اناطولیہ کے وسیع میدان کو روندنے کے بعد ایک دن خسرو پرویز آبنائے باسفورس کے کنارے اپنے عالیشان خیمے سے باہر سین اور دوسرے جرنیلوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اُس کے دائیں بائیں اور پیچھے حد نگاہ تک ایرانی لشکر کے خیمے نصب تھے۔ اور سامنے دوسرے کنارے پر قسطنطنیہ کا عظیم شہر دکھائی دیتا تھا۔ کہکلاہ ایران کی مغرور اور بے رحم نگاہیں قیصر کے آخری حصار کی طرف مرکوز تھیں اور اُس کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ تنہا باسفورس کے پانی کی سطح پر دوڑتا ہوا قسطنطنیہ کے قلعے پر حملہ کردیتا تو بھی اُس کے ساتھیوں کو تعجب نہ ہوتا۔ مسلسل کامیابیوں کے باعث ابنائے آدم کے حصے کا سارا غرور اُس کے وجود میں جمع ہوچکا تھا۔ اچانک اُس نے مڑکر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اگر گہرے پانی کی یہ کھائی ہمارے راستے میں حائل نہ ہوتی تو آج ہم قیصر کے محل میں آرام کرتے۔ اب ہم واپس جا کر قسطنطنیہ کی فتح کا انتظار کریں گے۔ اور یہ بات یاد رکھو کہ ہمیں زیادہ عرصہ انتظار کرنے کی عادت نہیں۔ جہاں درخت موجود ہوں وہاں کشتیاں تیار کرنے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ دشمن کو سنبھلنے کا موقع دینا نہیں چاہتے۔ سین! تم قسطنطنیہ دیکھ چکے ہو اور ہم قیصر کے محل کی طرف بھیجے جانے سے لشکر کی راہنمائی تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ہم تمہاری طرف سے اس کے سوا کوئی اور خبر سننا پسند نہیں کریں گے کہ قسطنطنیہ فتح ہوچکا ہے اور تم ہر قل کو پابہ زنجیر لا رہے ہو‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! آپ کے اِس ناچیز غلام سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی۔ لیکن…‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘ پرویز نے برہم ہو کر پوچھا۔
’’عالیجاہ! میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ قسطنطنیہ کا محلِ وقوع اور اِس کے دفاعی استحکامات اُن تمام شہروں سے مختلف ہیں جنہیں ہم اس سے قبل فتح کرچکے ہیں۔ ہمیں اِس شہر پر حملہ کرنے کے لیے ایک نہایت مضبوط بیڑے کی ضرورت ہے‘‘۔
شہنشاہ کو غضب ناک دیکھ کر دوسرے جرنیل نے کہا۔ ’’عالیجاہ! ہماری طرف سے کوتاہی نہیں ہوگی۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم اس کھائی کو اپنی لاشوں سے پاٹ دیں گے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! یہ ممکن ہے کہ آبنائے باسفورس کو لاشوں سے پاٹا جاسکے لیکن قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے ہمیں زندہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے لیے مکمل تیاری کے بغیر قسطنطنیہ پر حملہ کرنا ٹھیک نہ ہوگا‘‘۔
دوسرے جرنیل دم بخود ہو کر کبھی سین اور کبھی خسرو کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اگر کوئی دوسرا اس قسم کی جرأت کا مظاہرہ کرتا تو پرویز اُس کی زبان کھنچوا دینے کے لیے تیار ہوجاتا۔ لیکن سین کی جرأت، ہمت اور وفاداری شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ ایران کا مغرور حکمران جس قدر اُس کی بیباکی پر برہم تھا اُسی قدر اُس کے تدبر اور دُور اندیشی کا معترف تھا۔ چنانچہ اُس نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی فتوحات کے باوجود تمہارے دل سے رومیوں کی ہیبت دُور نہیں کرسکے‘‘۔
