آج سے 30، 40 سال پہلے کبھی کسی کو کرسی پر نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ کوئی بہت ہی ضعیف فرد ہوتا تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کرتا۔
آج جس مسجد میں چلے جائیں، کرسی پر نماز ادا کرنے والے بہت سے مل جائیں گے۔ وجہ معلوم کریں، جواب کمر کا مسئلہ ہے، کمر کی کمزوری ہے، جھکنے میں درد ہوتا ہے، کمر کے عضلات کمزور ہیں، ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہل گئے ہیں ۔ ڈاکٹرنے جھکنے سے منع کیا ہے۔
ہم نے ماہرین اعصاب (Neurologist) سے وجہ دریافت کی، ان میں امریکا سے پروفیسر ڈاکٹر انوار الحق، کینیڈا سے ڈاکٹر اسلام، آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شامل ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ معاشرے میں کمر اور گردن کی تکالیف میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارا لائف اسٹائل تبدیل ہوگیا ہے اور “کمر کی حفاظت کیسے کریں” اس کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔ ہمارے بزرگ پیدل سفر زیادہ کرتےتھے۔ اب تو مختصر سفر بھی لوگ رکشہ، موٹر سائیکل اور کار میں کرتے ہیں۔ پہلے لوگ زیادہ دیگر تک بیٹھتے نہیں تھے، اب کمپیوٹر کے آنے کے بعد گھنٹوں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ پہلے سواری گھوڑا گاڑی یا کم رفتار سواری ہوتی۔ سائیکل چلاتے تھے۔ اب تیز رفتار گاڑیاں لمبے سفر، چاہے وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہوں ۔ کار، موٹر سائیکل، جہاز میں ہوں، لمبے لمبے سفر کرتے ہیں۔ گھنٹوں بیٹھ کر سفر کرنے سے کمر کے عضلات کو تکلیف ہوتی ہے۔ آفس میں گھنٹوں بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کرنا اور کمر کی حفاظت اور صحیح پوزیشن میں بیٹھنے کا شعور نہ ہونا بھی بڑی وجوہات ہیں۔
سب سے پہلے کمر اورگردن کی ساخت کے بارے میں بنیادی معلومات ہونا ضروری ہے۔
Back Bone کے متعلق بنیادی معلومات
کمر کوئی ایک لمبی ھڈی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی گول ہڈیاں ہوتی ہیں ۔ انہیں مہرہ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح بنایا ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کو ایک خاص شکل دیتی ہیں۔ ان مہروں کی تعداد تقریبا 26 ہوتی ہے۔ یہ ایک سائز کی نہیں ہوتیں۔ان کے درمیان میں کُشن ہوتا ہے۔یہ کُشن ان ہڈیوں کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس کُشن کی وجہ سے کمر کو لگنے والے جھٹکے برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ان ہڈیوں کے درمیان میں بڑا سوراخ ہوتا ہے۔اس میں دماغ سے نکلنے والے مرکزی اعصاب حرام مغز گزرتے ہیں۔
مہروں کے دونوں طرف سوراخ نکلتے ہیں جن سے دماغ کے اعصاب جو حرام مغز سے نکلتے ہیں ، ہمارے ہاتھ پاؤں اور دیگر نچلے حصے کو دماغ سے ملاتے ہیں ۔یہ مہرے تاروں (ligaments) کے ذریعے آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ ان کو مسلز سہارا دیتے ہیں۔ان کی شکل الٹا S کی ہوتی ہیں یہ بالکل سیدھی نہیں ہوتی۔ان ہڈیوں کا سائز مختلف ہوتا ہے۔ ان کے درمیان جوڑ کی جگہ نازک ہوتی ہے۔ان ہڈیوں کو مسلز (Muscles) سہارا دیتے ہیں۔یہ مسلز کمزور ہوتے ہیں۔اس لیے ہمیں اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کمر کی حفاظت کرنی چاہیے۔
