وہ ایک چھوٹی سی بچی تھی معصوم سی پیاری بلکہ بہت پیاری.. جو دیکھتا اُسے دیکھتا ہی رہ جاتا.. ساری ٹیچرز اس کو بہت پیار کرتیں۔۔ ہر ٹیبلو میں اُسے شامل کیا جاتا اور جیسے ٹیبلو کو چار چاند لگ جاتے ۔۔۔۔ یہ ہی نہیں اللہ نے اُسے ذہانت بھی اس قدر عطا کی تھی کہ کچھ حد نہیں.. اسکول سے گھر آکر تو کبھی اس نے یاد کرنے کے لئے کوئی کتاب نہیں کھولی تھی ایک بار جو مس پڑھا دیا۔۔۔ اُس نے سُنا اور یاد ہو گیا۔۔۔ اسی لیے ہر کلاس میں وہ اول آتی۔
دن گزرتے گئے اور ماہم کلاس سوئم میں آ گئی۔۔ ہر ایک کی تعریف سُن سُن کر اُسے بھی دل میں کچھ غرور سا ہونے لگا۔۔ میلے رنگ والی لڑکیاں اُسے ذرا اچھی نہ لگتیں نہ وہ ان کو اپنے پاس بیٹھاتی۔ مس کو یہ بات اچھی نہ لگی وہ چاہتیں ماہم کو سمجھائیں ۔۔۔ مگر بھلا وہ کہاں سمجھتی؟ پھر ایک عجیب بات ہوئی ماہم کے گال پہ ایک دانہ نکل آیا۔۔۔ خیر دانے تو نکلتے ہی رہتے ہیں۔ امی نے ماہم کو تسلی دے کر مطمئن کر دیا۔۔ مگر وہ دانہ بڑھتا گیا اور ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کا داھنا گال خوب پھول کر موٹا ہو گیا۔ اتنا کہ جیسے ایک چھوٹی بال ہو۔۔ جو اس نے گال پر باندھ رکھی ہو۔۔ اب اس میں درد بھی ہونے لگا۔۔ ماہم درد تو برداشت کرلیتی پر ہوا یوں کہ اس دانے کی وجہ سے اس کا منہ عجیب سا لگنے لگا۔۔ اب کوئی لڑکی اس کے ساتھ بیٹھنے پر راضی نہیں ہوتی۔۔ ہر اک محسوس کرتا کہ پتا نہیں اس کو کیا بیماری ہو گئی ہے۔۔ اب ماہم کو مس کی سمجھائی ہوئی بات یاد آنے لگی۔۔۔ کہ وہ کس طرح سانولےرنگ والی لڑکیوں کو اپنے پاس بٹھانا بُرا سمجھتی تھی۔۔۔ دانہ روز خوب پھول رہا تھا۔۔۔ مگر اسکول جانا بھی ضروری تھا۔۔ ایک دو دن کی چھٹی کے بعد آخر اسکو اسکول جانا ہی پڑا۔۔ آج تو حد ہی ہوگئی،، جب مس نے ثمینہ کو کہا کہ ماہم کو اپنی ڈائری سے H.W لکھنے کے لئے دے دیجئے تو اُس نے پہلے تو انکار کیا پھر مس کے کہنے پر دور سے ماہم کی طرف اپنی ڈائری پھنک دی۔۔ ماہم کی انکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ اسنے ہوم ورک تو لکھ لیا مگر اسکا دل بہت دکھ گیا ۔۔ مس نے ثمینہ کو سمجھایا اوراس کے طرز عمل پہ بہت افسرده ہوئیں۔۔ انہوں نے ماہم کی امی کو فون کرکے ماہم کا اچھا علاج کروانے کی ہدایت کی۔۔ ڈاکٹر کے پاس تو اسے ابو روز ہی لے جاتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اس دانے کا مواد نکلنا بہت ضروری ہے ۔۔ اس لیے اس کا ابھی آپریشن نہیں کیا جا سکتا ۔۔ بے چاری ماہم اسکول تو چلی جاتی مگر کوئی بھی بچی اس کو اپنے ساتھ کھیل کھلانے پر راضی نہ ہوتی ۔۔ وہ چُپ چاپ اپنی سیٹ پر ہی بیٹھی رہتی اور وہیں اکیلے ہی اپنا لنچ بھی کھا لیتی۔۔۔ اُس نے سوچا ان شاء اللہ میرا دانہ بھی ٹھیک ہو جائے گا نا تو پھر میں ان میں سے کسی کو اپنے پاس نہیں بٹھاؤں گی۔ کوئی 15 دن کی تکلیف کے بعد اسکا دانہ امی ابو کی دعاؤں سے پھٹ گیا اور اس میں سے خوب مواد نکل گیا۔ ماہم نے دو دن چھٹی کی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ ذرا سا بھی دانے کا نشان بھی باقی نہ رہا۔۔ ماہم جب اسکول گئی تو بس اک پٹی سی لگی تھی مس بہت خوش ہوئیں لڑکیاں سب حیران ہو ہو کر ماہم سے سوالات کر رہی تھیں مگر ماہم نے کسی کا جواب نہ دیا۔ مس کے بلانے پر وہ اُٹھ کر ان کے پاس چلی گئی. انہوں نے اُسے پیار کیا تو اسے رونا آگیا اور اُس نے کہا “مس اب میں بھی کسی لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں بٹھاؤں گی نہ کسی کی پڑھنے میں کوئی مدد کروں گی”۔ اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔۔ پھر مس نے اسے سمجھایا کہ پیاری بیٹی! تمہیں اللہ نے اتنا پیارا بنایا ہے تو تم کو بھی اس پر غرور نہیں کرنا چاہئے اور کسی کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ بیٹا یہ سب اللہ نے تمہیں دیا ہے اور وہ ہی واپس بھی لے سکتا ہے۔۔ آپ سب کو معاف کر دو۔۔۔ اور سب سے پیار کرو۔۔ تاکہ اللہ پھر کبھی آپ کو مشکل میں نہ ڈالے. ماہم نے اثبات میں سر ہلایا جیسے اُس نے بات سمجھ لی ہو۔