شہباز گل کی گرفتاری ویسے ہی سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی تھی، اس میں جمیل فاروقی کی گرفتاری نے مزید جگہ لے لی۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی حلقہ 245 میں تحریک انصاف کی کامیابی کا جشن بھی سوشل میڈیا پر جاری رہا۔ اس ضمنی انتخاب کی اہم بات یہ تھی کہ کسی بھی جماعت کے امیدوار نے کسی قسم کی دھاندلی کا شور نہیں مچایا۔ کراچی اور پنجاب کے تمام ضمنی انتخابات میں نمایاں بات یہی نظر آئی کہ کوئی بڑی دھاندلی، ٹھپے بازی، بیلٹ بکس لے کر فرار ہونا، پولنگ اسٹیشن قبضہ طرز کے واقعات نہیں ہوئے۔ عمران خان بلا شبہ مقبولیت کی سیڑھیاں پھلانگتے جا رہے ہیں۔ عمران کے چاہنے والوں کو عمران کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں۔ عمران خان کا سلمان رشدی ملعون کے متعلق بیان ذرا سا ڈسکس ہوا، اس کے چاہنے والوں نے صاف طور پر ٹرینڈ بنا دیا کہ ’’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے۔‘‘ اب یہ بہرحال اتنی خطرناک بات ہے کہ میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا، جو کچھ اس ٹرینڈ کے ذیل میں ہوا وہ ناقابل بیان ہے بالکل ایسے ہی جیسے عمران نے زبردستی ملعون کے حملے پر بات کر کے کیا۔ تکلیف یہ ہوئی کہ جمعیت علمائے اسلام مطلب مولانا فضل الرحمن اس معاملے میں کود پڑے، بھئی اگر آپ حملے کی حمایت جو ایمانی تقاضا تھا، اُس پورے وقت میں بالکل خاموش رہے تو اب عمران کی مخالفت میں ناموس رسالت کا سہارا لینا خود انتہائی گستاخانہ عمل کہلائے گا۔ ریڈ لائن سے تشبیہ دے کر عمران خان کے چاہنے والوں نے جو نادانی کی ہے بہرحال اس کے اثراتِ بد ضرور سامنے آئیں گے۔
سوشل میڈیا پر اس ہفتہ ’’جینڈر ریویل‘‘ پارٹی سے متعلق موضوع بھی گردش میں رہا۔ یہ موضوع اہم اور قدرے طوالت چاہتا ہے کیوں کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 23 کروڑ کی آباد ی میں جنس کی بنیاد پر 10ہزار افراد کے لیے پاکستان میں خصوصی قانون سازی کیوں اور کس کے ایما پر کی گئی ہے؟ اس کے بعد اس کو زبان زد عام کرانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیسا ہو رہا ہے؟ تعلیمی ادارے کیسے اس شرم ناک شیطانی فعل کی آماج گاہ بن رہے ہیں؟ اس پر اگلے ہفتے جامع تحریر کی کوشش ضرور کریں گے۔
سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاری نے بھی سوشل میڈیا پر خاصی توجہ پالی۔ ایسی ایسی دل خراش وڈیو ز شیئر ہو رہی ہیں کہ جس کا درد ناقابل بیان ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی امداد کی اپیلیں اور امدادی کام کی تفصیلات جاری رہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق مستقل متاثرہ علاقوں کے دورے پر نظر آئے۔ سندھ میں دوسرے مرحلے کا بلدیاتی انتخاب جو 24 جولائی کو بارش کی وجہ سے ملتوی ہو کر28 اگست کو ہونا تھا، وہ سیلاب کی تباہ کاری اور مبینہ بارش کی وجہ سے دوبارہ ملتوی ہوگیا۔ کراچی کے انفرا اسٹرکچرکی تباہی اپنی جگہ عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی تھی، عوام پُرامید تھے کہ الیکشن کے بعد منتخب نمائندے داد رسی کریں گے‘ مگر اُن کی یہ خواہش اب ایک بار پھر انتظار میں بدل گئی۔
