تحقیق میں تنقید کی اہمیت اور نگراں کا رویہ

620

پرویرفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے تحقیق کے موضو ع پر تفصیلی بتادلہ خیال

(آٹھواں او ر آخری حصہ)
ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے تحقیق کو جدید خطوط پر استوار کرنا کس طرح ممکن اور اس کی کیا اہمیت ہوگی؟ اس پر ڈاکٹر سید معین الدین عقیل نے فرمایااگر ہم تحقیق کے جدید خطوط کو اختیار کریں، جدید اسالیب و رسمیات کا لحاظ رکھیں،اور عصری رجحانات پر عمل پیرا ہوں تو ہماری تحقیق عالمی توجہ اور شناخت حاصل کرسکے گی ورنہ ہمارے مطالعات کی اسالیب و پیش کش کے لحاظ سے فرسودگی اور جدید تقاضوں کا احترام نہ کرنے کے نتیجے میں ہماری تحقیقات اور مطالعات کو عالمی توجہ حاصل نہیں ہوتی اور تحقیق کے جو فوائد علمی دنیا تک پہنچنے چاہئیں وہ نہیں پہنچ پاتے اور ہماری محنت و کوشش محدود و غیر موثر رہتی ہے۔ اس لیے ہمیں،ہماری جامعات کو اور خاص طور پر ایچ ای سی کو یہ لازم قرار دینا چاہیے کہ تحقیقات کو پیش کرنے کے لیے وہ اصول و رسمیات اور اسالیب و طریقہ ٔ کار اختیار کریں جو سائنٹی فک ہوں اور جنھیں دنیا معیاری قراردیتی اور تسلیم کرتی ہے۔ہمیں اپنے بند کنویں سے نکل کر جدید رجحانات اور اسالیب کے کھلے سمندر میں کامیاب پیراکی کرنی چاہیے تاکہ ہم ترقی یافتہ قوموں کی ہمسری کرسکیں۔ یہ بتائیے کہ پی.ایچ.ڈی’’ کا عمومی وقت کیا ہونا چاہیے ایک تحقیق کار کو اپنا کام کرنے میں کتنا وقت ملتا ہے اور مغرب میں مدت کا تعین کیا ہے؟
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل:پی ایچ ڈی کے ایک مقالے کی تکمیل کے لیے وقت کی حد متعین نہیں کی جاسکتی ہے۔بالعموم اسے تین سال سمجھاگیاہے اور جامعات میں وقت کا جو تعین ہے وہ عموما ً تین سال ہی ہے۔ لیکن کبھی کبھی صرف موضوع کے انتخاب اور اس کی منظوری میںدودوسال تک لگ جاتے ہیں اور پھر منظوری کے بعد سارے مراحل بھی، مقالے کی پیش کش اور اس کی منطوری میں علیحدہ تین سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ہر جگہ ایسا ہوسکتاہے۔یعنی باہر بھی میں نے دیکھا ہے اور خود میرے وہاں ایسے طالب علم رہے ہیں جن کے موضوعات کے انتخاب ہی میں سال دو سال صرف ہوگئے۔پھرماخذ کی تلاش و جستجوایک مستقل توجہ چاہتی ہے۔بعض اوقات ان کے حصول میں سفردرسفر کی منزلیں بھی آتی ہیں اور ایک آدھ چیز کی کمی مہینوں ایک کام کو روکے رکھتی ہے۔اس لیے کسی طے شدہ مدت کا لحاظ مناسب تو ہے لیکن لازم نہیں ہونا چاہیے۔پھررسمی مراحل اور ہماری دفتری کارروائیاں اپنی کوئی حتمی انتہانہیں رکھتیں۔ ان اسباب کی وجہ سے وقت کی طے شدہ مدت پر عمل مشکل ہی سے ہوتاہے۔لیکن گاہے ہوتا بھی ہے اور بعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ وقت کے ختم ہونے سے پہلے ہی کام مکمل ہوگیا اور بعض اوقات تو مقررہ مدت کے مکمل ہو نے کا انتظار بھی کرناپڑتاہے۔ویسے انتظار کی یہ کیفیت میں نے باہر کہیں نہیں دیکھی۔
