یہ وطن ہمارا ہے

267

14 اگست 1947ء وہ روشن دن تھا جب مسلمانان ہند کی کوششوں سے اسلامی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ چمکتے تابناک چاند کی طرح یہ ریاست کرہ ارض پر نمودار ہوئی تو کفار یہود و نصاریٰ کے لیے اس کا وجود ’’ایک چیلنج‘‘ بن گیا کیوں کہ یہ ایک خالص اسلامی ریاست تھی جغرافیہ لحاظ سے بھی اس ارضِ وطن کا خطہ اہمیت کا حامل ہے جس طرح مسلمانان ہند اس اسلامی ریاست کی (وجود) آزادی کے لیے ان دجالی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے وہ دنیا کے لیے یہ ایک ’’انمول مثال‘‘ ہے اور وہ جذبے‘ وہ قربانیاں قابل تحسین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دجالی قوتیں اس ریاست پاک کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھ رہی ہیں۔
دوسری طرف عالم اسلام کی نظریں بھی اس ریاست پر مرکوز تھیںکہ یہ اسلام کا قلعہ ہے‘ آنے والے وقت نے بھی ثابت کیا کہ پاکستان اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ہے جو ناقابلِ تسخیر ہے لیکن معذرت کے ساتھ یہ مجھ ناقص عقل اور ناچیز کی رائے ہے کہ آزادی کے بعد اہلِ وطن کی ایمان داری اور حکمرانوں کی وفائوں کی وجہ سے یہ نومولود ریاست ترقی کی راہ پر گامزن تھی اگر اسی طرح سلسلہ جاری رہتا تو آج پاکستان دنیا کے طاقتور ممالک میں سرفہرست ہوتا۔ اب وہ سلسلہ مانند پڑ گیا ہے اس اسلامی ریاست کو صرف بیرونی دشمنوںسے ہی نہیں بلکہ اندرونی دشمنوں سے بھی واسطہ پڑا ہے۔ ان اندرونی سازشوں اور فسادی ذہنوں نے ملک کے اندر انتشار پھیلا دیا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر نیچے تک ایسے عناصر ہیں جو صرف اپنا مفاد چاہتے ہیں اور اسی اندرونی انتشار سے بیرونی قوتیں فائدہ حاصل کر لیتی ہیں۔ اللہ ہمیں ’’دوبارہ‘‘ ایسی گھنائونی سازشوں اور فتنوں سے محفوظ رکھے جس سے ہمارا ایک بازو کٹ چکا ہے کہتے ہیں کہ عقل مند ایک ٹھوکر کھانے سے سنبھل جاتا ہے لیکن افسوس اس ’’اسلامی ریاست‘‘ کے یہ ’’باشندے‘‘ صرف نماز روزے تک ہی دین کو محدود رکھتے ہیں جب کہ ’’دین‘‘ اور ’’بڑا وسیع‘‘ ہے اسلام کے نام پر وطن تو حاصل کر لیا لیکن اپنے آپ کو ہم نے اسلام سے دور رکھا۔ حکمرانوں سے لے کر عوام تک جن برائیوں میں ملوث ہیں وہ اس ریاستِ اسلامی کی بنیادوں کو کس طرح مضبوط رکھ سکتے ہیں خلفائے راشدین نے اپنی ذاتوں کو اسلامی نور سے منور کرکے اسلامی ریاستوں کو ’’مثالی‘‘ بنایا خود اور ان کے عمل دار بھی راتوں کو جاگ کر اپنی ذات کو تکلیف میں رکھ کر عوام کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اسی خدمت خلق کی صف کی بدولت عوام امن وامان و خوش حالی کی زندگی گزارتے تھے جیسا کہ حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ ’’بھیڑ بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔‘‘ (سبحان اللہ) آج تو ایک فرد گھر سے صبح نکلتا ہے تو شام کو جب تک گھر نہیں پہنچتا سب اس کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ راہ چلتے لوگ جان و مال سے محفوظ نہیں رہے‘ دن بہ دن جرائم میں اضافے نے عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ کون سا جرم ہے جو اس ریاستِ اسلامی میں نہیں۔ چوری‘ ڈکیتی‘ لوٹ مار‘ رشوت‘ زنا‘ مہنگائی‘ دھوے بازی ہر سرکاری محکمہ ان برائیوں میں ملوث ہے ان محکموں میں گنتی کے لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی ذات کو ان غلاظتوں سے بچانے کی کوشش کی ہوگی۔ پچھلے دنوں کہیں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو سرکاری اسکول کی ملازمت سے ریٹائر ہوئی تھی (یہ خاتون دینی تعلیم یافتہ اور صوم صلوٰۃ کی پابند ہیں) میں نے اس سے کہا کہ آپ کے واجبات و پنشن وغیرہ تو بڑی مشکل سے ملیں گے‘ کہنے لگیں ’’مل گئے‘‘ میں نے حیرانی سے کہا بغیر رشوت کے کیسے ممکن ہوا؟ کہنے لگی ’’میں مجبور ہوگئی اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘ یعنی اس ریاست اسلامی میں ’’اپنے ہاتھ‘‘ صاف رکھنا نہایت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ اس نوعیت کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہے ہر محکمے میں یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ اب عام ہو گیا ہے کہ ہمیں سب معمول کے مطابق ہی لگ رہا ہے۔