لاہور کی ایک چھوٹی سی مسجد کے منبر سے بلند ہونے والامسلمانوں کی 1200 سالہ دینی روایت سے جڑا نعرہ ،گستاخ نبی کی ایک ہی سزا۔ سر تن سے جدا ، سر تن سے جدا فلک شگاف ہونے کے ساتھ ، اب دنیا بھر میں خوف کی صورت گستاخ غیر مسلموں کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔بھارت میںایک بار پھر بی جے پی کے رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخانہ گفتگو کرکے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کیے ہیں۔ ایسا کر کے جہاں مستقل ہندوتوا نظریے کو تقویت پہنچایا جا رہا ہے تو دوسری جانب گستاخ نبی کی سزا کا نعرہ مسلمانوں کی ایمانی کیفیت کو مستقل بڑھا رہا ہے۔ نوپور شرما کی جانب سے کی گئی گستاخی کے بعد اس کو سزا نہ دینا آج بھی مسلمانوں میں شدید اشتعال کا سبب ہے۔ باوجود اس کے کہ اودے پور میں نوپور کی حمایت کرنے والے ایک ہندو درزی کے قتل کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے نوپور شرما کو ہی ذمے دار ٹھہرایا۔ تاہم سوشل میڈیا پر مستقل نوپور کے دفاع کے لیے ہندوتوا فکر کی عکاس نفرت انگیز مہم جاری ہے۔
نوپور کی باری میں جو ایشو وجہ بنا وہ بنارس کی400 سالہ قدیم ’’گیانواپی مسجد‘‘ کا ایک ’’فوارہ‘‘ تھا، جسے نوپور اپنا خدابتا رہی تھی، مسلمان اس کو ’’فوراہ‘‘ پکار رہے تھے۔ اب ملعون راجا سنگھ کی بار ی میں یہ ہوا کہ بھارتی ریاست تلنگانہ کے اہم مسلم مرکزی شہر حیدرآباد میں (جہاں تقریباً 49 فیصد مسلمان آباد ہیں) ایک کامیڈی شو رکھا گیا۔ اس میں ایک 30 سالہ کامیڈین منور فاروقی کو بلایا گیا تھا۔ ملعون راجہ نے اپنے گستاخ عمل کے پیچھے منور فاروقی (جو ایک ’’اسٹینڈ اپ کامیڈین ہے) کے اس پروگرام کو جواز بنایا۔ منور نے 2020 میں ایک شو کے دوران بھارتی فلمی گانے میں استعمال شدہ الفاظ دہرائے، جن میں ہندو مذہب کے بھگوانوں کے نام پہلے سے موجود تھے۔ اُس شو کے منعقد ہونے کے تین ماہ بعد ہندو انتہا پسندوں کو یہ لگا کہ 3 ماہ قبل منور فاروقی نے تو ہمارے بھگوانوںکا مذاق اڑایا ہے۔ اب چوں کہ نام سے ظاہر ہے کہ منور فاروقی مسلمان ہے، پھراس کا آبائی تعلق گجرات سے بھی ہے جو مسلم نسل کشی کا بڑا مرکز رہا ہے، اس لیے ہندو انتہاپسندوں نے اُس کے جملوں کو اپنے بھگوانوںکی تضحیک سمجھ لیا۔ بس پھر کیا تھا، اب منور کے بارے میں ہندو انتہا پسند مستقل شو سے قبل ہی یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے مزاح میں بھگوانوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ مدہیہ پردیش میں بی جے پی کے مقامی رہنما نے اندور شہر میں اس کے پروگرام ہونے سے قبل ہی پروگرام خراب کرا دیے۔ یہاں تک کہ مبینہ گفتگو کے نام پر گرفتار بھی کرا دیا، گوکہ اس میں کورونا کی حفاظتی تدابیر کو بھی موضوع بنایا اور انتظامیہ کے مزید 3 افراد بھی گرفتار کیے۔ یوں منور نے جیل بھی کاٹی اس الزام پر کہ وہ شو کرے گا تو لازمی بھگواں کی تضحیک کرے گا اس لیے پہلے ہی اس کو یکم جنوری 2021 کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک ماہ بعد سپریم کورٹ سے بڑی مشکل سے اس کی ضمانت ہوئی۔ منور نے جو کچھ کہا تھا اس پر کئی بار معافی مانگی، جیل بھی کاٹی مگر ہندو انتہا پسند اسے کسی طور معاف نہیں کر رہے۔ اب ایک سال بعد حیدر آباد میں اس کے پروگرام کا اعلان ہوا تو یہاں کا بی جے پی رکن اسمبلی راجا سنگھ میدان میں آگیا۔ ملعون راجا سنگھ پر پہلے ہی مختلف سنگین جرائم پر مبنی کوئی 50 ایف آئی آر درج ہیں۔ انتہا پسند ہندو نظریات، ہندو راج، ہندوتوا، گئو رکشھا، کے پرچار میں وہ آگے آگے رہا ہے۔ اس حد تک ملعون راجا سنگھ مسلمانوں کے خلاف بیان دیتا رہا ہے کہ اس کے فیس بک اکائونٹ کو بھی دسمبر 2020 میں بلاک کر دیا گیا تھا۔ اب وہ اس ایشو کو لے کر بھرپور مہم پر اتر آیا، شو کو کینسل کرانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ریاست نے منور کو تحفظ دیا، اہم بات یہ ہے کہ منور نے شو میں کسی قسم کا کوئی مذہبی موضوع نہیں بنایا، ظاہر ہے وہ پہلے سے ہی الرٹ تھا۔ راجا سنگھ ملعون نے شو ہونے کے بعد اپنے احتجاج کو رنگ دینے کے لیے نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کر ڈالی۔ اب اس حرکت پر مسلمانوں نے زبردست احتجاج شروع کر دیا۔ مظاہروں کے بعد ملعون رکن اسمبلی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ اگلے دن عدالت نے اسے ضمانت پر رہا کر دیا مگر بی جے پی نے اْسے اسمبلی رکنیت سے معطل کر دیا۔ نبی کریمؐ کے بارے میں راجا سنگھ کے احتجاجی مظاہرے میں خطاب والی گستاخانہ وڈیو کو بھی ہٹایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ بار بار شیئر کرکے مشتعل کر رہا ہے۔ بھارتی مسلم لیڈرز شدید غم و غصے کا اظہار سخت احتجاج کی صورت مستقل کر رہے ہیں ساتھ ہی عدالت میں ضمانت کے خلاف بھی جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
حیدر آباد میں جب ’’گستاخ نبی کی ایک ہی سزا‘‘ کے نعرے بلند ہوئے تو مبینہ پُر تشدد واقعات کے خوف سے بھارتی میڈیا کو شدید تکلیف شروع ہوگئی۔ خوشی یہ ہوئی کہ کچھ بھارتی شوز میں مسلمانوں سے صاف طور پر اس نعرے کا دفاع کیا کہ یہ ہمارے دین کا حکم ہے۔ صاف طور پر غیر جانبدار رہنے کے بجائے بھارتی میڈیا نعرے لگانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا نظر آیا۔ دوسری جانب ریاست کرناٹکہ جہاں 80 لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں، وہاں ایک متعصب ہندو قوم پرست ’’سوارکر‘‘ کی یاد میں بی جے پی نے مہم شروع کر رکھی ہے۔ رد عمل میں کانگریس اور مسلم رہنمائوں کے مؤقف کو قبل اَز وقت دبانے کے لیے بھارتی فوج کے سربراہ پرمود نے ’’سوارکر‘‘ کے پوسٹرپھاڑنے پر ’’ہاتھ کاٹنے‘‘ کی سر عام دھمکی دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک جانب تشدد کے نام پر’’سر تن سے جدا‘‘ اگر تکلیف دے رہا ہے تو ’’ہاتھ کاٹنا‘‘ کیسے کوئی امن پسند کام ہو سکتا ہے۔ بہرحال بی جے پی کی جانب سے نفرت کی مستقل لہر اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے اداکار عامر خان کی تازہ فلم کو بھی اس وجہ سے فلاپ کرا ڈالا کہ عامر خان نے 8 سال قبل ایسی فلم میں کام کیا جس میں ہندو مذہب کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ متنازع فلم انڈین باکس آفس پر آل ٹائم بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ مگر آٹھ سال بعد مذہب کے نام پر نفرت کی گندی سیاست کی جا رہی ہے۔ اس کا انجام بہرحال مسلمانوں کے حق میں ہی جائے گا کیوں کہ مسلمان عمل میں کمزور سہی مگر اتنی مضبوط ایمانی بنیادیں جو ورلڈ ویو رکھتا ہے اس کو کبھی بھی ٹریگر کرسکتا ہے۔
اسی ہفتے انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف بھی توہین صحابہ کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج ہوگئی۔ایف آئی آر کی وجہ سے مرزا کے چاہنے والوں نے ان کے حق میں سوشل میڈیا پر زور دار مہم چلائی اور سمجھایا کہ انجینئر محمد علی مرزا ناموس صحابہ رضی اللہ عنہ کے دعویدار ہیں، ان کی بات کے ہمیشہ کی طرح غلط معنی نکالے جا رہے ہیں۔ خالص متن پر اصرار کرنے والے علی مرزا نامعلوم کیوں تفاسیر، علم حدیث کے ذخیرے ، اصول ، قواعد سب کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ مسائل بڑھتے ہیں اور وہ اس کو اپنی خوش نصیبی قرار دیتے ہیں۔ جہلم سے تعلق رکھنے والے متنازع مبلغ انجینئر مرزا نے سوشل میڈیا کی بدولت بے پناہ عالمی پذیرائی پائی ہے۔ اپنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ وہ اچھے مقرربھی ہیں، چوں کہ ان کا ہدف وہ بزرگ شخصیات ہیں جن سے لوگ دین سیکھتے اور سمجھتے آرہے ہیں اس لیے مخالفت فطری ہے۔ یہ کام کرنے سے بہرحال دین کی 1400 سالہ روایت کو سوالیہ نشان بنا کر انجینئر مرزا ، خود سے کتاب پڑھ کردین سیکھنے کی جو لائن عوام کو کراتے ہیں ، اس کے نتیجے میں وہ خود ایک ’‘بابا‘‘ کے طورپر سامنے آچکے ہیں۔ ان کی فالوونگ، شاگرد، ان کے رویے سب یہی بتا رہے ہیں کہ ’’بابوں‘‘ کے خلاف ذہن سازی کرنے والا ا ب خود ایک ’’بابا‘‘ بن چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ استعمار نے جدید اسلام کے نفاذ کے لیے جو پروجیکٹس لانچ کیے اس کے نتیجے میں کئی خودرو پودے بھی نکل آئے جو کام بہرحال استعماری ایجنڈے کے فروغ کا ہی کرتے ہیں۔ ایک جانب وہ مسلمان بچوں کو سیکولر اور ملحد ہونے سے بچانے کے لیے بڑا سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، گستاخان کو فساد فی الارض کے زمرے میں واجب القتل قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب یہ قتل وہ عدالتی طرز پر چاہتے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ عمران خان کی ’’مذمت‘‘ کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ اس پورے عمل میں وہ یہ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ اگر کوئی ایمانی جذبے سے کسی کو قتل کردے تو کیا وہ گرفتار ہوگا؟ ہوگا تو اس پر کیا مقدمہ چلے گا؟ اور کیونکر اس کی مذمت نہیں کی جاسکتی؟ ان سوالات کے جواب سے کنی کترا نا علی مرزا کے بڑے تضادات میں سے ہے جس کی وجہ سے علی مرزا کو استعماری ایجنڈے پر کاربند کہنا غلط نہیں ہوگا۔ کیا اسلام اس انتظار میں تھا کہ مغرب کا غلبہ ہوتا اور ہمیں دین سمجھ آتا ؟ 1300 سال تک جو دین کا فہم سمجھا گیا وہ کیسے نامکمل تھا؟ اس کے لیے یہ بات سمجھیں کہ اگر کوئی جنگل کا شیر اردو یا انگریزی بولنا سیکھ بھی لے تو بھی آپ اس کی زبان نہیں سمجھ سکیں گے۔ کیوں کہ وہ اپنے ورلڈ ویو کے مطابق بات کرے گا جو آپ کے لیے نابلد ہوگا، اس لیے آپ کا ترجمہ بھی غلط ہی ہوگا۔ کسی زبان کے متن کو سمجھنے کا ایک طریقہ یوں بھی سمجھیں کہ لفظ ’کتے‘ کا مسلمہ معاشرتی معانی وفاداری ہے، مگر آپ اپنے دوست کو ’’کتا‘‘ نہیں کہتے۔ اسی طرح گدھا ہمیشہ محنتی جانورکے معانی رکھتا ہے مگر اس کے معاشرتی معنی بے وقوف کے ہیں، اورکسی محنتی شخص کو گدھا نہیں کہا جاتا۔ ہماری تاریخ میں استعماری الفاظ نظام کی صورت آئے ہیں اور نظام میں جگہ بنانی شروع کی تو لوگوں نے اپنے تئیں اپنے تاریخی علمی تناظر سے کٹ کر الفاظ کی اسلامائزیشن شروع کی اور اس کے نتیجے میں ایلینیشن ضم ہوگئی۔ اس کی ایک اور مثال سمجھیں کہ ’’دریا کے کنارے بکری کا بچہ مرجائے‘‘ والی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت کے اس جملے کو پکڑ کر جانوروں کے حقوق پر قصیدے پڑھ دیے گئے، جب کہ حقیقت میں وہ اوّل تا آخر خوفِ خدا ، جواب دہی، فکرِ آخرت موضوع تھا۔ یہ جان لیں کہ یورپی استعمار نے ہماری ساری معاشرتی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں۔ افریقہ۔ وسط ایشیائی۔ جنوب مشرقی۔ جنوبی ایشیا۔ سب کو لپیٹ دیا تھا۔1857 کے بعد مسلم شعور اتنا بگڑا کہ سب اس جہد میں لگ گئے کہ تحصیل مغرب کیسے ہو؟ کسی نے بھی تفہیم مغرب کی جانب توجہ نہیں کی۔ استعمار کو توحید اور شرک کا کوئی ایشو کبھی نہیں تھا، اس کو صرف غیر مشروط اطاعت چاہیے تھی۔ اس کے دو ہی مقاصد تھے کہ کیسے ہم محکوم کے لیے قابل قبول بن جائیں؟ اور کیسے مزاحمت کا احساس ختم کیا جائے؟ اس کام کے لیے انہوں نے مسلمانوں کی علمیت میں جدیدیت کی خوب دراڑیں ڈالیں۔ اب افسوس ناک حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنا شاندار غلبہ دو سو سال قبل کا زبردست ماضی یاد دلانے کے لیے ارتغرل، عثمان، نظام عالم و دیگر ڈرامے بنانے پڑ رہے ہیں۔