عملی زندگی ہر دور کے انسان کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہی ہے۔ عملی زندگی یعنی کچھ کرنا، کچھ کمانا، اپنے آپ کو ثابت کرنا، اپنے ساتھ ساتھ متعلقین کی گزر بسر کی راہ ہموار کرنا۔ عملی زندگی سے بہت کچھ جُڑا ہوا ہے۔ انسان کئی افراد کا کفیل ہو تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کی کفالت کا بوجھ سر پر نہ ہو تب بھی کچھ کرنا یعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہنا اور کچھ کمانا انسان کے لیے ایک آزمائش ہی کے درجے میں ہوتا ہے۔
فی زمانہ عملی زندگی بہت پیچیدہ ہوچکی ہے کیونکہ زندگی بجائے خود انتہائی پیچیدہ ہے۔ جب تمام ہی معاملات الجھے ہوئے ہوں تو پھر بھلا معاشی پہلو کیونکر محفوظ رہ سکتا ہے؟ عمل کے میدان میں اپنے آپ کو ثابت کرنا اب بہت محنت طلب کام ہے۔ گزر بسر کرنے کے لیے کمانا کسی بھی دور میں کوئی مسئلہ نہ تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی طے کرلے کہ زندگی کی انتہائی بنیادی ضرورتوں سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کرنا تو معمولی سے ملازمت بھی اُس کی مشکل آسان کرسکتی ہے اور ذاتی حیثیت میں کیا جانے والا کوئی بھی کام کافی ثابت ہوسکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسروں سے کچھ زیادہ پانے کی دوڑ میں حصہ لینا دشوار ہوتا جارہا ہے۔
کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کے حوالے سے آج کے انسان پر اس قدر دباؤ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ ایک طرف تو یہ حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر معاملے میں الجھنیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ معمولی سے واقعات بھی پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ انفرادی سطح پر بھی طے کرلیا گیا ہے کہ معاملات کو درست کرنے پر متوجہ نہیں ہونا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ درستی کی خاطر جو تھوڑا بہت کیا جاسکتا ہے وہ بھی نہیں کیا جارہا۔ ہر عہد کے ہر معاشرے میں فرد کے لیے اپنے وجود کو ماحول کے مجموعی اثرات کے حوالے سے محفوظ رکھنا انتہائی دشوار رہا ہے۔ فی زمانہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اِس حوالے سے اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچا بھی جارہا ہے اور لکھا بھی بہت جارہا ہے۔ اِس کے باوجود معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
عملی زندگی کے حوالے سے ہمیشہ نئی نسل کو غیر معمولی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عنفوانِ شباب میں انسان بہت کچھ کرنے کے خواب دیکھتا ہے اور ہر خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے پر تُل جاتا ہے۔ اُٹھتی جوانی انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دے رہی ہوتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تارے توڑ لائے تاکہ لوگ اُسے مانیں۔ عہدِ شباب انسان کے لیے انتہائی بارآور بھی ثابت ہوسکتا ہے اور انتہائی نقصان دہ بھی۔ بارآور یوں کہ عمر کے اِس حصے میں انسان بہت کچھ کرنے کی سکت رکھتا ہے اور کر دکھاتا بھی ہے۔ نقصان دہ یوں کہ محض جذباتیت کی نذر ہوکر انسان اپنے آپ کو ناکامی کے گڑھے میں گرا سکتا ہے۔
ہر دور کی نئی نسل کے لیے عملی زندگی بہت کچھ کر دکھانے کا موقع ثابت ہوتی رہی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ایک طرف تو عملی زندگی انتہائی دشوار گزار گھاٹی کا درجہ رکھتی ہے اور دوسری طرف یہی عملی زندگی مواقع کا خزانہ بھی تو ہوتی ہے۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ ایک طرف مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تو دوسری طرف مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسے میں یوں تو عمر کے ہر مرحلے کے افراد کے لیے کرنے کو بہت کچھ ہے تاہم حقیقی ایڈوانٹیج تو نئی نسل کے لیے ہے۔ ہماری نئی نسل کو بھرپور کامیابی اور خوش حالی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے اُس کی گنجائش موجود ہے۔ سوال صرف مواقع تلاش کرکے آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو منوانے کا ہے۔
اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ماحول دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ مواقع بہت ہیں مگر اُن سے کماحقہ مستفید ہونے کے بارے میں سوچنے والے کم ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ زندگی کے کم و بیش تمام ہی پہلوؤں کو عجلت پسندی نے گرفت میں لے لیا ہے۔ نئی نسل پر عجلت پسندی نے زیادہ کاری وار کیا ہے۔ نئی نسل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہت تیزی سے بہت کچھ کرنا اور پانا چاہتی ہے۔ یہ فی الواقع بہت ہی عجیب بات ہے۔ اگر عمر کی پانچ دہائیاں مکمل کرنے والا شخص کچھ نیا اور زیادہ کرنے کے لیے بے تاب ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اُس کے پاس وقت خاصا کم ہوتا ہے۔ ادھیڑ عمر انسان کریئر کی منصوبہ بندی کرتا ہوا عجیب لگتا ہے۔ عمر کے اِس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے وہ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی لگن سے بہت حد تک محروم ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر مواقع دکھائی دیں تو وہ بدحواس ہو اٹھتا ہے۔ جو تھوڑا بہت وقت بچا ہوتا ہے اُسی میں وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ بہر کیف، بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کا بدحواس ہونا تو سمجھ میں آتا ہے نئی نسل کیوں بدحواسی کی نذر ہو رہی ہے؟ جن نوجوانوں نے ابھی زندگی باضابطہ طور پر شروع کی ہوتی ہے وہ بھی صریحاً بلا جواز عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وجود کو تماشا بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔
فی زمانہ ہر شعبے میں پیش رفت حیران کن حد تک ممکن بنائی جاچکی ہے۔ ایجادات کا زمانہ کب کا جاچکا ہے۔ اب صرف اختراعات کی دنیا رہ گئی ہے۔ ہائی ٹیک کا شعبہ دن رات ایسا بہت کچھ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں زندگی میں جتنی آسانی بڑھ رہی ہے اُتنی دشواری بھی پیدا ہوتی جارہی ہے۔ آج بازار کے بازار طرح طرح کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ساری اشیا زندگی کو آسان بنانے کے نام پر بنائی جارہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ دشوار بنارہی ہیں، اُس کی پیچیدگی میں اضافہ کر رہی ہیں۔
آج کی نئی نسل کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں دکھائی دینے والی مختلف اشیا و خدمات کو زیادہ سے زیادہ مقدار و معیار کے ساتھ اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے اُس سے کہیں زیادہ پانے کی محض خواہش ہی نہیں کی جارہی ہے بلکہ عمل کے محاذ پر بھی بہت کچھ کیا جارہا ہے۔
آج دنیا بھر میں ایسا لٹریچر بہت بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہا ہے جس میں عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے نام پر صرف اس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ تمام معاملات کو مال و زر کے چوراہے تک لایا جائے۔ آج کامیابی کا مفہوم صرف اِتنا رہ گیا ہے کہ انسان کے پاس زیادہ سے زیادہ بینک بیلنس، اچھا مکان، گاڑیاں اور دیگر آسائشات ہوں۔ ہر پس ماندہ معاشرے کی طرح ہماری نئی نسل بھی یہی سمجھتی ہے کہ مال و زر کی فراوانی نہ ہو تو زندگی کچھ بھی نہیں۔ تحریک دینے کے نام پر سوچنے، لکھنے اور بولنے والے نئی نسل پر متوجہ ہیں کیونکہ اُن کی باتیں نئی نسل ہی غور سے سُنتی ہے اور سپنوں میں کھو جاتی ہے۔ سیلف ہیلپ اور شخصی ارتقا کے موضوعات نئے نہیں مگر اب اس حوالے سے جو کچھ بولا اور لکھا جارہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ بیشتر باتیں ہوا میں تیر چلانے جیسی ہیں۔ شخصی ارتقا کے نام پر نئی نسل کو لیکچر دینے والوں کی اکثریت محض سہانے سپنے دکھاتی ہے۔ نوجوانوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اُن میں بہت کچھ ہے، صلاحیت بھی، سکت بھی۔ اور یہ کہ قابلِ رشک کامیابی تو پکے ہوئے پھل کی طرح جسے ہاتھ بڑھاکر توڑ لینا ہے، بس۔ نئی نسل کو کچھ کرنے کی تحریک دینے والے ایسی باتیں کرتے ہیں جو حقیقت کی دنیا سے زیادہ تعلق نہیں رکھتیں۔ یقین دلایا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان قابلِ رشک کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ سوال چاہنے کا ہے۔ اور چاہنا تو محض پہلی منزل ہے۔ اِس کے بعد تیاری کا مرحلہ آتا ہے یعنی جس شعبے میں کچھ کرنا ہے اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا اور اپنے آپ کو اُس کے لیے تیار کرنا۔ اِس کے بعد محنت کی باری آتی ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنے اور قابلِ رشک نوعیت کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ہر عہد کے انسان کو بہت محنت کرنا پڑی ہے۔ آج بھی معاملہ مختلف نہیں۔ ہاں، اب ایک اضافی الجھن یہ ہے کہ بہت کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ غیر معمولی رفتار سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے اور اُن کے مطابق اپنی شخصیت اور کارکردگی کو تبدیل کرنے کے لیے انسان کو اضافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اب صرف محنت سے کام نہیں چلتا۔ محنت بھرپور ذہانت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ آنکھیں بند کرکے کسی بھی سمت چل نہیں پڑنا بلکہ دیکھتے رہنا ہے کہ کہیں کسی گڑھے کی طرف تو نہیں بڑھ رہے۔
نئی نسل کو عملی زندگی کے حوالے سے غیر معمولی راہ نُمائی درکار ہے۔ ہر عہد کی نئی نسل پُرانی نسل سے بہت کچھ لے کر ہی کچھ بنتی آئی ہے۔ فی زمانہ یہ معاملہ اور بھی اہم ہوگیا ہے کیونکہ نئی نسل کے لیے چیلنج زیادہ ہیں۔ ہر شعبے میں مسابقت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ کریئر کے بارے میں سوچنا آسان ہے مگر اِس حوالے سے جامع تیاریاں کرنا اور پھر میدانِ عمل میں آنا بہت دشوار ہے۔ نئی نسل کے ذہن میں عملی زندگی کا صرف یہ تصور ہے کہ صرف کمایا نہ جائے بلکہ زیادہ سے زیادہ کمایا جائے۔ اُس کی نظر میں جو کچھ بھی ہے وہ بس مال و منال ہے۔ کسی نہ کسی طور محض زیادہ دولت کمانے کو کسی بھی درجے میں کریئر قرار نہیں دیا جاسکتا مگر نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی زحمت گوارا کرنے والے خال خال ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں نئی نسل اپنے طور پر بھی بہت کچھ کرسکتی ہے مگر ایسی حالت میں جو کچھ کیا جائے گا اُس کا بڑا حصہ کسی کام کا نہ ہوگا۔ دورِ جدید کے شعبوں میں کام کرنے والے نوجوان بھی عام آدمی سے کہیں زیادہ کمانے کے باوجود اپنی زندگی میں کمی سی پاتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ صرف کمانے کو زندگی کا مقصد گرداننے لگتے ہیں۔ جب دولت کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا ہو تب انسان کنویں کے مینڈک کا سا ہو جاتا ہے۔ اُس کی زندگی میں دل کشی باقی نہیں رہتی۔ وہ بہت کوشش کرنے پر بھی زندگی میں وہ سُکون پیدا نہیں کر پاتا جو پیدا ہونا چاہیے۔