ایک اہم سوال کہ کیاغیر معیاری تحقیق میں تنقیدی سوچ کا نہ ہونا بھی ایک سبب ہے؟ آخر تحقیق میں تنقید کی کیا اہمیت ہے؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ ’’:تنقید بے حد ضروری ہے بالکل اسی طرح جس طرح تجزیہ ضروری ہے۔تنقید تو جانچنے پرکھنے کا عمل ہے جو اسی وقت سے شروع ہوجاتاہے جب ہم موضوع کے انتخاب کے مرحلے سے گزرتے ہیں اورپھر ماخذ کا تعین کرتے اور انھیں رد یا قبول کرتے ہیں۔جب آگے بڑھتے ہیں اور موضوع کے تحت مطالعے کے نتائج کو متعین کرتے ہیں تو اس وقت بھی تنقیدی عمل ہمارا سہارا بنتاہے۔اس عمل میں تجزیہ بھی ضروری ہوجاتاہے کہ جو نتیجہ سامنے آرہاہے آیا وہ جواز بھی رکھتاہے یا نہیں۔تنقید و تجزیہ ایک باہمی عمل ہے اور تحقیق کے نتائج کو جانچنے پرکھنے کے لیے ضروری ہوجاتاہے۔اس لیے تنقید کے بغیر تحقیق کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس کے لیے تنقید کا سہارا ضروری ہوجاتاہے۔
میں نے پوچھا ہمارے تحقیق کرنے والے کو ایک اور جس مشکل کا سامنا ہوتا ہے وہ یونیورسٹی پروفیسرز اور ریسرچ سپروائزرز کا رویہ بھی ہے وہ ذاتی یا زیادہ تر اساتذہ سیاست میں الجھے رہتے ہیں، اورنگرانی بہت ہی کم کر پاتے ہیں۔جس کا اثر تحقیق کار کی تحقیق پر اس کو ہر مرحلے میں آنے والی مشکلات کی صورت میں پڑتا ہے۔آپ بحیثیت استاد اور سپروائزر اس بارے میں کیا کہیں گے؟ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا کہنا تھا کہ ’’جی ہاں، واقعی نگران کا رویہ بہت اہمیت رکھتاہے، ایک طالب علم میں تحقیق کے شوق کی تسکین کے لیے بھی اور اس میں ذوق و شوق کو بڑھانے اور اس میں نکھار پیداکرنے کے لیے بھی۔ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اساتذہ ہی ہمارے بہت سے المیوں کے ذمے دار ہیں اور میں یہ ہمیشہ کہتا اور لکھتابھی رہاہوں کہ یہ اساتذہ ہی ہیں جو ہمارے معاشرے کے بگاڑ نے اور سنوارنے کے ذمے دار ہیں۔ اب معاشرہ سنور نہیں رہا، بگڑ رہاہے جس کے بڑی حد تک ذمے دار اساتذہ ہی ہیں۔ میں معاشرے کی تعمیر اور اس سے زیادہ موجودہ بگاڑ کا ذمے دار استاد، صحافی اور عدالتوں کو قراردیتاہوں بل کہ یہ بھی کہتاہوں کہ صحافی اور جج بھی استاد ہی بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ جامعات میں استاد اب کم ہی اہلیت اور لیاقت کے ساتھ آتے ہیں۔اس لیے وہ اپنی آمد ہی نہیں جامعہ میں اپنی بقا اور ترقی کے لیے سیاسی گروہ بندیوں اور جماعتی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں۔ایسی صورت میں تحقیق کا ذوق و شوق ان میں کہاں سے آئے گا لیکن اب جامعات میں ایک استاد کی ترقی اور بقاکے لیے تحقیق لازم قراردیے جانے کے سبب ایسے اساتذہ کو بھی اس جانب آنا پڑا۔ زندگی میں پہلے کبھی نہ کچھ لکھا نہ پڑھا اب یکایک تحقیق جیسے دشوار گزار مرحلے سے گزرنا ان کے لیے کیون کر ممکن ہوتا اس لیے وہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے کسی طرح یہ ہفت خواں طے کرہی لیتے ہیں۔ ان کوششوں میں وہ اپنے ساتھ طلبہ کو بھی مختلف حیلے بہانوں اور سبز باغ دکھا کر یا کسی طرح مجبور کرکے اپنے ساتھ تحقیق کے لیے راغب کرلیتے اور ان کے نگران بن بیٹھتے ہیں۔ چناں چہ نگرانی کا فریضہ کیا خاک انجام دیں گے اسے آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے نظریں چرائے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اگر ان کی نگرانی میں تحقیق کا کام آگے بڑھا بھی اور مکمل بھی ہوا تو وہ غیر معیاری اور ناپختہ ہی ہوگا،چناں چہ ایسا ہی ہوتاہے۔باہمی رقابتوں اور سیاسی گروہ بندیوں کے ذیل میں ایسے اساتذہ اپنی کامیابیوں کے لیے جہاں ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں وہیں اہل اور لائق و دیانت دار اساتذہ کے خلاف ایک محاذ بھی قائم کرلیتے اور ان کے خلاف اور اپنے حق میں ایسا جھوٹا پرپیگنڈا اپنا شعار بنالیتے ہیں کہ ان کے مقابل ان کا اپنا قد نیچا نہ رہے۔اس سلسلے میں انتظامیہ اپنی نااہلی یا سیاست کے تابع رہنے کے سبب، ان اساتذہ کا کچھ بگاڑ نہیں پاتی۔یہ وہ صورت حال ہے جس کے باعث صرف تحقیق ہی نہیں سارا تعلیمی نظم و ضبط بگاڑ کا شکار اور تباہی کے در پر ہے۔
آخرمیں ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کا شکریہ ادا ہوے کہا کہ آپ نے اتنے مفصل انداز میں گہرے اور عمیق خیالات کا اظہار کیا جو کہ یقینا تحقیق اور اس سے متعلق لوگوں کے لیے اہمیت کے حامل ہونگے۔ا س پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ’’ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے سوالات کی روشنی میں مجھے بھی جامعات میں ہونے والی تحقیقات اور ان کے مسائل و معاملات پر دوبارہ نظر ڈالنے کا موقع ملاہے کہ ان سب کاذہنی طور پر میں خود اعادہ کرسکوں اور یہ خواہش بھی کرسکوں کہ کاش ان مسائل و معاملات پرجامعات کے متعلقہ ارباب اختیار اور بالخصوص ایچ ای سی کی نظر پڑسکے اور وہ جامعات میں ہونے والی تحقیقات کے معیار کی بلندی و بہتری کے لیے اپنا فریضہ انجام دے سکے، جس کی طرف سے وہ اگر غافل نہیں تو سنجیدہ اور مستعد و فعال بھی نظر نہیں آتی۔کاش اس کی وہ کمزوریاں بھی دور ہوسکیں جن سے فائدہ اٹھاکر جامعات بھی اور اس کے نااہل اور بدعنوان اساتذہ بھی خوب خوب ذاتی فائدے اٹھارہے ہیں اور ملک کا نام ملک و بیرون ِ ملک بدنام ہورہاے اور قوم عمدہ تحقیقات اور مطالعات کے فائدوں سے آئے دن زیادہ محروم ہوتی جارہی ہے۔