اللہ نے انسان کو پیدا کیا، اس کی مشکلات اور تکالیف کے حل کے لیے گائیڈ لائن بھیجی۔ نبیؐ رحمت اللعالمین ہیں۔ آپ پر قران نازل ہوا۔ قران نے ہمارے دیگر مسائل کے علاوہ کمر درد کے مسائل کا حل بتایا ۔ کائنات کی سب سے پرامن جگہ جنت ہے۔ اگر ہم دنیا میں جنتی لوگوں کی طرح بیٹھیں تو پرسکون رہیں گے۔
جنتی کیسے بیٹھتے ہیں
مُّتَّکِئِیْنَ فِیْہَا عَلَی الْأَرَائِکِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقاً (سورہ کہف،۳۱)
“اور تخت پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرام گاہ ہے۔”
ہُمْ وَأَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلَالٍ عَلَی الْأَرَائِکِ مُتَّکِؤُونَ (سورہ یٰسین،۵۶)
“وہ بھی اور ان کی بیویاں بھی سایوں میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔”
مُتَّکِئِیْنَ فِیْہَا یَدْعُونَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَشَرَابٍ ( سورہ ص۔۵۱)
“اس میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔”
مُتَّکِئِیْنَ عَلَی سُرُرٍ مَّصْفُوفَۃٍ وَزَوَّجْنَاہُم بِحُورٍ عِیْنٍ ( سورہ طور۔۲۰)
“بیٹھے ہوں گے تخت پر لائن سے(صف میں) ۔”
مُتَّکِئِیْنَ عَلَی فُرُشٍ بَطَائِنُہَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ وَجَنَی الْجَنَّتَیْنِ دَانٍ ( سورہ رحمن۔۵۴)
“ایسے فرش پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں کہ جن کے غلاف ریشم کے ہوں گے۔
مُتَّکِئِیْنَ عَلَی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ ( سورہ رحمن۔۷۶)
“سبز خوبصورت نفیس مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ ہوں گے۔”
عَلَی سُرُرٍ مَّوْضُونَۃٍ ۔مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِیْنَ ( سورہ واقعہ۔۱۵تا۱۶)
“سونے کے تاتروں کے تخت پر آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔”
مُتَّکِئِیْنَ فِیْہَا عَلَی الْأَرَائِکِ لَا یَرَوْنَ فِیْہَا شَمْساً وَلَا زَمْہَرِیْراً ( سورہ الدھر۔۱۳)
“اس میں تخت پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔”
وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَۃٌ ۔وَزَرَابِیُّ مَبْثُوثَۃٌ ( سورہ غاشیہ۔۱۵تا۱۶)
“اور گاؤ تکیے قطار(لائن) میں لگے ہوئے اور گدے بچھے ہوئے۔”
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محفل میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے ہیں ، دونوں پاؤں زمین پر ہیں ، ٹانگیں ہاتھوں سے پکڑی ہوئی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھے ہیں ٹانگوں اور کمر کو ایک کپڑے کے ذریعے آپس میں باندھا ہوا ہے۔ اس طرح کمر کو سہارا دیا ہوا ہے۔(بخاری، مسلم)
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تکیہ لگائے ہوئے دیکھا۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین محفل میں ہوتے اگر تکیے کم ہوتے تو شئیر کرتے۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں پاؤں ہاتھ سے پکڑ کر (کمر کو ہاتھوں سے سہارا دے کر) بیٹھے۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جب بیٹھے تو ایک کپڑے کو ٹانگوں اور کمر کے گرد باندھ لیتے۔ اس طرح کمر کو سہارا ملتا۔(بخاری، مسلم، ترمذی)
نماز میں کمر کی حفاظت کی پریکٹس
نماز کی مختلف حرکات میں کمر کے مسلز اور گردن کے مسلز کی Exercise ہوتی ہے جو ہمیں متوجہ کرتی ہےکہ ہم ان مسلز کی حفاظت کریں۔رکوع اور قاعدہ میں فزکس کا اصول اپنایا گیا ہے۔
مثال:
آپ کا مشاہدہ ہوگا کہ بجلی کے کھمبے کو سہارا دینے کے لیے ایک مضبوط تار کھمبے سے کچھ دور باندھا جاتا ہے۔اسی اصول پر بریکٹ لگاتے ہیں تاکہ مضبوطی رہے ۔ ایک زاویہ °90 کا اور دو 45° ، 45° کے ، یہ فزکس کا اصول ہے مضبوطی کے لیے۔
