مولانا مودودی کا علمی کارنامہ دور جدید میں اسلام کی عملی تطبیق ہے

628

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد عہدِ حاضر میں ہماری علمی اور دینی روایت کے وارث اور اہم اسکالر ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کی اُن چند شخصیات میں ہوتا ہے جو تاریخ کے ساتھ عصرِ حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اسلامی تحریکوں کی جدوجہد پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ آپ کا تعلق دلّی ’’جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘ کے ایک معزز علمی خانوادے سے ہے۔ ایڈمرل (سابق) ضمیر احمد مرحوم، پروفیسر خورشید احمد، اور ممتاز طارق مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی ضمیر احمد نے سب سے پہلے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کام کاآغاز کیا، اور اپنے بھائی خورشید احمد کو جمعیت میں متعارف کرایا۔ عملی زندگی میں پاکستان نیوی میں چلے گئے۔ یہ ایک معروف بات ہے کہ اگر آپ پروفیسر خورشید احمد کے بھائی نہ ہوتے تو پاک نیوی کے چیف ہوتے۔ آپ کے بھائی ممتاز طارق 20 مئی 1965ء کو قاہرہ میں پی آئی اے کی پہلی پرواز کو پیش آنے والے حادثے میں فوت ہوگئے۔
آپ کے والد نذیر احمد قریشی مرحوم کا تعلق بنیادی طور پر جالندھر سے تھا، جو دہلی کے معروف تاجر، اعلیٰ علمی، دینی، سیاسی اور سماجی شخصیات کے دوست تھے۔ نذیر احمد صاحب مولانا مودودیؒ کے بے تکلف رفقا میں سے تھے، جنھوں نے متعدد علمی اور قیمتی کتابیں مولانا مودودیؒ کو تحفے میں دیں۔

ڈاکٹر انیس احمد 22 مارچ 1944ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک سندھ مدرسۃ الاسلام سے، اور گریجویشن سندھ مسلم کالج سے کی۔ کراچی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ تب کراچی یونیورسٹی میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا طوطی بولتا تھا۔ انیس احمد نے اسلامک اسٹڈیز سوسائٹی کی سرگرمیوں کو جامعہ میں اس قدر وسعت دی کہ وہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے مقابلے میں متحرک باڈی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ 1963ء میں ایم اے پاس کیا اور یہیں شعبہ اسلامی تاریخ میں 1969ء تک پڑھایا۔

1969ء میں پنسلوانیا اسٹیٹ کی ٹمپل یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر امریکا چلے گئے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ وہاں کچھ عرصہ بعض جامعات میں بھی پڑھایا۔ آپ اس کے علاوہ ملائشیا میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کا تصور پیش کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانا آپ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ آپ اس اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں مختلف کلیات کے قیام میں آپ کا کلیدی کردار تھا۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوگئی، آپ نے ٹیم ورک کے ساتھ اس کو بہترین انداز میں چلا کر بھی دکھایا اور عالمی سطح پر لوہا منوایا۔ اسی کے ساتھ چین، وسطِ ایشیا، لاطینی امریکہ سمیت کئی ممالک کی کتابوں کے ترجمے کرواکر مختلف زبانوں میں ان کے متعلقہ لوگوں کی اجازت سے چھپوانا بھی آپ کی محنت، لگن اور کاوش کا نتیجہ تھا۔ آپ آج کل رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر ہیں، اور صرف روایتی وائس چانسلر نہیں بلکہ آپ یونیورسٹی کے انتظامی معاملات سے لے کر طالب علموں تک سے رابطے میں رہتے ہیں۔ آپ طالب علموں کو اچھا پاکستانی اور مسلمان بنانے کے ویژن اور مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی ذہنی و فکری سطح کو بلند کرنے کے لیے بھی ہر وقت پُرعزم اور عملی طور پر متحرک رہتے ہیں۔ دھیمے لہجے اور خوب صورت زبان میں مدلل گفتگو کرنے والے ڈاکٹر انیس احمد سے گفتگو کا سلسلہ ڈھائی گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔ بات چیت کا یہ دورانیہ بھی کم تھا اور بات بھی بہت ہوسکتی تھی، لیکن وقت کی کمی دامن گیر رہی۔ ڈاکٹر انیس احمد سے نظام تعلیم کی خرابیاں، ادب اور اسلامی ادب کی بحث، نظریاتی جدوجہد کا فقدان، اسبابِ قحط الرجال، مخلوط تعلیم کا جواز،موبائل، انٹرینٹ کی دنیا،کتاب اور کاغذ کی اہمیت، جدیدیت، ٹیکنالوجی، اسلامی تحریکات، سید مودودیؒ کی تعلیمات کے دنیا پر اثرات، علمی و فکری بحران،انقلابی تحریکیں اور ان کی جدوجہد، مغربی اور اسلامی فکر کی آویزش، نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف مغرب کا غصہ، مغربی تہذیب کے زوال کے بعد عروج کس کا، مغرب سے تعلقات کی نوعیت، سیاست اور اس کی اخلاقیات، آج کا نوجوان، اسلامی تحریکوں کی انتخابی اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کی خواہش، ریاست مدینہ کا عملی تصور، سماج اور اخلاقی مسائل،آج کا استاد اور آج کا شاگرد سمیت دیگر موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کے اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔

س: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں۔ جہاں آپ پیدا ہوئے وہاں کا سماجی اورمعاشرتی ماحول کیسا تھا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میری پیدائش ایک علمی اور ادبی گھرانے میں ہوئی، میرے والد صاحب مرحوم اور والدہ دونوں کا ادبی ذوق بہت ستھراہوا تھا، اس بنا پر بچپن سے مجھے یہ موقع ملا کہ میں کلاسیکل شعر و ادب کا مطالعہ کروں۔ گھر کے اندر ہونے والی گفتگو بھی زبان اور موضوعات کے حوالے سے عام گھروں سے مختلف اور علمی موضوعات پر مشتمل ہوتی،اس لیے بچپن ہی سے علمی تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور تدریس سے وابستگی کے بعد اس ذوق و شوق میں مزید اضافہ ہوا اور یونیورسٹی میں خاص طور پر علمی سرگرمیوں میں شامل رہا اور بہت سے صاحبِ علم و فن حضرات کو یونیورسٹی میںان سرگرمیوں میں مدعو کیا، ان کے خیالات جاننے کا موقع ملا اور ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے معروف اساتذہ سے بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا، اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب وائس چانسلر تھے اور میجر آفتاب صاحب کیمپس میں معروف و سرگرم شخصیت تھے، ڈاکٹر محمود احمد شعبہ فلسفہ کے ہیڈ بھی تھے اور کچھ عرصہ ڈین بھی رہے۔ڈاکٹر امیر حسن صدیقی صاحب صدر شعبہ اسلامی تاریخ تھے وہ بھی ڈین ہوئے، وہ میرے استاد بھی تھے۔ ڈاکٹر محمود حسن خان صدر شعبہ تاریخ تھے ان کے ساتھ ہی ہمارا ڈیپارٹمنٹ تھا جو بعد میں وائس چانسلر بھی بنے۔ ڈاکٹر عزیز صاحب کا کمرہ بھی بہت قریب تھا جو بعد میں رجسٹرار بنے۔ یعنی بے شمار افراد جو یونیورسٹی کی ذمہ داریوں پر بعد میں فائز ہوئے ان سے براہِ راست ملاقات اور استفادہ کا موقع ملا۔ اس کے نتیجے میں مجھے اپنے ذہنی ارتقا میں بے انتہا مدد ملی اور یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی تعلیم سے فارغ ہوا مجھے بطور لیکچرر مقرر کر دیا گیا۔ میں چھ سال تک کراچی یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ رہا اور پھرٹمپل یونی ورسٹی کی اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے چلا گیا۔ ہمارے گھر کا ماحول ادبی بھی تھا اور بہت دینی بھی۔ گھر کے ماحول نے زبان اور فکر کو سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کیا، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ مجھے گھر اور جامعہ دونوں نے ہر لمحہ تقویت فراہم کی۔
س: آپ کی شخصیت کے ارتقا اور فکر کی تشکیل میں مذکورہ عوامل کے علاوہ دیگر کون سے عوامل تھے یا کن شخصیات کا کردار رہا؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:شخصیات تو بے شمار ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ متاثر مولانا مودودی کی تحریرات اور شخصیت نے کیا۔کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران اردو میں ادبی اور علمی تخلیقات کو پڑھنے کا موقع ملا۔ان میں سر سید، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، غلام رسول مہر اور ادب و شعر کی دنیا کی معروف شخصیات شامل تھیں۔ لیکن جب میں نے مولانا مودودی کی تحریرات کو پڑھنا شروع کیا تو انھیں ان سب سے مختلف پایا۔ مولانا مودودی کی تحریر میں نہ وہ شوکتِ الفاظ تھی جو مولانا ابوالکلام آزاد کا امتیاز تھا، نہ علامہ شبلی کی کلامی روایت۔مولانا مودودی کی تحریر میں فکر کی گہرائی، الفاظ کی سادگی اور اطناب کی جگہ اختصار نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ دور اختصار کا ہے، سادگی کا ہے اور جو بھی نفس مضمون ہے اس کی حد تک بات کرنے کا ہے۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ پہلے ایک بیان شروع کریں، پھر گریز کریں، پھر آپ واپس آئیں اور آخر میں جاکر آپ کوئی مقطع پیش فرمائیں بلکہ جو بات ہو وہ کم سے کم الفاظ میں ادا کردی جائے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کے اسلوب کا یہ کمال ہے اور فکر ظاہر ہے کہ انہوں نے مختلف علوم کے گہرے مطالعہ سے اپنی فکر کو مرتب کیا اور دین کا جو تصور پیش کیا وہ بالکل ایک عملی تصور ہے کہ دین ایک زندہ کی حقیقت ہے، وہ ایک بیرونی عنصر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کا وجود ہے اور اسی چیزنے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔

س: : مولانا مودودی کی علمی اور ادبی خدمات کی کیا اہمیت ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میرے خیال میں مولانا مودودی کا علمی کارنامہ دورِ جدید میں اسلام کی عملی تطبیق ہے۔مغربی تہذیب اور فکر نے مسلمان دانشوروں کو بھی متاثر کیا اور انسانی تاریخ اور فکر کے ارتقائی تصور کی بنا پر یہ سمجھنے لگے کہ ساتویں صدی میں آنے والی تعلیمات پر آج کیسے عمل ہوگا۔اس لیے یاتو ان تعلیمات پر نظر ثانی کی جائے یا انھیں کچھ کتربیونت کر کے آج کے ’’ترقی یافتہ‘‘دور کے مطالبات کے مطابق بنایا جائے۔ مولانا مودودی نے قرآن و حدیث کے دلائل سے سرمایہ داری، اشتراکیت، الحاد اور ارتقائی تصورات کا رد عقلی اور منطقی اسلوب میں کیا اور نہ صرف علمی سطح پر بلکہ اصلاحی اور دعوتی تحریک قائم کر کے ثابت کیا کہ اس دور میں بھی اسلام ویسے ہی قابلِ عمل ہے جیسے دورِ اوّل میں تھا۔مولانا کے ایک اصلاحی تحریک قائم کرنے کا ایک رد عمل یہ ہوا کہ جن لوگوں نے جماعت اسلامی کو محض ایک دینی یا محض ایک سیاسی تحریک سمجھا، انہوں نے مولانا کی فکر کو جماعت سے وابستہ سمجھتے ہوئے اس پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔لیکن اگر کسی نے ان کی تحریر کا مطالعہ کر لیا توپھر ان کے سادہ اسلوب اور قرآنی فکر نے اسے لازماً متاثر کیا۔میں سمجھتا ہوں مولانا کو جماعت کے فکری قائد کی جگہ ایک عالمی اسلامی مفکر، داعی اور مصلح کے طور پر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔وہ پوری امت مسلمہ کے اس دور کے مجدد کہے جانے کے مستحق ہیں۔ بلکہ ان شخصیات میں سے ہیں جن کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی آفاقیت نے ان کی فکر میں آفاقیت پیدا کی۔ اس پہلو سے دورِ حاضر کے تین افرادقابل ذکر ہیں، ایک علامہ اقبال، دوسرے مولانا مودودی اور تیسرے علامہ محمد اسد۔ ان تینوں نے قرآن کریم سے اپنے آپ کو وابستہ کرکے وہ فکر امتِ مسلمہ کو دی جس میں قرآن کی آفاقیت پائی جاتی ہے۔ اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ جو تعصبات پیدا ہوئے ہیں کہ مولانا فلاں گروہ، فلاں جماعت کے قائد ہیں اور ہم دانشور ہیں، زیرک افراد ہیں، پڑھے لکھے افراد ہیں، روشن خیال ہیں، وقت سے آگے سوچنے والے ہیں، یہ ایک مصنوعی تفریق ہے جو ختم ہونی چاہیے۔ ان کا جو اصل مقام ہے آفاقی فکر رکھنے والے مفکر کی حیثیت سے، ایک مجتہد کی حیثیت سے، دین کی تشریح کرنے والے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے،ان کو ان کے سیاسی کردار سے الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ کام وہی کرے گا جو غیر جانبدار ہو۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ علمی غیر جانبداری عملاً مفقود ہے، کوئی کتنا ہی بڑا دعویٰ کرے کہ وہ غیر جانبدار ہے لیکن جو عصبیتیں ہیں انہوں نے علم کی صحیح فکر کو، صحیح پہچان کو زنگ آلود کردیا ہے، جب تک یہ زنگ کم نہیں ہوگا اُس وقت تک شاید وہ محدود رہے، لیکن میری نگاہ میں وہ ایک بہت ہی عظیم شخصیت کے حامل تھے اور میں نے ان کو پڑھا ہی نہیں ہے بلکہ انہیں بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، ان کے ساتھ سفر کیا ہے، ایک عرصے تک ان کے قریب رہا ہوں، آخر وقت تک میں ان کے ساتھ رہا، ان سے ملاقاتیں رہی ہیں حتیٰ کہ ان کی نماز جنازہ بھی بفیلو، امریکہ میں ایک میں نے پڑھائی اور ایک ڈاکٹر اسرار صاحب نے پڑھائی۔ ان سے ہر لحاظ سے بہت قریبی تعلق رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شخصیت کو ہم نے بہت محدود کردیا ہے، اور اس کے ذمہ دار کسی حد تک وہ افراد ہیں جو اپنے آپ کو اُن کا مرید اور ماننے والا کہتے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