جامعات میں تحقیق کی صورت ِ حال اور اس کی نوعیت اور اس کے مسائل پرڈاکٹر صاحب سے جوگفتگو ہوئی ہے اس ساری گفتگو سے جامعاتی تحقیق کے معیار کی بہتری و بلندی کی مد میں کم از کم جو نتیجہ خیزاموراخذ کیے جاسکتے ہیں، انھیں ذیل میں اس طرح نکات و عنوانات کے تحت ماحصل کے طور پر بیان کیاجاسکتاہے۔ اس ضمن میں مذکورہ سوالات سے قطع نظر ڈاکٹر صاحب نے بعض مزید امور پر بھی جو باتیں دوران ِ گفتگو کی تھیں،ان کے بعض نکا ت بھی ذیل میں شامل کیے جارہے ہیں :
٭تحقیقی تربیت کا جو نصاب یا کورس ورک جامعات میں رائج ہے، اس کے لیے نصاب کا تعین خود ایچ ای سی کو کرنا چاہیے،جامعات پر نہ چھوڑا جائے، تاکہ معیار یکساں اور یقینی قائم رہے۔جامعات میں کورس ورک کے انعقاد میں خاصی بدعنوانیاں روا رہتی ہیں، اساتذہ اکثر نصاب پڑھانے کی اہلیت کے حامل نہیں اور نصاب مکمل بھی نہیں ہوتا اور اساتذہ باقاعدگی سے تدریس و رہنمائی کی اپنی ذمے داریاں بھی اہلیت و دیانت داری سے انجام نہیں دیتے۔اکثرنصاب مکمل نہیں کرتے، اور بعض توامتحان بھی نہیں لیتے لیکن کاغذی خانہ پُری کے لیے فرضی نتیجے جاری کردیتے ہیں۔اس لیے کورس ورک کے اس نظام ہی کو ترک کردینا چاہیے جو وسائل اور وقت ہر ایک کا زیاں بھی ہے۔اس کے بجائے طلبہ کو داخلے کی شرط کے طور پر ایک جامع اور بھرپور مقالہ لکھنے کے لیے دیا جائے جو ان کے اس پسندیدہ موضوع پر مبنی بھی ہوسکتاہے یا جس موضوع پر بھی وہ لکھیں۔اس مقالے کے لیے انھیں یہ ہدایت دی جائے کہ پہلے سے موجود عمدہ تحقیقی مقالات کا خود مطالعہ کریں اور ان کے عنوانات کے مزاج و نوعیت اور اسلوب و رسمیات کو بغور دیکھیںاور ان کے مطابق خود مقالہ لکھیں۔اس طرح جب وہ مقالہ لکھیں تو اسے جامعہ کی اس مقصد سے قائم ایک مجلس بغور دیکھ کر اس مقالے کے معیار کا جائزہ لے اور اس کے مطابق اس طالب علم کے داخلے کی منظوری دے۔یہی طریقہ ٔ کار ترقی یافتہ علمی دنیا میںپی ایچ ڈی کے خواہش مند طلبہ کی استعداد اور ذوق و شوق کو جانچنے اور انھیں داخلے کا اہل قراردینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنے کے لیے رائج ہے۔
٭موضوعات کے انتخاب میں ہماری جامعات میں کوئی افادیت اور مقصدیت نمایاں نہیں۔ یہ گھسے پٹے، فرسودہ اور سرسری و سطحی نوعیت کے موضوعات ہوتے ہیں، جن سے نہ متعلقہ علم میں کوئی اضافہ اور فائدہ نظر آتاہے نہ ہمارے معاشرے اور ملک و ملت کے مسائل اور ان کے حل کی ان سے کوئی مناسبت نظرآتی ہے، نہ قومی و سیاسی مسائل و معاملات کا ان سے کوئی تعلق باندھا جاسکتاہے۔پھر اکثر موضوعات میںتکرار نمایاں رہتی ہے۔نہ ان میںکو ئی جدت ہوتی ہے نہ مطالعہ و تجزیے کا رجحان ان میں نظر آتاہے۔ بالعموم یہ مطالعے اور تجزیے کے بجائے ’’جائزہ‘‘ کا مقصد لیے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اکثر موضوعات بڑی حد تک علم اور معاشرہ دونوں کے لیے بے فیض و بے فائدہ رہتے ہیں۔اس لیے موضوعات کی تنقیح ہونی چاہیے کہ ان کا جواز کیاہے اور یہ کس قدر مفید اور ضروری ہیں۔یہ کام ایچ ای سی کو کرنا چاہیے اور موضوعات کو جانچنے اور منظور کرنے کی حتمی منظوری کا اختیار اس کے پاس یا اس کی ایک ذیلی مجلس کے پاس ہونا چاہیے۔ اور اس مجلس میں متعلقہ موضوع یا مضمون کے حقیقی ماہرین کو شامل کیاجانا چاہیے۔