کسی نے سچ ہی کہا کہ ’’جیسے عوام ویسے حکمران‘‘ ’’جیسے حکمران ویسے عمل دار‘‘ ہمارے حکمرانوں کے کیا ہاتھ صاف ہیں؟ چند کے علاوہ باقی کے بارے میں اکثر سنتے رہتے ہیں کہ ’’کیا کچھ کر رہے ہیں۔‘‘ پاکستان کی سیاست کو انہوں نے اکھاڑا بنایا ہوا ہے‘ ان کے دنگل کی وجہ سے عوام پسے جا رہے ہیں‘ حکومت حاصل کرنے کی رسا کشی میں وہ اصل فرائض کو فراموش کر چکے ہیں کہ ان کے ان سرگرمیوں سے ملک کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ کرسی ان کے لیے اہم ہے‘ کرسی پر بٹھانے والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ملک کا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ بڑے بڑے جرائم کے باوجود آزد ہیں جس ملک میں انصاف کا یہ حال ہو کہ معمولی مجرم جیل میں اور بڑا مجرم کھلی فضا یا بیرون ملک ٹھاٹ کی زندگی گزارے وہاں مذکورہ بالا جرائم تو ہونا لازمی ہے۔ ان جرائم کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے والے خود ہی اس دلدل میں گرے ہوئے ہیں ایسی صورت حال سے پھر مہنگائی ہے زور پکڑ سکتی ہے جس کہ وجہ سے غریب اور متوسط طبقے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
کس کس چیز کا رونا رویا جائے صرف اس دس‘ پندرہ دن کی بارش کی وجہ سے پورے ملک کا حال دیکھیں؟ ہر صوبہ متاثر ہے‘ بارانِ رحمت نااہلوں کی وجہ سے بارانِ زحمت ہو گئی ہے‘ سیوریج لائنوں کی خرابی‘ ٹوٹی پھوٹی خستہ حال سڑکوں نے شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے جس سے کچی آبادیوں میں رہنے والے زیادہ متاثر ہیں‘ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ نجی طور پر خدمت کے مخصوص ادارے جگہ جگہ متاثرین کی مدد کے لیے موجود ہیں۔ الحمدللہ یہ ایک بہترین خوبی ہے‘ ان خدمت کے اداروں کی جو ہر موقع اور مشکل میں عوام کے ساتھ ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ ادارے کم و سائل کے باوجود عوام کی خدمت کے کاموں میں آگے ہیں تو کیا متعلقہ محکمے اپنی کارکردگی نہیں نبھا سکتے؟ جنہیں شہروں کی ترقی اور منصوبہ بندی کے لیے بھاری فنڈز بھی مہیا کی جاتی ہے‘ ان رقوم سے کیا‘ کیا جا رہا ہے اگر آدھا بھی لگایا جاتا تو کچھ تو نظر آتا۔ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
ہم ہر سال 14 اگست کو ’’یوم تجدید عہد‘‘ کے طور پر بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں‘ خدا ہماری اس اسلامی ریاست کو قائم و دائم رکھے‘ اس کی سلامتی و عافیت کے لیے صرف دعائیں نہیں عملی کارکردگی کی بھی ضرورت ہے۔ ’’میں‘‘ کے چکر سے نکل کر ’’ہم‘‘ کی لڑی میں پرونا ہوگا۔ وطن کی ترقی و شادمانی کے لیے اپنے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرکے اپنے فرائض کو ایمان داری سے سنبھالنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کی تقویت اور بقا کے لیے ہر ایک کو ’’مسلمان‘‘ بننا ہوگا… جی ہاں خود غرضی‘ لالچ‘ جھوٹ‘ دھوکہ‘ فریب‘ رشوت جیسی برائیوں سے ہر محکمے کو پرہیز کرنی ہوگی۔
اس 14 اگست کو سب مل کر ملک کی سلامتی کی دعا کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے کی کوشش بھی کرنی ہوگی۔ ’’یہ وطن ہمارا ہے‘‘ ہمارا وطن جسے ہم ہی شاد و آباد رکھ سکتے ہیں۔

حصہ