یوسیبیا نے کہا۔ ’’مجھے آپ کی پریشانیوں کا احساس ہے اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ اس مسئلے پر آپ سے بحث نہیں کروں گی‘‘۔
’’نہیں، یوسیبیا! یوں نہ کہو۔ آخر تمہارے سوا کون ہے جس سے باتیں کرکے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکوں۔ میری یہ حالت ہے کہ میں اپنی فوج کو باسفورس میں کودنے کا حکم دے سکتا ہوں لیکن انہیں یہ بتانے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ میرے حکم ماننے سے تم ڈوب جائو گے۔ کاش! میرے افسروں میں چند آدمی ایسے ہوتے جن سے میں کھل کر باتیں کرسکتا۔ ان دنوں میں بڑی شدت سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ عاصم کو میرے پاس ہونا چاہیے تھا‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’آپ اُسے بلا کیوں نہیں لیتے؟‘‘
سین نے جواب دیا۔ ’’کل مجھے اطلاع ملی تھی کہ مصر سے ہماری فوج کے چند دستے عنقریب یہاں پہنچنے والے ہیں۔ اگر وہ اُن کے ساتھ نہ آیا تو میں مصر کے سپہ سالار کے پاس ایلچی بھیج دوں گا‘‘۔
عاصم کا ذکر سن کر فسطینہ کے دل میں خوشگوار دھڑکنیں بیدار ہونے لگیں۔
یوسیبیا نے پوچھا۔ ’’ایرج کا کیا حال ہے؟‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’ایرج سے میں بہت زیادہ خوش نہیں ہوں۔ اپنے خاندانی اثر و رسوخ کے طفیل قبل ازوقت ترقی کرکے وہ حد درجہ مغرور ہوگیا ہے۔ فوج کا کوئی افسر اُس سے خوش نہیں۔ چند دن ہوئے اُس نے ایک عمر رسیدہ افسر کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا تھا۔ میں نے اُسے بازپرس کے لیے بلایا تو وہ شراب کے نشے میں چور تھا۔ اگر اُس کے باپ کا لحاظ نہ ہوتا تو میں اُسے بدترین سزا دیتا۔ اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اُسے کچھ عرصہ کے لیے رخصت پر بھیج دیا جائے۔ پچھلے دنوں اُس کے باپ نے بھی یہ پیغام بھیجا تھا کہ میں اپنے بیٹے کے لیے کسی صوبے کی گورنری حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’لیکن اس عمر میں اُسے اتنی بڑی ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے‘‘۔
’’وہ ایک ایسے خوش نصیب خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کے افراد کو کوئی عہدہ دیتے وقت یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تمہاری عمر کیا ہے۔ اور اب وہ چھوٹا بھی نہیں۔ اُس کی عمر چوبیس سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اُس کے باپ نے ایک بار پھر اُس کی شادی کے متعلق لکھا ہے اور اب میں اُسے ٹالنے کے لیے یہ بہانہ نہیں کرسکتا کہ فسطینہ کی عمر ابھی چھوٹی ہے‘‘۔
فسطینہ پہلی مرتبہ اپنے باپ کے منہ سے اپنی شادی کے متعلق سن رہی تھی اُس نے اضطراب اور بے بسی کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھا اور فوراً اُٹھ کر چلی گئی۔
یوسیبیا نے پوچھا۔ ’’آپ نے اُسے کیا جواب دیا ہے؟‘‘۔
کوئی جواب دینے سے پہلے میں تم سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن فسطینہ چلی کیوں گئی۔ کیا وہ ایرج کو پسند نہیں کرتی؟‘‘۔
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’میں ابھی آپ کے آنے سے پہلے اُسے یہ سمجھا رہی تھی کہ ایرج سے شادی کے مسئلے میں تمہارے والد تمہاری پسند یا ناپسند کو کوئی اہمیت نہ دیں گے‘‘۔
