملہ کے بچے کو ڈینگی سے نقصان کا امکان کم ہوتا ہے۔
میڈیکل ریسرچ اسکالر ڈاکٹر آصف خان نے بتایا کہ زنک‘ وٹامن D-3‘ B-12‘ وٹامن سی آئرن والی غذائوں کے علاوہ اگر ضرورت پڑے تو ڈاکٹر کے مشورے سے گولیاں وغیرہ بھی لے سکتے ہیں۔ ڈینگی میں Blood CBC کی رپورٹ کروائیں اور اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ آرام‘ پانی کے استعمال کے علاوہ آپ کا ڈاکٹر اینٹی وائرل دوا دے سکتا ہے۔ Blood CBC ہر دوسرے‘ تیسرے دن کروائیں اور ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں۔