میرا دل میری جان

279

’’صاحب جی اتنابڑا آرڈر آیا ہے اس مہینے…ہماراہوٹل تو اس علاقے کا سب سے بڑا اور مشہور ہوٹل بن چکا ہے۔ہر طرف ہمارے ہوٹل کا چرچا ہے۔‘‘ حامد باورچی نے صادق بھائی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں یہ سب میری محنت کا نتیجہ ہے۔‘‘ صادق نے فخریہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں کیوں نہیں صاحب جی! مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم نے کیسے ایک ڈھابے سے یہ دکان کھولی تھی اب یہ پورا ہوٹل بن چکا ہے اس میں آپ کی محنت شامل ہے ہمارے ہوٹل جیسا کھانا پورے علاقے میں نہیں ہے۔‘‘ حامد نے مسکراتے ہوئے کہا تو صادق بھائی کی بانچھیں خوشی سے کھل گئی۔
’’صاحب جی چند افراد آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ بخشو باورچی نے آفس کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’کو ن ہے؟‘‘
’’پتا نہیں محلے کے لگتے ہیں‘ کہہ رہے ہیںادھر ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا چلو دیکھتے ہیں۔‘‘ صادق نے اپنی اے سی والے آفس سے نکلتے ہوئے کہا۔
’’جی فرمایئے میں ہوں اس ہوٹل کا مالک‘ آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’السلام علیکم صادق صاحب! اصل میں بات یہ ہے کہ جب سے آپ کا ہوٹل قائم ہوا ہے تب سے ہمارے سوریج سسٹم خراب ہو گیا ہے‘ آپ کے ہوٹل کے سامنے مین گٹر ہے جو تمام علاقوں کے گٹر سے ملتا ہے آپ خود ہی کھانا پکواتے ہیں اس کیچکنائی کی وجہ سے گٹر بند ہو رہے ہیں آپ کو کئی دفعہ کہا کہ آپ اس کی صفائی کا انتظام کیا کریںلیکن آپ نے ہماری بات کو نظر انداز کر دیا۔ ہم جب سے یہاں رہ رہے ہیں کبھی کوئی گٹر صاف کروا رہا ہے کبھی کوئی لیکن جب تک اس گٹر کے صفائی کا انتظام نہیں ہوگا تب تک ہماری صفائی کروانے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
صادق صاحب گھبرا گئے‘ اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ’’اصل میں میرے پاس وقت نہیں ہے ان چیزوں کے لیے اور مجھے یاد نہیں رہتا کہ کب کس نے کوئی بات کی۔ لہٰذا آپ خود اس معاملے کو دیکھ لیں جو اخراجات ہوں گے میں دے دوں گا۔‘‘صادق صاحب نے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
’’صادق صاحب! یہ آپ اتنے عرصے سے کہہ رہے ہیں جب بھی ہم نے صفائی کروائی آپ سے پیسے کا مطالبہ کیا آپ نے انکار کر د یا۔‘‘ ایک صاحب نے آگے بڑھ کر کہا۔
’’بھائی آپ اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہو؟ بتائیں کتنے پیسے بنے ؟ میں اپھی دے دیتا ہوں۔‘‘
’’صادق صاحب! بات پیسوں کی نہیں۔ ایمان داری کی ہے۔ آپ کا کاروبار خوب ترقی کر رہا ہے‘ آپ کو سیوریج سسٹم کے لیے پیسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ آپ کی وجہ سے پورے محلے کے گٹر متاثر ہو رہے ہیں‘ بچے بدبواورگندگی سے بیمار پڑ رہے ہیں‘ پانی کی لائنوں میں گٹر کا پانی شامل ہو رہا ہے آپ کو اپنے پڑوسیوں کا خیال نہیں۔‘‘ ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر ان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔
’’اچھا ٹھیک ہے مجھے بتادیں میں دے دوں گا۔‘‘ صادق صاحب نے گھبراتے ہوئے کہا۔
’’آپ کے پورے سال کے گٹر اور سیوریج کی صفائی کے پیسے تقریباً دس ہزار روپے بنتے ہیں۔‘‘ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا۔
’’کیا دس ہزار… اتنے پیسے کیوں بن گئے؟‘‘صادق صاحب نے حیرانی سے کہا۔
’’یہ تو ہم نے کم بتایا ہے کیوں کہ ہم نے اپنے بھی شامل کیے ہیں۔‘‘ اسی نوجوان نے جواب دیا۔
’’دس ہزار آپ کے لیے کوئی رقم نہیں ہونی چاہیے آپ کا ہوٹل تو لاکھوں کما رہا ہے۔ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے آپ اتنے پیسے نہیں خرچ کرسکتے؟‘‘ ایک آدمی نے غصے سے کہا۔
’’بھائی! اتنے پیسے تو گٹر کی صفائی کے لیے نہیں ہوتے۔‘‘ صادق صاحب نے دوبدو جواب دیا۔
’’تو آپ خود کروا لیا کریں ہم آپ کے پاس جمعدارکو بھیج دیں گے‘ آپ خود نمٹ لینا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا۔
’’نہیں بھائی میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میں پیسے دے دیتا ہوں لیکن اگلی دفعہ اتنے پیسے نہیں دوں گا۔‘‘ صادق نے غصے سے کہا۔
’’کیوں نہیں دیں گے؟آپ کے ہوٹل کی چکنائی ہمارے سیوریج سسٹم کو خراب کر رہی ہے۔ اگر آپ نے تعاون نہیں کیا تو آپ کا یہہوٹل ہمبند کروا دیں گے۔‘‘ ایک آدمی غصے سے جواب دیا۔
’’اچھا ٹھیک ہے یہ لیں دسہزار…‘‘ رکھائی سے دیتے ہوئے کہا۔
’’اگر آپ اپنے ہوٹل کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی ترقی کی طرف بھی دھیان دیتے تو یہ دس ہزار روپے دینے میں کبھی تامل نہیں کرتے۔‘‘ ایک بزرگ نے کہا اور وہ سب چل دیے۔
صادق صاحب شرمندہ ہوگئے اور یہ سوچنے لگے کہ میں نے اپنے کاروبار کے لیے تو اتنا کچھ کیااس ملک کے لیے کیا کیا ہے؟

حصہ