سین کچھ دیر پریشانی کی حالت میں یوسیبیا کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’تمہیں میری بیٹی سے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ میں بذاتِ خود ایرج سے مطمئن نہیں ہوں، میں کئی سال سے اُس کامطالعہ کررہا ہوں اور مجھے اُس کی سب سے بڑی خوبی یہی نظر آئی ہے کہ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس سے ناتا جوڑنے پر ایرانی فخر کرسکتا ہے۔ شکل و صورت کے اعتبار سے وہ ایران کے چند خوش وضع نوجوانوں میں سے ایک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب فسطینہ سنجیدگی سے اپنے مستقبل کے متعلق سوچنا شروع کرے گی تو ایرج میں اُسے کئی خوبیاں نظر آئیں گی‘‘۔
’’مجھے یقین ہے کہ فسطینہ کوئی ایسی خواہش نہیں کرے گی جس کی تکمیل سے اُس کے باپ کے دوستوں کی تعداد میں کمی یا دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے۔ لیکن میں یہ درخواست کروں گی کہ آپ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہ لیں اور مجھے اِس بات کا موقع دیں کہ میں اُسے نفع اور نقصان سمجھا سکوں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’فسطینہ کی شادی کے مسئلے میں جلد بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اب وہ اٹھارہ سال کی ہوچکی ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایرج کو پسند کرتی ہے۔ اور اگر اُس نے ابھی تک اپنی شادی کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع نہیں کیا تو تم اُسے بہ آسانی یہ سمجھا سکتی ہو کہ ایرج کے خاندان سے ناتا جوڑنے میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ موجودہ حالات میں ایرج کے سوا ایران کا کوئی اور نوجوان ایک عیسائی ماں کی بیٹی سے شادی کرنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ اور اگر کوئی یہ جسارت کرے بھی تو ہمیں یہ اطمینان نہیں ہوگا کہ وہ ایرج سے زیادہ اُس کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اُس سے شادی کرنے کے بعد اگر وہ اپنے گلے میں صلیب ڈال کر مدائن کے بازاروں میں گھومنا چاہے یا اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا گرجا تعمیر کرلے تو بھی ہمارا سب سے بڑا کاہن اُس پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں کرے گا‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے لیکن میں آپ سے یہ وعدہ لینا چاہتی ہوں کہ آپ میری بیٹی کو سوچنے کا موقع دیں گے‘‘۔
سین نے برہم ہو کر کہا۔ ’’میں نے یہ کب کہا ہے کہ آج ہی اُس کی شادی کا فیصلہ کرچکا ہوں‘‘۔ پھر وہ بلند آواز میں بلایا۔ ’’فسطینہ! فسطینہ! ادھر آئو‘‘۔
اور فسطینہ جو پردے کے پیچھے کھڑی اُن کی باتیں سن رہی تھی۔ کمرے کے اندر آگئی۔
’’بیٹھ جائو، بیٹی! میں کل علی الصباح یہاں سے چلاجائوں گا اور مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں کہ تم ایک لمحہ کے لیے بھی میری آنکھوں سے اوجھل رہو۔ تم میرے لیے دعا کرتی رہتی ہونا؟‘‘۔
فسطینہ نے جواب دینے کے بجائے آگے جھک کر اپنا سر سین کے کشادہ سینے پر رکھ دیا۔