رکوع:
رکوع میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے ہیں اس طرح °90 کا اور دو 45° ، 45° کے زاویے بنتے ہیں۔ اسی طرح قاعدہ میں ہوتا ہے۔یہ کمر کی حفاظت کی عملی تعلیم ہے جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزانہ پریکٹس کے لیے سکھائی۔ اس طرح نماز کے ذریعے کمر کی حفاظت کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔نماز کی مختلف پوزیشن میں کمر، گردن کی ورزش بھی ہوجاتی ہے۔
کھڑے ہوئے کمر کی حفاظت
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر کی حفاظت کا طریقہ سکھایا جب زیادہ دیر تک کھڑا ہونا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو عصا استعمال کرتے۔آج بھی جمعہ کے خطبہ کے موقع پر امام صاحب عصا (یا لمبا مضبوط ڈنڈا) استعمال کرتے ہیں۔جمعہ کے موقع پر خاص طور پر کمر کی حفاظت کی یاد دھانی کرائی جاتی ہے۔ڈنڈا یا عصا استعمال کرنے سے کمر کو سہارا ملتا ہے۔کمر کے عضلات زیادہ دیر تک کھڑے ہونے پر تھک جاتے ہیں ۔ انہیں سہارا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔موجودہ دور میں عصا کی جگہ ڈائس ایجاد ہوا ، اسے ضرور استعمال کریں۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیر تک کھڑے ہوکر بات کرنے کے لیے کمر کو سہارا دینے کے لیے عصا استعمال کیا۔آج ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں عصا ، ڈائس یا کرسی سے سہارا ، کوئی بھی طریقہ لیکچر دیتے ہوئے ؟ استعمال کرنا ضروری ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق کمر کو سہارا دے کر لیکچر دیں گے تو تھکن کم ہوگی اور درد اور تکلیف سے بچیں گے۔
گردن کی حفاظت
گردن کی حفاظت کا بہترین طریقہ نبیؐ نے سکھایا۔آپؐ جب بھی کسی سے بات کرتے پورا جسم اس کی طرف پھیر لیتے اور بات کرتے۔ (ترمذی)
واضح رہے کہ گردن موڑ کر بات کرنے سے گردن کے مسلز کو نقصان پہنچتا ہے۔مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کا طریقہ اہل جنت کا ہے۔ یہی طریقہ ہے جسے دنیا میں اپنا کر ہم بھی کمر درد اور گردن کے درد سے بچ سکتے ہیں۔قرآن و نبیؐ کی عملی تعلیمات سے جو اصول سیکھا وہی نبیؐ کا عملی دیا ہوا اصول ہے۔
“ہمیں روزمرہ کے معمولات صبح سے رات تک کمر اور گردن کی حفاظت کی فکر کرنی ہے۔ ہر وہ طریقہ اختیار کرنا جس سے کمر اور گردن کے مسلز کو سکون ملے۔ نبیؐ کی سنت پر عمل کرنا ہے۔ ”
اب ہم اگر وزن اٹھائیں
کسی چیز کو دھکا دیں، پیدل چلیں، کرسی میں آفس ، گھر، کار، بس میں بیٹھیں ہر جگہ کمر اور گردن کی حفاظت کا طریقہ اختیار کریں، یہی سنت رسولؐ ہے۔ اس کا فوری فائدہ نظر آئے گا۔ درد سے بچے رہیں گے، اسی طرح مصالحہ کھڑے ہوکر پیسیں، استری کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے استری اسٹینڈ پر رکھ کر جسم کو سہارا دینا، کھانا پکاتے ہوئے چولہے کا اتنا اونچا رکھنا کہ ہاتھ پہنچ جائے۔ چولہے کا لیول قد کے حساب سے رکھنا۔ یہ سب وہ عملی کام ہیں جسے کرتے ہوئے اگر ہم قرآن و سنت کے سکھائے گئے بنیادی اصول “کمر اور گردن کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے” پر عمل کریں۔ تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دکھ درد تکلیف سے بچ جائیں گے۔زندگی پُرسکون گزرے گی۔
(اس مضمون کی تیاری میں ڈاکٹر ظفر اقبال ، ڈاکٹر ساجد جمیل اور ڈاکٹر عارف صدیقی نے معاونت کی ہے۔)