سین نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔ ’’میرے آقا! اگر صرف میری جرأت اور وفاداری کا امتحان لینا مقصود ہو تو میں تنہا باسفورس عبور کرکے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن اگر آپ نے مجھے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے منتخب کیا ہے تو میری فرض شناسی کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ میں بلا ضرورت آپ کے ایک سپاہی کی جان بھی ضائع نہ ہونے دوں۔ میری احتیاط کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے قسطنطنیہ کے دفاعی استحکامات دیکھے ہیں۔ ایک کامیاب حملے کے لیے ہمیں ایک مضبوط جنگی بیڑے کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ کمی پوری کرنے میں ہم کو زیادہ عرصہ نہیں لگے گا‘‘۔
پرویز نے قدرے نرم ہو کر کہا۔ ’’اب بیڑے کے متعلق سوچنا تمہارا کام ہے۔ ہم واپس جارہے ہیں اور تم سب کو یہ بات کان کھول کر سن لینی چاہیے کہ مابدولت قسطنطنیہ کی فتح کے سوا کوئی اور خبر سننا پسند نہیں کریں گے۔ ہم تمہاری طرف سے صرف اُس ایلچی کو دیکھنا پسند کریں گے جو ہر قل کو پابہ زنجیر اپنے ساتھ لائے گا‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عالیجاہ! آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی‘‘۔
خسرو کچھ اور کہے بغیر اپنے خیمے کی طرف چل پڑا۔
تھوڑی دیر بعد جب سین نے اپنے خیمے کا رُخ کررہا تھا۔ فوج کے ایک عمر رسیدہ سالار نے اُسے پیچھے سے آواز دے کر روکا اور قریب آکر کہا۔ ’’آج آپ میری توقع سے زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن آپ کو بار بار شیر کے منہ میں ہاتھ دینے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ اب آپ شہنشاہ کی مصیبت کے ساتھی نہیں ہیں، بلکہ ایک عظیم فاتح کے سپاہی ہیں۔ اب انہیں صحیح رائے دینے والوں کی بجائے اُن کے غلط احکام کی تعمیل کرنے والے زیادہ محفوظ ہیں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے آج صرف ایک وفادار سپاہی کا فرض ادا کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قسطنطنیہ پر فوری حملہ ہمارے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا‘‘۔
’’یہ ہم سب جانتے تھے۔ اور مجھے یقین ہے کہ شہنشاہ کو بھی یہ معلوم ہے۔ لیکن میں آپ کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ دوسروں کی موجودگی میں شہنشاہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے آپ کو بہت محتاط رہنا چاہیے‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ شہنشاہ کو میرے متعلق کوئی غلط فہمی ہوسکتی ہے۔ بہرحال میں آپ کا شکر گزار ہوں اور آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ کرتا ہوں‘‘۔
O
قسطنطنیہ پر درفش کا ویانی لہرانے کے لیے ایرانی لشکر کی متعدد کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ بازنطینی، دارالحکومت جس کی تعمیر میں گزشتہ چار صدی سے ایک عظیم سلطنت کے لامحدود وسائل صرف کیے گئے تھے اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بھی روئے زمین کا انتہائی ناقابل تسخیر قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ اِس کا مشرق باسفورس، شمال ایک خلیج اور جنوب بحیرئہ مارمورا کے باعث محفوظ تھا۔ تین اطراف سے پانی میں گھرے ہوئے اس شہر کو ایک مضبوط فصیل کے علاوہ رومیوں کی بحری قوت نے اور زیادہ ناقابل تسخیر بنادیا تھا۔ ایشیا میں اپنی وسیع سلطنت سے محروم ہونے کے بعد مغرب کے اس دروازے کی حفاظت رومیوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ بن چکا تھا۔ چنانچہ اُن کا تمام جنگی بیڑا یہاں جمع ہوگیا تھا۔
