یوم تاسیس اسلامی جمعیت طالبات پاکستان:جمعیت میدان عمل میں لے کر عزم عالیشان

666

قیام پاکستان کے بعد ہمارے عدو جن سے ہماری جغرافیائی آزادی برداشت نہیں ہو رہی تھی، ہماری ذہنی ازادی کے دشمن بن گئے۔ 1960 کے بعد تو وہ حالات تھے کہ اس ملک میں شعائرِ اسلام کو کھلم کھلا نشانہ تضحیک بنایا جانے لگا۔ حیا اور پردے کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ فحاشی اور عریانی کو فروغ ملا اور دشمنانِ ملت کے ہتھیاروں کا رخ سیدھا نوجوانوں کی جانب تھا۔ تعلیمی ادارے فحاشی کے گڑھ بنتے جا رہے تھے۔ باطل کامیابی سے کھیل رہا تھا لیکن بیدار اذہان جاگ رہے تھے۔ اس وقت تعلیمی اداروں سے ‘اسلامی نظام تعلیم’ کا نعرہ لگا اور اس کی پاداش میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک نوجوان کو شہید کر دیا گیا۔
ایسے میں جب ہر درددل رکھنے والا مسلمان پاکستانی پریشان تھا وہیں 21 ستمبر 1969 کے روز انٹر کالج ملتان کی چند طالبات نے غیرت ایمانی سے کام لے کر باطل کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ ’’اسلامی جمعیت طالبات پاکستان‘‘ کے نام سے یک تنظیم تشکیل دی گئی اور “اللہ اور اس کے رسول ؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول‘‘ اس کا نصب العین قرار پایا۔ ملک بھر کی طالبات کو “کونو انصار اللہ‘‘ کا پیغام دیا گیا۔ بادِصبا کے خوشگوار جھونکے کی مانند یہ پیغام ملک کے کونے کونے میں پھیل گیا اور باشعور طالبات اس لشکر کا حصہ بننے لگیں۔ زندگیوں کو رب کی خاطر وقف کرنے کا عزم صمیم کیا گیا اور کارواں چل پڑا۔
اس دن سے لے کر آج تک اسلامی جمعیت طالبات ’’اعلائے کلمۃ الحق‘‘ کو اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہوئے پاکستان بھر کی طالبات میں دین کا درست فہم پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے اور طالبات کو اسلام کی دعوت دینے کے بعد اپنے عَلم تلے جمع کرکے ان کی ’صالح اجتماعیت’ کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔
اس عظیم مشن کے لیے جمعیت کا ایک نظام اور تنظیمی ڈھانچہ ہے جو مرکزی سطح پر ناظمہ اعلیٰ، معتمدہ عام اور مرکزی شوریٰ جبکہ صوبہ جات میں صوبائی ناظمات و شوراؤں کے بعد نیچے شہروں کے نظم پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی کئی شعبہ جات اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ مالی ضروریات اور حساب کتاب کے لیے “بیت المال” قائم کیا گیا ہے۔ ننھی بچیوں کی تربیت کے لیے شعبہ “بزم گل‘‘ بنایا گیا ہے۔ بیرونی دنیا سے رابطے اور رائے سازی کے لیے “نشرو اشاعت” اور “سوشل میڈیا” کام کر رہے ہیں۔ “علم و ادب‘‘ ملک میں صالح ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ممبرسازی بھی کرتا ہے۔ جمعیت کی مصنوعات کی اشاعت کے لیے “الجمعیہ” کا شعبہ کام کرتا ہے۔ غریب طالبات کی امداد اور ہر طرح کے تعلیمی تعاون کے لیے ’’شعبہ وظائف‘‘ خدمات سر انجام دیتا ہے۔ “تعلیم کمیٹی” ایک اور اہم شعبہ ہے جو تعلیمی دنیا کے واقعات و حقائق سے آگاہ رہنے، اسلامی نظام تعلیم کی تشکیل اور طالبات کے مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ شعبہ “انٹرنیشل ریلیشن شپ‘‘ بیرون ممالک طالبات کی اسلامی تنظیمات سے اشتراک عمل کی کوشش کرتا ہے۔