عجلت پسندی فی زمانہ نئی نسل کی سب سے بڑی خامی اور کمزوری ہے۔ راتوں رات بہت کچھ پانے کی آرزو کسی بھی درجے میں معقولیت کی عکاس ہے نہ دلیل۔ کریئر وہی اچھا ہے جو درجہ بہ درجہ آگے بڑھے اور دھیرے دھیرے تمام معاملات کو مستحکم کرتا جائے۔ تمام شعبوں کے کامیاب ترین افراد سے اُن کے کام کے بارے میں پوچھیے تو یہی جواب ملتا ہے کہ طویل مدت تک پوری دل جمعی اور استحکامِ فکر و نظر کے ساتھ کام کرتے رہنے سے زندگی کا معیار بلند ہوتا چلا گیا۔ ہر شعبے کے کامیاب ترین افراد بتاتے ہیں کہ کریئر کے معاملے میں عجلت پسندی زہر کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ بہت تیزی سے بہت کچھ پانے کی تمنا انسان کو صرف پریشانی سے دوچار رکھتی ہے۔ ہر شعبے میں مثالی نوعیت کی کامیابی ایک خاص دورانیہ چاہتی ہے۔ اِس دورانیے میں معاملات مختلف مراحل سے گزر کر پختہ ہوتے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے نئی نسل کی ذہن سازی لازم ہے۔
اکیسویں کے تیسرے عشرے میں زندگی ملی جلی کیفیت کی حامل ہے۔ ایک طرف مشکلات اور چیلنج ہیں اور دوسری طرف مواقع بھی۔ بھرپور کامیابی کے لیے جدوجہد کے دوران مختلف معاملات کے اخلاقی جواز کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اخلاقی اقدار کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کی تربیت پائی ہو تو زیادہ دولت کمانے کی خواہش شدید الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ زیادہ دولت کمانا ہر عہد میں ایک مسئلہ رہا ہے۔ سوال محنت کا نہیں، کمانے کے لیے بروئے کار لائے جانے والے طریقوں اور وسائل کے اخلاقی جواز کا ہے۔ معاشی معاملات میں اخلاقی جواز و عدم جواز کا مسئلہ کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ جس کی تربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی ہو وہ دولت کمانے کے کسی بھی طریقے کو آنکھیں بند کرکے نہیں اپناتا۔ دیکھا جاتا ہے کہ دولت کس طور حاصل کی جاسکے گی اور یہ کہ اُس طور کا اخلاقی جواز بنتا ہے یا نہیں۔
ہمارے ہاں نئی نسل کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی کہ کامیابی راتوں رات نہیں ملتی اور اگر کبھی، حالات کی مہربانی سے، پلک جھپکتے میں کچھ زیادہ حاصل ہو بھی جائے تو اُسے حقیقی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کامیابی وہی ہے جس کے لیے اچھی طرح تیاری کی گئی ہو، ذہن بنایا گیا ہو، متعلقہ اُمور کا خیال رکھا گیا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اخلاقی پہلوؤں کو نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔ اگر دوسروں کو دھکیل کر، گراکر آگے نکل گئے تو اِسے کسی بھی درجے میں حقیقی اور قابلِ فخر کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نئی نسل کو بتایا جانا چاہیے کہ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انسان پُرآسائش زندگی تو بسر کرے مگر دل و دماغ پر، ضمیر پر کوئی بوجھ نہ ہو۔ کامیابی کی راہ پر بڑھتے جانے کے لیے دوسروں کو دھکیلنا، گرانا کسی بھی درجے میں پسندیدہ عمل نہیں۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بالآخر اِس کا بھگتان بھی کرتے ہیں۔ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہی پلٹ کر اُس کی طرف آتا ہے۔
کسی بھی کامیاب انسان سے پوچھیے۔ وہ یہی کہے گا کہ راتوں رات کچھ بھی نہیں ملتا۔ بہت سوں کو حالات کی مہربانی سے جو کچھ تیزی سے مل جاتا ہے وہ معاملات کو بگاڑ دیتا ہے اور بالآخر عملی زندگی شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ حقیقی اور بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے اُن تمام مراحل سے گزرنا لازم ہے جو عقل اور منطق کے مطابق ہیں۔ جس طور انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیکھتا جاتا ہے بالکل اُسی طور کامیابی بھی مرحلہ وار آگے بڑھتی ہے اور ایسی کامیابی ہی انسان کو مستحکم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ راتوں رات کامیابی کے حصول کا بُخار چڑھ جائے تو انسان کے قوٰٰی بہت تیزی سے نِڈھال ہو بیٹھتے ہیں۔