مغربی سمت دوہری فصیل اور قریباً سوفٹ گہری خندق کی بدولت باقی تین اطراف کی نسبت کم محفوظ تھی۔ تمام فصیلوں کے اوپر جگہ جگہ بھاری منجنیق نصب تھے، جن کی گولہ باری کے سامنے پانی یا خشکی کی طرف سے کسی بڑے سے بڑے لشکر کا شہر پر یلغار کرنا ناممکن تھا۔ ایران کی گزشتہ فتوحات کا راز اُس کی بری افواج کی برتری میں تھا لیکن اس محاذ پر دشمن کو مغلوب کرنے کے لیے پیادہ اور سوار دستوں سے زیادہ جہازوں اور کشتیوں کی ضرورت تھی۔ سین جسے خسرو نے قسطنطنیہ فتح کرنے اور ہر قل کو پابہ زنجیر پیش کرنے کی مہم سونپی تھی اس شہر کے دفاعی استحکامات سے ناواقف نہ تھا۔ اُس نے دشمن کی بحری قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے مفتوحہ علاقوں کے ہزاروں کاریگر جہاز بنانے پر لگادیے تھے اور اُسے یقین تھا کہ مکمل تیاریوں کے بعد جب وہ بحیرئہ مارمورا، آبنائے باسفورس اور بحیرئہ اسود میں دشمن کے جنگی بیڑوں کو شکست دینے کے قابل ہوجائے گا تو قسطنطنیہ اُس کے رحم و کرم پر ہوگا۔ سمندر کے راستے رسد و کمک سے محروم ہونے کے بعد رومی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لیکن خسرو کے لیے معمولی تاخیر بھی ناقابل برداشت تھی۔ اُسے مطمئن کرنے کے لیے سین نے اپنی خواہش کے صرف چند حملے کیے لیکن ایرانی لشکرکو ہر بار شدید نقصانات اُٹھا کر پیچھے ہٹنا پڑا۔
سین کی بیوی اور بیٹی لشکر کے پڑائو سے کوئی آٹھ میل مشرق کی طرف ایک چھوٹے سے شہر کے باہر ایک قلعہ نما مکان میں مقیم تھیں اور سین فرصت کے دن اُن کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔
موسم بہار کی ایک صبح فسطینہ اور اُس کی ماں ایک کشادہ کمرے کے دریچے کے سامنے بیٹھی تھیں۔ باہر ایک ٹیلے کے دامن میں سیب اور ناشپاتی کے درخت پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ فسطینہ کے حسن میں شباب کی رعنائیوں کا اضافہ ہوچکا تھا اور اُس کی نگاہوں میں شوخی کے بجائے متانت آگئی تھی۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی تمہارے ابا جان نے پیغام بھیجا تھا کہ میں تین چار دن بہت مصروف ہوں، لیکن اب پورا ہفتہ گزر چکا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ آج ضرور آئیں گے‘‘۔
فسطینہ نے کوئی جواب نہ دیا وہ بظاہر دریچے سے باہر سیب کے درختوں کی طرف دیکھ رہی تھی لیکن اُس کے چہرے کی اداسی سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنی حدنگاہ سے کہیں آگے کسی کھوئی ہوئی چیز کو تلاش کررہی ہے۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’فسطینہ بیٹی، کیا سوچ رہی ہو؟‘‘۔
وہ چونک کر ماں کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’آپ نے کیا کہا تھا؟ امی جان!‘‘۔
’’میں کہہ رہی تھی کہ تہارے ابا جان کیوں نہیں آئے؟‘‘۔
’’میرا خیال ہے کہ وہ آج ضرور آئیں گے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی سچ بتائو ایرج کو اُس دن تم نے کیا کہا تھا اُس نے ایک مہینے سے ہمیں صورت نہیں دکھائی‘‘۔