1۔دعوت:
ایک منظم اور موثر نیٹ ورک کے ساتھ اسلامی جمعیت طالبات میدان عمل میں موجود ہے۔ اپنے پروگرام کے پہلے نکتے ’’دعوت‘‘ کی ذیل میں جمعیت ہر جگہ تعلیمی اداروں ، شہروں ، دیہاتوں میں موجود پاکستانی طالبات تک اسلام کی موثر دعوت پہنچاتی ہے۔ ہوا کے رخ کے برعکس ان کی سوچ کو اسلام کے مطابق ڈھالتی ہے اور معاشرے کے اندر اٹھنے والے بے بنیاد اور خلافِ اسلام نعروں اور نظریوں کو مسترد کرتی ہے۔ بھلے وہ طالبات کے معصوم ذہنوں سے حیا کے تصور کو ختم کرنے کے لیے لائے گئے ایجنڈے ہوں، نظام تعلیم کی خرابیاں ہوں ، نظریاتی یلغار ہو یا اخلاقی زوال کی کوششیں، جمعیت ہر وقت مقابلے کے لیے میدان عمل میں موجود ہے۔ اور اس مقصد کے لیے مختلف موضوعات پر کانفرنسز ، یوتھ فورمز، قرآن سٹڈی پراجیکٹس، اجتماعات عام ، دروس قرآن اور رمضان میں خصوصی دورہ قرآن وغیرہ کے ذرائع اختیار کرتی ہے جن سے طالبات بھرپور استفادہ کرتی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ چند برسوں سے چلنے والی سیریز guidance through Quranکو بہت پذیرائی ملی اور ہزاروں طالبات اس سے مستفید ہوئیں۔ جامعات میں نئی آنے والی طالبات کے لیے داخلہ مہمات منا کر انہیں رہنمائی دینا جمعیت کی حسین روایت ہے جو سالہا سال سے چلتی آ رہی ہے۔
-2تنظیم:
اپنے پروگرام کے دوسرے نکتے ’’تنظیم‘‘ کے تحت جمعیت افراد کو منظم کرتی ہے۔ انہیں ایک نظم و ضبط اور قاعدے کا پابند بناتی ہے اور ان کی صلاحیتوں کو اقامت دین کے لیے بروئے کار لاتی ہے۔
-3 تربیت :
جمعیت ’’تربیت‘‘ کے ضمن میں معاشرے میں اٹھنے والے ہر فتنے کے خلاف اپنے کارکن اور عام طالبہ کی موثر ذہن سازی کرتی ہے اور اسے اسلام پر اعتماد دیتی ہے۔ ہر وہ طالبہ جو جمعیت کا حصہ بنتی ہے، اس کے دل و ذہن قرآن و سنت کی روشنی سے جگمگا جاتے ہیں اور وہ معاشرے کے فتنوں کے خلاف ایک مضبوط حصار میں آجاتی ہے۔ اس طرح اللہ کے فضل سے جمعیت نے آج تک ہزاروں طالبات کی زندگیاں تبدیل کر کے رکھ دیں اور جوانیوں کو اللہ کے لیے پاکیزہ کر دیا۔
4۔ حیا :
جمعیت طالبات کے پروگرام کا چوتھا نکتہ حیا ہے لہذا جمعیت اس ضمن میں ماضی سے لے کر اب تک حیا کے متعلق آگاہی پھیلانے، خلاف حیا افکار کو مسترد کرنے اور ہر پلیٹ فارم سے آواز اٹھانے کے لیے پلاننگ کرتی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں 1983 میں طالبات کے لیے اسلامی حدود میں رہ کر تفریح کا مطالبہ کیا گیا جبکہ کھیل و تفریح کے خلافِ حیا تصورات کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ 1985 میں ملک بھر میں غیر اسلامی اور اخلاق باختہ نعرے ‘مساوات مرد و زن’ کے خلاف ’’انسداد فحاشی‘‘ مہم چلائی گئی۔ اور مرد و عورت کے یکساں کردار کے حوالے سے زری سرفراز کمیشن کی پیش کردہ غیراسلامی سفارشات پر ردعمل دیا گیا۔ اسلام میں عورت کے کردار، اس کے تحفظ ، وقار اور حقوق کے لیے ’’تقدیس نسواں‘‘ مہم (1993 اور 2003) منائی گئی۔ 2005 اور 2011 میں ’’الحیا مہم‘‘ کے نام سے طالبات میں اسلام کے تصور حیا کے فروغ کے لیے کوششیں کی گئی۔ حیا کی ترویج کی یہ کاوشیں آج تک جاری و ساری ہیں۔
-5 تعلیم :
جمعیت کے پروگرام کا پانچواں نکتہ ہے۔ جمعیت اپنی تاسیس سے لے کر اب تک طالبات کے مسائل اور تعلیمی نظام کی اصلاح کی کوششیں کر رہی ہے۔ نظام تعلیم کے حوالے سے منائی گئی مہمات میں ایک تاریخ ساز مہم ’’خواتین یونیورسٹی مہم‘‘ سرفہرست ہے جو 1974 سے 1998 تک مسلسل چلتی رہی۔ اس سلسلے میں وقت کے حکومتی عہدیداران سے روابط کئے گئے‘صدر ضیا الحق سے ملاقات کی گئی، صحافی طبقے کو اپروچ کیا گیا ، تعلیمی دنیا سے وابستہ شخصیات سے تعاون لیا گیا اور طالبات کی دیگر تنظیمات کو ہمنوا بنایا گیا۔ جمعیت طالبات نے ایک دہائی سے زیادہ اس مہم کے لیے محنت کی اور بالآخر فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین قائم ہوئی۔
اسی طرح 1986 میں ’’طالبات مسائل مہم‘‘ ، طبقاتی اور مخلوط تعلیم کے خاتمے کے لیے2001 میں ’’تعلیم پراجیکٹ‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ 2004 میں نصاب تعلیم میں ترمیم کی سفارشات پیش کی گئیں۔ 2005 میں امریکی عزائم کی تکمیل کے ایجنڈے یعنی ’’آغا خان بورڈ‘‘ کے خلاف مہم منائی گئی۔ 2006 میں مخلوط تعلیم ، نصاب اور مقصد تعلیم سے متعلق آگاہی ک مہم چلائی گئی۔ 2010 میں ’’مخلوط تعلیم‘‘ سروے کروایا گیا۔ایچ ای سی پر پابندی کے خلاف 2011 میں سیاسی عہدیداران سے ملاقاتیں کی گئیں۔2021 میں مہنگی تعلیم، اردو ذریعہ ، امتحانات و نتائج کے ناقص نظام ، تعلیمی اداروں میں غیراسلامی تہواروں اور مخلوط تعلیم کے خلاف ’’اصلاح نظام تعلیم مہم‘‘ منائی گئی۔اس کے علاوہ اہم ملکی واقعات و حالات میں جمعیت کا کردار اظہر من الشمس ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جمعیت نے کس محاذ پر کیسے کردار ادا کیا۔
اہم ملکی واقعات اور جمعیت:
’’پاک بھارت جنگ‘‘ 1971 میں پاکستانی مجاہدین کی مالی مدد کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے وقت حب الوطنی سے سرشار طالبات نے وطن دشمن عناصر کے خلاف قوم کو ابھارا اور ملی یکجہتی کا سبق دیا۔ اسی سال ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک چلائی گئی۔ جولائی 1985 کے شریعت بل کی حمایت کی گئی۔ 1992 میں ’’سانحہ بابری مسجد‘‘ پر احتجاج کیا گیا۔ 1998 میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف قومی یکجہتی کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔
ناموسِ رسالت:
آزادی اظہار رائے کے نام پر توہین آمیز خاکوں کے خلاف 2006، 2008 اور 2020 میں ’’ناموسِ رسالت مہم‘‘ منائی گئی۔ اور اس حوالے سے طالبات میں شعور اجاگر کیا گیا۔
غیر اسلامی افکار و نظریات کا مقابلہ :
کل کی ’’اشتراکیت/سوشل ازم‘‘ ہو یا آج کی مادہ پرستی ، ماڈرن ازم، لبرل ازم اور فیمنزم ، جمعیت نے ہر دور کے چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ ان کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں آگاہی پھیلائی ہے اور طالبات کی ذہن سازی کی ہے۔ 1981 میں ’’سوشلسٹ‘‘ نظریات کے خلاف جنگ میں لٹریچر اور دیگر دعوتی اقدامات کے ذریعے طالبات کی اسلامی خطوط پر ذہن سازی کر کے بھرپور حصہ ڈالا گیا۔ 1993 اور 2003 کی ’’تقدیس نسواں مہمات‘‘ عورتوں کے حقوق کے لیے منائی گئیں۔ جبکہ پچھلے کچھ عرصے میں آنے والے فیمنزم کے سیلاب پر بند باندھنے کے لیے طالبات میں شعور بیدار کیا گیا۔ ’’لٔو لٔوالمکنون‘‘ سیریز چلائی گئی اور fight the onslaughtکے نام سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔
عوامی فلاح و بہبود:
1996، 2010 اور اس کے بعد 2022 کے حالیہ سیلاب میں جمعیت نے فنڈ جمع کرنے اور متاثرہ علاقوں میں مقدور بھر تعاون کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں بڑی سطح پر فنڈ جمع کیا گیا۔
اصلاح ذرائع ابلاغ :
1993 کی غیر اسلامی ٹی وی پالیسی پر ردعمل دیا گیا۔ذرائع ابلاغ کی اصلاح کے لیے مختلف مہمات منائی گئیں جن میں ’’تطہیر ذرائع ابلاغ‘‘ مہم 1987 ، 1995 اور 2018 کی ’’اصلاح ذرائع ابلاغ‘‘ مہمات شامل ہیں۔
طلبہ یونین اور جمعیت :
1984 میں یونین پر پابندی کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ 1986 میں طلبا تنظیموں پر پابندی کے خلاف پریس کانفرنس کی گئی۔ 1989 کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور طالبات کا اعتماد حاصل کیا۔ تاہم اس کے بعد سے یونین بحالی کے کئی اعلانات کا خیر مقدم کرنے کے باوجود ہم عملی بحالی کے منتظر ہیں۔
جمعیت اور عالمِ اسلام:
جمعیت عالم اسلام کے حالات سے مسلسل آگاہ رہتی ہے۔ شام ہو ، کشمیر یا فلسطین کے مسائل ، ان پر پر ہمیشہ آواز اٹھاتی ہے۔ طالبات کو درست آگاہی دیتی ہے۔ امت کا درد بانٹنا سکھاتی ہے۔ جمعیت کشمیر اور فلسطین فنڈ میں بھی بڑا حصہ ڈالتی رہی ہے۔ اور اس کے علاوہ مقدور بھر تعاون دینے کی کوشش کرتی ہے۔
اللہ کا احسان ہے کہ اس نظریاتی موت اور اخلاقی زوال کے دور میں جمعیت جیسی صالح اور نظریاتی اجتماعیت نوجوانوں کو فتنوں سے بچانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہمارا طالبات کے لیے یہی پیغام ہے کہ آپ اس کاروانِ حق و صداقت کا حصہ بنیں۔ اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں اور اسلام کے لیے استعمال کریں کہ ملت کو ہم نوجوانوں کا ہی سہارا ہے۔ بقول اقبال
بے خیر تْو جوہرِ آئینہ ایام ہے
تْو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے!

حصہ