وادیٔ نیل کے جنوب کی طرف پیش قدمی کرنے والے ایرانی دستے کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا کیے بغیر طیبہ کے قدیم شہر میں داخل ہوچکے تھے۔ لیکن اس سے آگے صحرائے نوبہ اُن سیاہ فام جنگجو قبائل کا مسکن تھا جو ازمنہ قدیم میں فراعنہ کی افواج کا بہترین حصہ ہوتے تھے۔ چناں چہ ایران کا لشکر بابلیون سے پیش قدمی کرنے کے بعد پہلی بار غیر متوقع مشکلات کا سامنا کررہا تھا۔
اہل نوبہ کی جنگ باقاعدہ افواج کی جنگ سے مختلف تھی۔ یہ لوگ کسی میدان میں جمع ہو کر ہار اور جیت کا فیصلہ کرنے کی بجائے اکّا دُکا حملوں پر اکتفا کرتے تھے۔ فاتح لشکر آگے بڑھتا تو یہ لوگ راستے کی بستیاں خالی کرکے بھاگ جاتے۔ دن کے وقت آفتاب کی تمازت سے یہ خطہ ایک جہنم زار بن جاتا تھا۔ سواروں کے گھوڑے گر کر کردم توڑ دیتے اور پیادہ سپاہی چلتے چلتے نیل کے پانی میں کوڈ پڑتے۔ غروب آفتاب کے بعد اس تھکی ہاری فوج کو آرام کے لیے چند گھنٹے ملتے لیکن رات کے سناٹے میں اچانک کہیں دور سے نقارے کی صدا بلند ہوتی اور پھر آن کی آن میں ایسا محسوس ہونے لگتا کہ ساحل دریا کے آس پاس تمام جھاڑیاں اور تمام چٹانیں حرکت میں آگئی ہیں۔ ہزاروں نقارے ایک ساتھ بجنے لگتے۔ پھر بھیانک تاریکی کے سینے سے ایک دل ہلادینے والی چیخ بلند ہوتی اور چاروں طرف سے اُس کا جواب آنے لگتا۔ اس کے بعد نقاروں کی صدائیں اور انسانوں کی چیخیں اچانک خاموش ہوجاتیں۔ گہری نیند سے بیدار ہونے والے سپاہی خوف و اضراب کے عالم میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے اور انہیں نیل کے کنارے مینڈکوں اور جھینگروں کی نہ ختم ہونے والی راگنیوں اپنے دل کی دھرکنوں کے سوا کوئی آواز سنائی نہ دیتی بلکہ ایسا معلوم ہوتا کہ کوئی اَن دیکھی اور اَن جانی مخلوق صحرا کی خاموش فضا میں ایک ہنگامہ بپا کرنے کے بعد اچانک گہری نیند سو گئی ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد یہ طلسم ٹوٹ جاتا اور خاموش فضا پھر ایک بار نقاروں کی صدائوں اور انسانوں کی چیخوں سے لبریز ہوجاتی فوج کے افسر اور سپاہی جو دن کی جھلس دینے والی دھوپ میں رات کا انتظار کرتے تھے۔ رات کی بھیانک اور پُراسرار تاریکی میں طلوع سحر کا انتظار کرتے تھے۔
پھر کئی دن کے بعد ایک رات ایسی آتی تھی جب انہیں صحرا میں مکمل سکوت ان ہنگاموں سے زیادہ خوفناک لگتا تھا۔ سپاہی اور اُن کے پہریدار ایسا محسوس کرتے تھے کہ پڑائو کے آس پاس ہر جھاڑی اور ہر چٹان کی اوٹ میں اُن کے لاتعداد دشمن کھڑے ہیں۔ لمحات، ساعتیں اور پہرگزر جاتے، یہاں تک کہ اُن پر نیند کا غلبہ ہونے لگتا۔ اچانک تاریکی میں دکھائی نہ دینے والے انسانوں کا کوئی گروہ جھاڑیوں یا چٹانوں کی آڑ سے نمودار ہوتا اور پڑائو کے کسی حصے میں تباہی مچانے کے بعد دریا کے آس پاس گھنی جھاڑیوں اور سرکنڈوں سے پٹی ہوئی ان وسیع دلدلوں میں روپوش ہوجاتا جہاں ناواقف سپاہیوں کے لیے اُن کا پیچھا کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اب دنوں کا سفر ہفتوں میں طے ہورہا تھا اور جوں جوں وہ آگے بڑھ رہے تھے اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ایران کے بہترین سپاہی سرد علاقوں سے آئے تھے اور اُن پر گرمی اور مسلسل بے آرامی کے اثرات ظاہر ہورہے تھے۔ فتوحات کا ولولہ بتدریج سرد ہورہا تھا۔ عرب قبائل کے رضا کار اُن کے مقابلے میں گرمی برداشت کرنے کے زیادہ عادی تھے لیکن وہ کسریٰ کی فتوحات سے زیادہ لوٹ مار کے شوق میں اپنے گھروں سے نکلے تھے اور اب اُن کے منہ سے اس قسم کی شکایات سنی جارہی تھیں۔ ’’ہم نے مصر فتح کرنے کے لیے ایرانیوں کا ساتھ دینا قبول کیا تھا لیکن اب ہم مصر کی حدود سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ کسریٰ اگر یہ تمام براعظم فتح کرلے تو بھی اِس پر تسلط قائم رکھنا ممکن نہیں۔ ہمیں واپس جانا چاہیے اور اُس دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جب یہ ویرانے ہمارے قبرستان بن جائیں گے۔ اگر کسریٰ کو ہماری خدمات کی ضرورت ہے تو ہم اُس کے لیے مغرب کے زرخیز علاقے اور پُررونق شہر فتح کرسکتے ہیں‘‘۔
فوج کا سپہ سالار ان حالات سے بے خبر نہ تھا لیکن خسروپرویز کے احکامات کے بغیر اُسے رُکنے یا واپس ہونے کی اجازت نہ تھی۔
عاصم نے قبائلیوں کے طریق جنگ سے واقف ہوتے ہی سپہ سالار کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمارے لیے خیر محفوظ راستوں پرپیش قدمی جاری رکھنے کے بجائے کسی محفوظ مقام پر پڑائو ڈال کر ان لوگوں کے خلاف موثر کارروائی کرنا زیادہ ضروری ہے۔ لیکن سپہ سالار کی منزل مقصود حبشہ کا دارالحکومت تھا اور وہ کسی تاخیر کے بغیر وہاں اپنے شہنشاہ کی فتح کا پرچم نصب کرنا چاہتا تھا، چنانچہ اُس نے عاصم کی تجویز یہ کہہ کر رد کردی کہ جب ہم حبشہ کی فتح کے بعد پلٹیں گے تو ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے ہمارے پاس کافی وقت ہوگا۔ لیکن کچھ عرصہ شدید نقصانات اُٹھانے کے بعد فوج کے کئی اور افسر عاصم کے ہم خیال بنتے جارہے تھے۔ سپہ سالار نے مجبوراً فوج کو دریا کے کنارے سے کچھ دور ہٹ کر پڑائو ڈالنے کا حکم دیا۔ اور دشمن کے خلاف جوابی کارروائی شروع کردی۔ رات کے وقت دشمن کو دور رکھنے کے لیے تیر انداز پڑائو کے گرد مورچوں میں بیٹھ جاتے اور صبح ہوتے ہی سواروں کے دستے دشمن کی کمین گاہوں کی تلاش میں مختلف سمتوں کی طرف روانہ ہوجاتے۔ پہلے دن اس کارروائی کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہ تھے۔ ایرانی سوار دریا کے کنارے جھاڑیوں اور سرکنڈوں سے ڈھکی ہوئی دلدلوں میں گھسنے یا دریا سے دور اُن سنگلاخ چٹانوں کا رُخ کرنے سے گھبراتے تھے جو دشمن کے قدرتی قلعوں کا کام، دیتی تھیں۔ اُن کی کارگزاری چند اجڑی ہوئی بستیوں کو آگ لگانے اور پندرہ بیس عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو گرفتار کرنے تک محدود تھی۔ ایک ٹولی کا یہ دعویٰ تھا کہ اس نے نیل کے کنارے جنگل میں چھپے ہوئے دشمن کے ایک گروہ پر حملہ کرکے کئی آدمی تہ تیغ کردیے ہیں۔
دوپہر سے قبل اُن عرب سواروں کے سوا، جو عاصم کی قیادت میں روانہ ہوئے تھے، باقی تمام دستے واپس آچکے تھے اور فوج پریشانی اور اضطراب کی حالت میں اُن کا انتظار کررہی تھی۔ شام کے قریب سپہ سالار خیمے کے باہر اپنے افسروں کے درمیان کھڑا تھا۔ اور جوں جوں سائے لمبے ہوتے جارہے تھے اُس کا اضطراب بڑھ رہا تھا۔ اُس نے چاروں طرف نگاہ دوڑانے کے بعد ایک عرب رئیس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ یہ ممکن نہیں کہ اُن میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ہو۔ اگر وہ کہیں گھر گئے ہیں تو بھی عاصم اتنا نادان نہیں کہ اس نے ہمیں اطلاع دینے کی ضرورت محسوس نہ کی ہو‘‘۔
(جاری ہے)