فسطینہ نے قدرے آزردہ ہو کر کہا۔ ’’امی جان! آپ اُس کے متعلق کیوں پریشان ہیں۔ اُسے جس وقت موقع ملے گا وہ سیدھا اس طرف بھاگا ہوا آئے گا، آخر ہمارا گھر قسطنطنیہ کا قلعہ تو نہیں جس کے دروازے اُس کے لیے بند ہیں‘‘۔
ماں نے کہا۔ ’’کاش! میں تمہاری نفرت کی وجہ سمجھ سکتی‘‘۔
’’مجھے اُس سے نفرت نہیں، امی! لیکن اگر وہ ہمارے کسی محسن کا نام سن کر چڑ جائے تو میں کیا کرسکتی ہوں‘‘۔
یوسیبیا مسکرائی۔ ’’پگلی کہیں کی، تمھیں اُس کے سامنے عاصم کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘۔
’’امی نے اُس سے صرف یہ پوچھا تھا کہ مصر میں پیش قدمی کرنے والی فوجوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی لیکن وہ آپے سے باہر ہوگیا‘‘۔
’’تمہیں اُس سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، کیا تمہارے ابا جان نے یہ بات معلوم کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ اُس کا احسان نہیں بھول سکتے بیٹی! لیکن تمہیں کسی وقت بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تم سین کی بیٹی ہو، اور عاصم…‘‘
فسطینہ نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’اور عاصم ایک مصیبت زدہ عرب ہے۔ یہی کہنا چاہتی تھیں نا آپ؟‘‘۔
ماں نے کہا۔ ’’بیٹی! اگر وہ پورے عرب کا بادشاہ ہوتا تو بھی میں یہی کہتی کہ تمہیں اُس کے متعلق اِس سے زیادہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُس نے مصیبت کے وقت ہماری مدد کی تھی۔ اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ساری عمر اُس کے اِس احسان کا بدلہ دیتے رہیں۔ تمہیں یہ شکایت نہیں ہوسکتی کہ تمہارے باپ نے اُس کے احساں کا بدلہ دینے میں نُجل سے کام لیا ہے۔ ایک گمنام اور بے وطن عرب کو مایوسی اور بددلی کی دلدل سے نکال کر ایرانی لشکر کے بڑے بڑے سرداروں کے دوش بدوش کھڑا کردینا معمولی بات نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب اُسے ہمارا خیال بھی نہیں آتا ہوگا۔ ایرج کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ وہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ ایران کے بہت کم لوگ اُس کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اُس کا باپ تمہارے ابا جان کا دوست ہے اور اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ تمہارا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ اگر میرے بس کی بات ہوتی تو میں تمہارے لیے اپنے کسی ہم مذہب رومی یا یونانی کو منتخب کرتی لیکن میں تمہارے باپ کی خاطر اپنی عزیز ترین خواہشوں کی قربانی دینا سیکھ چکی ہوں۔ زمانے کے انقلاب نے اُسے میری قوم اور میرے مذہب کا دشمن بنادیا ہے وہ ظالم نہیں تھا لیکن شہنشاہ کے دربار میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ ایرج ان گنت خوبیوں کا مالک ہے۔ لیکن اگر اُس میں کوئی خوبی نہ ہوتی۔ اگر وہ بدصورت ہوتا تو بھی شاہی خاندان سے ناتا جوڑنے کے لیے تمہارا باپ تمہاری قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا‘‘۔
’’نہیں‘ نہیں‘ امی جان!‘‘۔ فسطینہ نے آبدیدہ ہو کر کہا۔ ’’میرے ابا جان ایران کا تخت حاصل کرنے کے لیے بھی میری آنکھوں میں آنسو دیکھنا گوارا نہیں کریں گے‘‘۔
’’بیٹی تمہارے ابا جان کو اِس بات کا یقین ہے کہ ایرج کی بیوی بن کر تم اپنی قسمت پر ناز کرو گی اور اُن کے اس یقین میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آسکتی‘‘۔
(جاری ہے)