بوٹا سنگھ کی سرائے

371

راولپنڈی میں سید پوری گیٹ کے پاس ایک پرانا سا بڑا گھر ہے۔ جس کو بوٹا سنگھ کی سرائے کا نام دیا گیا ہے۔ بٹوارے سے پہلے بھی اس گھر کو بوٹا سنگھ کی سرائے ہی کہتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ پہلے اس گھر میں بوٹا سنگھ کا خاندان رہتا تھا۔ بوٹا سنگھ بہت سمجھ بوجھ والے آدمی تھے۔اس محلے کے پرانے رہنے والوں نے بتایا کہ بوٹا سنگھ کا گھر پورے محلے والوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ وہ بہت زیادہ مہمان نواز تھے۔
شاید اسی وجہ سے محلے والے اس گھر کو بوٹا سنگھ کی سرائے کہنے لگے تھے۔ جب تقسیم کے وقت بوٹا سنگھ محلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہندوستان چلے گئے اور ناصر الدین صاحب پاکستان پہنچے تو ان کی قسمت کہ ان کو بوٹا سنگھ کا گھر ملا۔
ناصر الدین کا خاندان یہاں آکر بس گیا۔ یہ گھر ان کے لیے بہت مبارک ثابت ہوا۔ ان کے سب بگڑے ہوئے کام بن گئے۔ وہ اپنے حالات سے بہت خوش تھے۔
بہت عرصہ بعد بوٹا سنگھ اپنے خاندان والوں کو لے کر پاکستان آئے اور راولپنڈی میں اپنے پرانے محلے بھی گئے۔ سب پرانے دوستوں سے ملے۔ ان سے مل کر سب ہی خوش ہوئے۔ سچ بات یہ کہ ان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ بوٹا سنگھ کو سب اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کتنے اچھے تھے۔
بوٹا سنگھ اپنا گھر دیکھنا چاہتے تھے، لیکن وہ ناصرالدین صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ بوٹا سنگھ نے محلے کے دوسرے دوستوں سے سفارش کی کہ وہ ان کا ناصر صاحب سے تعارف کروا دیں اور اجازت دلوا دیں تاکہ وہ اپنے گھر میں جا سکیں۔ ناصر صاحب کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے خوشی سے اجازت دے دی۔بوٹا سنگھ اور ان کے خاندان والے بہت دیر اپنے گھر میں رہے۔ اب انہوں نے ناصر صاحب سے ایک درخواست کی۔انہوں نے کہا ’’ناصر صاحب اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپنے کے گھر سے اپنا کچھ سامان لے جائیں۔یہاں ہم اپنا بہت قیمتی سامان چھوڑ گئے تھے۔‘‘ ناصر صاحب چونک گئے۔ ’’یہاں! آپ کا سامان؟ ہم تو یہاں دس بارہ سال سے رہتے ہیں۔ گھر کا کونا کونا دیکھا بھالا ہے۔ آپ کا ایسا کوئی سامان یہاں نہیں ہے جو آپ لے جاسکیں۔ ہاں بڑی بڑی الماریاں اور پلنگ ہیں یہ آپ ضرور لے جائیے۔‘‘
بوٹا سنگھ ہنسنے لگے۔ انہوں نے کہا۔ ’’ایسا کچھ سامان یہاں نہیں ہے۔ آپ کے گھر کی کوئی چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلے گی۔ ہمیں اچھی طرح پتا ہے کہ اگر ہمارا سامان ہے تو کس جگہ ہے؟‘‘
ناصر الدین صاحب کیا کرتے اجازت دے دی۔ اجازت ملی تو بوٹا سنگھ اور ان کے گھر والے اٹھ کر پیچھے باغ میں چلے گئے۔ ناصر صاحب کے گھر والوں نے باغ کو خوب سجا بنا لیا تھا اور زمین خوبصورت گملوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ بوٹا سنگھ نے باغ کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا اور ناصر صاحب سے اجازت مانگی، ’’ہم یہاں سے گملے ہٹا سکتے ہیں؟ ‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
ناصر صاحب نے کہا۔
بوٹا سنگھ نے اور ان کے گھر والوں نے مل کر گملے ہٹائے اور باغ میں پڑے ایک کدال اور کھرپی سے کھدائی شروع کر دی۔ تھوڑی سی کھدائی کے بعد لوہے اور دھاتوں کے چھوٹے بڑے صندوق نظر آنے لگے۔ سب ہی کی نظر ان پر پڑی۔ ناصر صاحب کے گھر والے تو چیخ پڑے۔
بوٹا سنگھ چونکہ آرام سے پروگرام بنا کر گئے تھے، اسی لیے انہوں نے گھر کی قیمتی چیزیں اورعورتوں کے سونے، موتی کے زیورات گھر کے پچھواڑے کی زمین میں چھپا دیے تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ ان کی رکھی ہوئی ہر چیز ابھی تک محفوظ تھی۔ناصر صاحب نے بوٹا سنگھ سے پوچھا۔ ’’آپ کو یہ کیسے یقین تھا کہ آپ کی قیمتی چیزیں اور زیور یہاں محفوظ رہے گا؟ کسی نہ کسی وجہ سے ہم زمین کھود بھی سکتے تھے‘‘۔
بوٹا سنگھ نے کہا۔ ’’اگر آپ کھود لیتے اور آپ کو یا کسی کو بھی ہماری یہ دولت مل جاتی تو یہ اس کی اور ہماری قسمت تھی۔ ہم یہاں آنے سے پہلے تیار تھے کہ اگر ہمارا سامان مل گیا تو خیر ہے نہیں ملا تو کوئی بات نہیں۔ یہ تو مال و دولت ہے آپ نے اور ہم نے تو اپنے پیاروں کو کھو دیا اور صبر کر لیا ہے۔ ہمارے پاس اوپر والے کا دیا ہوا بہت کچھ ہے۔ یہاں جب ہم رہتے تھے تب بھی دینے والے نے ہمیں بہت کچھ دیا تھا اور اب امر تسر میں رہتے ہیں وہاں بھی سب کچھ ہمارے پاس ہے۔‘‘
بوٹا سنگھ نےایک اور بات بھی کہی۔ ’’ناصر صاحب یہ گھر اب آپ کا ہے۔ یہ زمین آپ کی ہے۔ یہاں جو کچھ ہے وہ آپ کا ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو یہ سامان میں لے جائوں اور اگر آپ منع کر دیں تو میں ان چیزوں کو ہاتھ بھی نہیں لگائوں گا۔‘‘
ناصر صاحب خود بھی بہت اچھے دل کے، اللہ والے آدمی تھے۔ ایسی بات تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے بوٹا سنگھ کو خوشی سے اجازت دے دی۔ اس طرح ناصر صاحب نے بوٹا سنگھ کی امانت واپس لوٹا دیں وہ اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ جس کی امانت تھی اس کے پاس پہنچ گئی۔
(بچو! یہ سچی کہانی مجھے خالد حفیظ صاحب نے سنائی تھی جو بوٹا سنگھ کے ہمسائے تھے۔)

حصہ