٭ایچ ای سی کی ایک مجلس خاص یہ دیکھے کہ جو محقق جس منصوبے پر کام کررہے ہیں وہ آیا کام کے دوران اپنے موضوع کی پیش رفت اور حاصلات کے بارے میں دومقررہ سیمینار پیش کررہے ہیں یا نہیں؟ ان سیمیناروں میں ایچ ای سی کا ایک مقامی نمائندہ ضرور شریک ہو اور ان سیمیناروں کی رپورٹ تحقیقات کی پیش رفت سے متعلق قائم ایچ ای سی کی قائم کردہ مرکزی مجلس کو ارسال کرے۔جہاں ایسے سیمیناروں کا ریکارڈ رکھاجائے۔
٭رسمی تقاضوںکے تحت ایچ ای سی نے جو یہ شرط عائد کی ہے کہ محقق اپنے کام کے دوران یا مقالہ پیش کرنے سے پہلے کم از کم دو تحقیقی مقالے کسی منظور شدہ معیاری تحقیقی مجلے میں ضرور شائع کرے، لیکن اس شرط پر دیانت داری سے کم ہی عمل ہوتاہے۔لوگ عام سے ماہنامہ رسالوں میں کسی طرح اپنے سرسری اور انتہائی غیرمعیاری مضامین شائع کرواکے انھیں تحقیقی مقالات باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور جامعہ اور اس کی متعلقہ مجلس میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں کہ وہ ان مقالات اور ان کی جائے اشاعت کو اور ان کے معیار کو جانچیں، چناں چہ دھوکا دہی سے یہ تقاضہ پورا کردیاجاتاہے اور جامعہ کی متعلقہ مجلس انھیں بالعموم تسلیم کرلیتی ہے۔ ایچ ای سی کو اس بارے میں ایک مستحکم نظام وضع کرنا چاہیے جوان دو مقالات اور ان رسائل کے معیار کو جانچے جن میں یہ مقالات شائع ہوئے ہیں۔
٭مقالہ پیش کرنے سے پہلے اس مقالے کو اس کے اسلوب اور رسمیات کے لحاظ سے جامعہ کی یا ایچ ای سی کی اس مقصد سے قائم ایک مجلس دیکھے،جس کی منظوری کے بعد مقالے کو پیش کرنے کی اجازت دی جائے،تاکہ باہر کی دنیا میں اس مقالے کی بھد نہ اڑے۔چناں چہ سیمیناروں کے انعقاداور مقالے کے اسلوبیاتی معیار کو جانچنے کے لیے جامعہ اور ایچ ای سی میں ذیلی مجالس کا قیام عمل میں آنا چاہیے اور ان کی منظوری کو ضروری قراردیاجانا چاہیے۔
٭مقالہ پیش ہونے کے بعد ممتحنین کے تقرر کے لیے نگران ِ مقالہ سے نام نہ لیے جائیں بلکہ یہ کام جامعہ کی بل کہ ایچ ای سی کی ایک مجلس انجام دے اور اس مقصد کے لیے ملک کے تمام ممتاز ماہرین کی مشاورت سے ہر مضمون کے ملکی و بین الاقوامی ماہرین کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کو بطور ممتحن متعلقہ مقالات بھیجے جاسکیں۔ممتحنین کے نام آخر وقت تک نگران سے مخفی رکھے جائیں۔
٭ممتحن حضرات کی جو آرا ٔ موصول ہوں وہ سب سے پہلے ایچ ای سی کی قائم کردہ متعلقہ ایک مجلس میں جمع ہوں، یا جامعہ ہی کی متعلقہ مجلس میں موصول ہوں مگر اصل آرا ٔ ضرور ہر رکن مجلس کو بھی دکھائے جائیں اور ان آرا ٔ کی نقل جامعہ کی متعلقہ فائل میں رکھ کر اصل بعد میں نتیجے کے ساتھ ایچ ای سی کی متعلقہ ایک مجلس کی تحویل میں ارسال کردی جائیں تاکہ ان کی تصدیق بھی ہو اوران کا ریکارڈ ایچ ای سی میں بھی محفوظ رہے۔
٭امتحان کے ذیل میں پہلے کبھی جو ایک زبانی امتحان کی روایت رہی ہے، چند یونیورسٹیوں میں اب تک یہ روایت باقی ہے جو قابل مذمت ہے۔افسوس کراچی یونیورسٹی میں اب تک یہ روایت باقی ہے اور یہ محض ایک چائے کی میز پرنگران،اوربیرونی ممتحن کے درمیان خوش گوار ملاقات سے زیادہ نہیں ہوتی اور کاغذی خانہ پُری ہوجاتی ہے۔ڈین تک گاہے اس میں شریک ہونے سے گریزاں رہتے ہیں۔اس روایت کو فوری ختم ہونا چاہیے اور محدود زبانی امتحان کے بجائے کھلے دفاعی سیمینار کو لازم قراردیاجانا چاہیے تاکہ محقق ہی نہیں نگران کا بھی یہ امتحان ثابت ہو۔ کراچی یونیورسٹی میں یہ روایت اس لیے جاری نہ ہوسکی کہ نگران اور محقق دونوں اپنے کام کے معیار پر اعتماد کے قابل نہیں رہتے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کام معیاری نہیں ہوتے۔
٭ایچ ای سی نے جامعات میں تحقیقی معیار کی بہتری کے لیے خود اپنے عائد کردہ فیصلوں کے نفاذ اور ان پر عمل درآمدکو یقینی بنانے اور ان کی تعمیل یا عدم تعمیل کو جانچنے کا کبھی کوئی مستحکم نظام نہیں بنایا جس کی وجہ سے نہ تحقیقی مجلے معیاری شائع ہورہے ہیں، بلکہ جو بھی مجلہ اس کی منظوری کے لیے اس کے پاس جاتاہے، چاہے اس کا کوئی معیار ہی نہ ہواور وہ عام سے ماہنامہ رسالوں کی سطح کے ہوں، انھیں بھی مختلف وجوہ سے منظوری دے دیتی ہے، اس لیے عام سے سطحی مضامین تحقیقی مقالات کے طور پر شمار میں آجاتے ہیں۔اس لیے ایچ ای سی کو چاہیے کہ مقالات کی اشاعت کی منظوری کے لیے جو ماہرین کی آرا ٔ مدیر کے پاس آتی ہیں انھیں نہ صرف اہتمام سے اپنی تحویل میں لے بل کہ اس ضمن میں اسے یہ بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ جن افراد سے یہ آرا ٔ حاصل کی جاتی ہیں ان افراد کی اہلیت خود ایچ ای سی متعین کرے تاکہ محض دوست احباب سے اپنی مرضی کی رائے لے کرمجلوں کے مدیرآج کل کی طرح اپنی من مانی نہ کرسکیں۔
٭ پھر ایچ ای سی نہ مقالات یا جامعات میں ہونے والی تحقیقات کے Impact Factor کا گوشوارہ مرتب کرتی ہے نہ ان کی Indexing کا کوئی باقاعدہ اہتمام اس سے ممکن ہوسکا ہے۔ یوں ایچ ای سی ہر طرح سے اپنے مقاصد میں بڑی حد تک ناکام ثابت ہورہی ہے۔اس لیے متعلقہ وزارت کو یہ چاہیے کہ کسی بین الاقوامی ادارے سے ایچ ای سی کی کارکردگی اور اس کی کامیابیوں و ناکامیوں کا محاسبہ کروائے تاکہ ایچ ای سی راہ راست پر آئے اور اپنے فیصلوں پر سنجیدگی و مستعدی سے عمل درآمد کرائے اور اس طرح ہماری جامعات میں تعلیم و تحقیق دونوں کا معیار بلند ہوسکے اور جامعاتی نظام میں بہتری آسکے۔

حصہ